فرانسیسی ماہرین بین الاقوامی امور کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان صبر تحمل سے کام لیں یہ ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے، دونوں ممالک ایٹمی قوت رکھتے ہیں ایک چنگاری بھی دنیا کو عالمی جنگ میں لپیٹ سکتی ہے۔
ایک مقامی ’’فری اخبار 20‘‘ کی رپورٹ میں اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلگام میں نہتے سیاحوں پر حالیہ حملہ میں 27 ہلاکتیں ہوئیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ میں ایک اور باب کا اضافہ ہے، اخبار نے انٹرنیشنل میڈیا کی اس رپورٹ کو نقل کیا جس کہا گیا کہ بھارت جہاں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان پر الزام لگا دیتا ہے ایک معمول بن چکا ہے۔
وہاں موجود یورپی سیاحوں کے مطابق واقعہ کے گئی گھنٹوں بعد بھی کوئی امدادی ٹیم یا قانون نافذ کرنے والے ادارے موقع پر نہیں پہنچے جس کے باعث ہمیں گھنٹوں مقامی لوگوں کے گھروں میں محدود رہنا پڑھا۔ مقامی لوگوں نے ان کو بتایا کہ یہ عمل دراصل بھارت کی ہائبرڈ جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا، داخلی عوامی توجہ ہٹانا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے، بھارت کی تاریخ اس طرح کےجھوٹے پراپیگنڈے سے بھری پڑی ہے۔
2007 کا سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ، جس میں 68 افراد جاں بحق ہوئے اور بعد میں ہندو انتہا پسند، حتیٰ کہ بھارتی فوج کا میجر رمیش بھی اس میں ملوث پایا گیا، 2008 کے ممبئی حملے، جنہیں انسدادِ دہشتگردی قوانین کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا اور 2013 میں سی بی آئی کے سابق افسر کے انکشافات نے کئی پردے ہٹا دیے۔
2018 میں انتخابات سے پہلے سیاحوں پر حملے، پلوامہ 2019 کا واقعہ، جہاں بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور بعد میں خود بھارت کے سابق گورنر نے حقائق سے پردہ اٹھایا۔ 2023 میں راجوڑی کا واقعہ جو بی جے پی کے انتہا پسندانہ بیانیے کے عین مطابق سامنے آیا اور اب 2025 کا پہلگام حملہ کسی ڈرامے سے کم نہیں ہے۔
یہ سب واقعات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بھارت کی ریاستی مشینری فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے ایک مربوط بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے مکمل سیکیورٹی لاک ڈاؤن والے علاقے میں، جہاں ہر ساتویں شہری پر ایک بھارتی سپاہی تعینات ہے، ایسے حملے کیسے ممکن ہیں؟ بھارت کا بیانیہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ حقائق کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔
یورپی سیاحوں کو مقامی لوگوں نے مزید بتایا بھارت نے ہمیشہ ایسے جعلی حملے اہم غیر ملکی معززین کے دوروں کے دوران رچائے اور اس بار بھی امریکی نائب صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ بھارت کے خفیہ اور سیکیورٹی ادارے اس طرح کی کارروائیوں میں مہارت رکھتے ہیں، جبکہ بھارتی میڈیا اس ریاستی بیانیے کو تقویت دینے والا اہم پروپیگنڈا ہتھیار ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حالیہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا جو بے بنیاد اور اپنی سکیورٹی کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے مترداف ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری مزاحمتی گروپ نے قبول کی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واقعہ مقامی سطح پر پیش آیا۔ بھارت کو اس بات پر شرم آنی چاہیے کہ مقبوضہ وادی میں سات سے آٹھ لاکھ فوجی تعینات ہونے کے باوجود وہ نہتے سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان نے خارجی فتنے اور دہشتگرد گروہوں کو منظم اور عسکری حکمت عملی سے زیر کرلیا ہے اور پاکستان کے افغانستان کے ساتھ بھی تعمیری تعلقات قائم ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے بھی معاملات ٹھیک روش پر چل رہے ہیں ملک میں بھی سیاسی استحکام آرہا ہے تو یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے ناکام مگر طے شدہ عسکری آپشن آزمانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تاکہ پاکستان کو اپنے پراکسی گروہوں کے ذریعے غیر مستحکم کرے اور فوجی محاذ پر الجھائے مگر بھارت یہ بات بھول جاتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج شہادت کو عزیز رکھتی ہے اور ہندوتوا کے فاشزم کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دینا اس کیلئے باعث فخر ہے۔
پہلگام واقعہ کے حوالے سے کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے یہ دعویٰ جھوٹ، بے بنیاد اور منفی پروپیگنڈا نظر آتا ہے، دیکھا جائے تو یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہوا ہے۔
اگر نقشہ کو دیکھا جائے تو حیران کن بات سامنے آئے گی کہ یہ علاقے پاکستانی سرحد سے کافی دور واقع ہے۔ پہگام پاکستانی سرحد سے تقریباً دو سو کلومیٹر دور ہے اور سری نگر کے مغرب میں تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ درمیان میں بھارت کی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشتگرد باآسانی وہاں پہنچ کر یہ سب کچھ کر جائیں۔