اسلام آباد (تجزیہ / انصار عباسی) مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر اور 2018ء کے انتخابی منظرنامے کے بعد وزیراعظم کے عہدے کے سر فہرست رہنما سمجھے جانے والے شہباز شریف محتاط بھی ہیں اور سمجھدار بھی۔ وہ بے صبری کے ساتھ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے بھائی نواز شریف کے ہمراہ عوام کے ہجوم میں کھڑے نظر آئیں لیکن ساتھ ہی اہم حلقوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔ مختصراً کہا جائے تو وہ نواز شریف کا بیانیہ اختیار کیے بغیر نواز شریف کا ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کا صدر بننے کے معاملے میں اہم سنگِ میل عبور کیا ہے، شکریہ سپریم کورٹ کے ذریعے ان کے بھائی نواز شریف کی نا اہلی کا۔ تاہم، آگے کا راستہ ان کیلئے اب بھی دشوار ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم آفس تک پہنچنے کا طویل عرصے سے دیکھا جانے والا ان کا خواب آسان اور پرسکون نہیں۔ پنجاب میں شہباز شریف کی کارکردگی نے 2013ء کے انتخابات میں زبردست محرک کا کام کیا۔ نواز لیگ، جس کا زیادہ تر ووٹ بینک پنجاب میں ہے، کو اب یہ توقع ہے کہ شہباز شریف کی کارکردگی سے فائہ اٹھایا جائے گا لیکن نواز لیگ میں سب ہی جانتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں توجہ کا مرکز نواز شریف کا بیانیہ ہوگا۔ اگرچہ شہباز شریف کی حکومت کا عرصہ کرپشن کے کسی بھی طرح کے سنگین الزامات سے پاک رہا لیکن حال ہی میں وہ اپنی حکومت کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے میڈیا کے ایک حلقے اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ میڈیا نے انہیں مبینہ ملتان میٹرو کرپشن کیس میں گھسیٹا، یہ بات ایک چینی کمپنی سے جڑی تھی لیکن بعد میں یہ جعلی خبر ثابت ہوئی کیونکہ پاکستانی اور ساتھ ہی چینی حکام نے بھی اس خبر کی تردید کی۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر کے کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ ملتان میٹرو والی کہانی شہباز شریف کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کیلئے گھڑی گئی تھی۔ لیکن حالات شہباز شریف کیلئے اس وقت سنگین ہوگئے جب نیب نے سرگرمی کے ساتھ پنجاب میں دلچسپی لینا شروع کی۔ حالیہ مہینوں کے دوران، بیورو نے نہ صرف شہباز شریف کو طلب کیا بلکہ صوبائی اداروں کے 12؍ سے زائد اداروں کے حوالے سے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔ شہباز شریف اور ان کی حکومت کو بظاہر اس وقت بڑا جھٹکا لگا جب نیب نے ان کی بیوروکریسی کی ٹیم کے اہم رکن احد چیمہ کو مبینہ کرپشن پر گرفتار کر لیا۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نیب کو شہباز شریف یا ان کی حکومت کیخلاف کوئی ٹھوس ثبوت ملتے ہیں یا نہیں۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ ارادے واضح اور مرتکز ہیں کہ شہباز شریف کیخلاف کچھ نہ کچھ تلاش کرنا ہے۔ لہٰذا، ان کیلئے آگے کا راستہ آسان نہیں۔ بصورت دیگر، حدیبیہ کیس ان کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہا تھا۔ اگرچہ نیب نے اس کیس میں نواز شریف کو بھی پھنسا دیا تھا لیکن درحقیقت یہ کیس شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کیلئے سنگین معاملہ بنا ہوا تھا۔ شہباز شریف کی قسمت اچھی تھی کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ کیلئے یہ معاملہ بند کر دیا۔ شہباز شریف طاقتور سمجھے جانے والے حلقوں کا ہدف ہیں یا نہیں، لیکن وہ اس طرح کے رد عمل کا اظہار نہیں کریں گے جس طرح کا رد عمل نواز شریف اور ان کی بیٹی نا اہلی کا فیصلہ آنے کے بعد ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ شہباز شریف نے کبھی طاقتور حلقوں کو ناراض کرنے کی کوشش نہیں کی چاہے انہیں سمجھوتا کرنا یا گھٹنے ٹیکنا ہی کیوں نہ پڑ جائیں۔ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ شروع سے ہی وہ جنرل مشرف کے ٹرائل کے مخالف تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کچھ حلقوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پرسکون تعلقات کے خواہاں رہے ہیں۔ کیا اب وہ اس رویے میں تبدیلی لائیں گے جب ان کے بھائی کا بیانیہ مقبول ہو چکا ہے؟ اس کا ممکنہ جواب نہیں ہے۔ وہ اور ان کے بڑے بیٹے نے ہمیشہ سے ہی عوام میں اپنے بھائی اور مریم کے اداروں پر حملوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اور اب مسلم لیگ (ن) کا صدر بننے اور وزیراعظم کے عہدے کے قریب پہنچنے کے بعد، شہباز شریف فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کریں گے اور نہ ہی عدلیہ پر۔ وہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ان کا سفر خراب ہوجائے۔ منگل کو شہباز شریف نے پارٹی کا صدر بننے کے بعد جو لکھی ہوئی تقریر پڑھی، وہی ان کی پالیسی رہے گی۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، وہ اپنے بڑے بھائی سے ہمدردی کا اظہار کریں گے اور ان کی نا اہلی کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار بھی کریں گے لیکن عدلیہ کے متعلق حد عبور نہیں کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی بجائے، شہباز شریف اور ان کے بڑے بیٹے سلیمان شہباز، کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے طاقتور حلقوں میں اچھے تعلقات ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران جب نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم کھل کر عدلیہ کےفیصلے پر شدید رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں، شہباز شریف نے حدیبیہ اور اورنج ٹرین کیس میں اپنے حق میں فیصلہ آنے پر سپریم کورٹ کی تعریف کی تھی۔ جو لوگ شریف فیملی کو قریب سے جانتے ہیں ان کی رائے ہے کہ شہباز شریف اگرچہ اپنے بھائی کی پیٹھ میں چھرا نہیں ماریں گے لیکن ان کے تحت مسلم لیگ (ن) اپنا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ مخالف بیانیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ نرم کرتی جائے گی۔ شہباز شریف جانتے ہیں کہ یہی واحد حکمت عملی ہے جو انہیں ملک کے چیف ایگزیکٹو کے دفتر میں پہنچا سکتی ہے۔