• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صحت مند زندگی کا راستہ بہتر نظام ہاضمہ

نجم الحسن عطا

انسان نظام ہضم اندرونی ان عضلات پر مشتمل ہے جو غذا کی ضروری غذائیت کو جسم کے اندر جذب کرنے، فالتو غیر استعمال شدہ اور ضائع کردینے والے میٹریل کو ٹھکانے لگا دیتا ہے۔ ایک توانا اور اچھی صحت کے لیے اس نظام کا درست ہونا اولین ضرورت ہے کیونکہ یہ نظام ایسے فضلے اور فالتو اجزائے خوراک ختم کردیتا ہے جو توانائی نہیں پیدا کرتے عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ اپنے معدے اور پیٹ کا خیال نہیں رکھتے اور ایسی غذائیں کھاتے ہیں جو مضر صحت ہوتی ہیں یا ایسے گوشت، تیل یا مسالحہ جات سے بنائی گئی ہوتی ہیں جسے معدہ قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔

 جس سے معدے میں تیزابیت پیدا ہوتی ہے اور زندگی تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے نتیجتاً منہ سے لے کر معدے اور آنتوں میں السر پیدا ہوجاتا ہے جو زخم کی شکل ہوتی ہے جس سے انسان کا کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے اور پھر طویل عرصے تک پرہیز اور ادویات کے ذریعے کسی حد تک نجات مل جاتی ہے۔

 آج کل بازار میں فاسٹ فوڈ اور ملاوٹ شدہ اشیا اور گندے تیل میں بنے ہوئے کھانے نہ صرف نظام ہضم میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں بلکہ دل کی بیماری بھی اسی قسم کی خوراک سے لاحق ہوتی ہے۔ 

لیکن لوگ حفظان صحت کے مطابق نہ تو خوراک استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی محکمہ صحت آلودگی سے بھرپور ملاوٹی غذا اور اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے۔ مسلسل نظام ہضم کے خراب ہونے سے جگر میں بھی مہلک بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

نظام ہضم منہ سے شروع ہوتا ہے اور اگر کھانے کی خوشبو بھی محسوس ہو تو منہ میں لعاب دہن پیدا ہوتا ہے جسے طبی زبان میں (Saliva) کہتے ہیں یہ رقیق، آبی، قدرے تیزابی لعاب جو منہ کے غدود پیدا کرتے ہیں یہ لعاب منہ کو تر اور غذا کو گیلا کرتا ہے اس میں ٹائلین ہوتا ہے جو نشاستے کو ہضم کرنا شروع کردیتا ہے۔

 بعض لوگ غلط خوراک کھانے اور مسلسل تیزابیت رہنے سے منہ میں بھی چھالے ہونے کی شکایت کرتے ہیں اس وجہ سے لعاب دہن کم بنتا ہے جس سے کھانے میں دشواری ہوتی ہے۔ دانت جو نظام ہضم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان کا اجمالی جائزہ ذیل میں پڑھیئے۔

دانتوں کی خصوصیت اور صفائی

انسانی دانت قدرت نے اس طرح تخلیق کئے ہیں جو گوشت خود درندوں سے ذرا ہٹ کر ہوتے ہیں تاہم انسانی دانت گوشت خو ریزہ ریزہ کرکے چبالیتے ہیں اس لئے دانتوں کی صفائی اور ان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ 

دانتوں کی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ یہ سبزیاں اور دیگر خود کترنے اور چبانے کے بعد نظام ہضم کی مددگار ہوتی ہے جن کے دانت نہیں ہوتے یا مصنوعی ہوتے ہیں یا جن کے دانتوں میں کیڑا لگ جاتا ہے یعنی طبی طور پر خراب ہوجاتے ہیں وہ نظام ہضم کو خراب کرتے ہیں اور مصنوعی دانت لعاب دہن بھی بہت کم پیدا کرتے ہیں اس لئے مصنوعی دانتوں والے اشخاص منہ خشک ہونے کی بھی شکایت کرتے ہیں اس لئے دانتوں کو بچپن ہی سے صاف رکھنے کی عادت ہونی چاہئے رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھ کر ٹوتھ پیسٹ سے دانتوں کو صاف کرنا چائے۔ 

میٹھا دانتوں کو جلدی خراب کرتا ہے۔ اس لئے دانتوں کو ہر وقت صاف رکھنا نظام ہضم کے لیے ضروری ہے کیونکہ نظام ہضم ہی انسان کو توانا رکھنے کا اولین ذریعہ ہے۔

انضرائم ہاضمے کی رفتار کو بڑھاتے ہیں

غذا کو ہضم کرنے میں کیمیائی ردعمل بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ غذا کو چباکر باریک کرتا ہے اور اسے ہضم کرنے میں انضرائم مدد کرتے ہیں۔ بلکہ اس کی رفتار بڑھاتے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے انضرائم کیا ہوتے ہیں یہ وہ عناصر ہوتے ہیں جو ہمارے جسم خصوصی پروٹین کی صورت پیدا کرتا ہے۔ جو نظام ہضم کے مددگار ہوتے ہیں انہیں ڈائی جیسٹیو انضرائم کہتے ہیں۔ ان کی بھی کسی قسمیں ہوتی ہیں جو نشاستے کو ہضم کرتے وہ الگ ہوتے ہیں جو پروٹین اور چربی کو توڑتے وہ الگ ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ دانتوں اور لعاب دہن کی مدد سے ہوتا ہے۔

معدے کے گیسٹرک جوسز ،کتنے ضروری؟

معدے میں گیسٹرک جوسز یہ دیگر ایسڈز سے مل کر پروٹین کو ہضم کرتے ہوئے ان تمام بیکٹریا کو سرے سے ختم کردیتے ہیں جو مضر صحت ہوتے ہیں اس لئے انسانوں کو سوچنا چاہئے کہ معدے کو سخت، مضر صحت اور ملاوٹی غذائوں سے پرہیز کریں تاکہ اس نازک نظام میں خلل پیدا نہ ہو۔ معدہ خراب ہو، تیزابیت غلط کھانے سے پیدا ہو تو اس سے سربھاری ہوجاتا ہے اور اعصاب بھی ڈسٹرب ہوجاتے ہیں اور انسانی بے چینی محسوس کرتا ہے آپ قدرت کے نظام کا اندازہ کریں کہ چھوٹی آنت کی لمبائی 20 فٹ ہوتی ہے۔ جہاں خوراک کا بہت بڑا حصہ جذب ہوتا ہے۔

 یہاں خون کی نالیوں میں مذکورہ خوراک اپنی قدرتی شکل میں جاتی ہے اور یہ شکل جگر میں ٹرانسپورٹ ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کیجئے کہ غالب نے 200 سال پہلے ایک مصرعہ کہا تھا کہ ’’دل کا کیا رنگ کریں خون جگر ہونے تک‘‘ اس ایک مصرعے میں نظام ہضم کو بیان کردیا گیا۔ جگر جسم میں گلوکوز یا دوسری اقسام شکر کی گلائی کرکے ’’جین‘‘ میں منتقل کرتا ہے۔

 اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ شراب یا الکوحل سے جگر خراب ہوجاتا ہے کیونکہ شراب اور نشہ آور اشیا کے کیمیکلز جگر کو ختم کرتے ہیں جب ان غیر ضروری اور مہلک چیزوں کی زیادتی ہوجائے تو جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے جس سے انسان کا بچنا محال ہوجاتا ہے۔ جگر سے جو کچھ بچتا ہے وہ بڑی آنت میں جاتا ہے۔ یہ پانچ فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس میں تمام ویسٹ اکٹھا ہوتا ہے اور وہ فضلے کی صورت نکل جاتا ہے۔

نظام ہضم میں اہم عضلات کا کام

زبان سے نظام ہضم شروع ہوتا ہے لعاب دہن اور دانت کام کرتے ہیں اس میں حلق کا بہت اہم رول ہوتا ہے جسے طبی زبان میں Epigclotitis کہتے ہیں۔ یہ زبان کی جڑ میں واقع کُرکُری ہڈی جو ہوا کی نالی کو دبا رکھتی پھر نوالہ یا گھونٹ نگلتے وقت اسے نرخرے میں داخل ہونے سے روکتی ہے یہ عمل گڑبڑ ہوجائے تو موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔

 نظام ہضم میں جگر کا کام ہوتا ہے، گال بلیڈر، بائل ڈک، ڈوڈنم چھوٹی آنت اور بڑی آنت پورے نظام ہضم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یاد رکھئے جہاں معدہ جگر انضرائم اپنا اپنا کام کرتے ہیں وہاں لبلبہ بھی بہت اہم ہوتا ہے جو حسب ضرورت انسولین خوراک کے ساتھ ہم آمیز کرتاہے۔ لبلبہ کام نہ کرے تو زیابیطس کی بیماری ہوجاتی ہے۔ بڑی آنت میں پانی اور معدنی نمک جذب ہوکر خون میں شامل ہوجاتا ہے۔

نظام ہضم کا مطالعہ اور علاج کرنے والے ڈاکٹرز

نظام ہضم خراب ہوجائے تو بہت کچھ خراب ہوجاتا ہے اس کے علاج کے لئے گیسٹرو اینٹرولوجی ایک میڈیسن کی برانچ ہے جو اس شعبے کے ڈاکٹر ہوتے ہیں وہ نظام ہضم کے ’’ڈس آرڈر‘‘ کا علاج کرتے ہیں۔ نظام ہضم کی بیماریوں کی کئی علامات ہوتی ہیں۔ 

سب سے پہلے Abdominal میں درد ہوتا ہے اسے شکم پیٹ، بطن سینے پیٹرو کے درمیان انسانی جسم کا حصہ جس میں معدہ، جگر، تلی، گردے، مثانہ اور انتڑیاں ہوتی ہیں اس سے اندازہ کیجئے کہ نظام ہضم کتنا اہم ہے اور اسے ٹھیک حالت میں رکھنا کتنا ضروری ہے اور لوگ ہیں جو مرضی آئے کھالیتے ہیں اور مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جگر اور لبلبہ کے علاوہ قبض، تیزابیت، بے چینی، متلی، الٹیاں اور نگلنے میں دشواری جیسے بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

 سب سے خطرناک بیماری نظام ہضم میں جو پائی جاتی ہے اسے کولن کینسر کہتے ہیں اس بیماری کے بارے میں عالمی ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اگر بہت جلد پتہ چل جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے اس سے اندازہ کیجئے کہ نظام ہضم کا مطالعہ کتنا اہم ہے۔

تازہ ترین