دنیا بھر کے سات عجائبات سے تو آپ سب واقف ہونگے مگر آج میں آپ کو دنیا کے آٹھویں عجوبے سے متعارف کروانا چاہتا ہوں جو ان دنوں پشاور میں زیر تعمیر ہے اور بلا شبہ اس عجوبے کا کریڈٹ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو جاتا ہے ۔لاہور ،راولپنڈی اور ملتان میٹرو پر جنگلہ بس کی پھبتی کسنے والوں نے پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آرٹی ) پروجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا تو کسی کو توقع نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا حکومت کی انتھک جدوجہد کی بدولت یہ منصوبہ عجائبات ِعالم کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گا ۔دنیا بھر میں میگا پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے پی سی ٹو اور پی سی ون تیار کئے جاتے ہیں مگر یہ واحد منصوبہ ہے جسے شروع کرنے سے پہلے پی سی ون تیار کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی یہی وجہ ہے کہ جس طرح گزشتہ 6ماہ کے دوران پشاور میں بنائو اورگرائو مہم چل رہی ہے،اس طرح تو بچے ریت کے گھروندے بنا کر مسمار نہیں کرتے مثال کے طور پر جی ٹی روڈ پر ہشنت گری کے پاس بی آرٹی کاریڈور کی تعمیر کا آغاز ہوا ہی تھا کہ کسی نے بتایا کہ اس کاریڈور کی وجہ سے گلبہار اور سکندرپور کے مکینوں کیلئے پانچ یوٹرن بند ہو جائیں گے اور ارباب سکندر فلائی اوور بنانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا ۔لہٰذا نقشے میں فوری تبدیلی کرکے ارباب سکندر فلائی اوور کے متوازی ایک اور فلائی اوور بنانے کا فیصلہ کیا گیا ،فلائی اوور کی تعمیر کیلئے 35پائلزکی کھدائی ہو چکی تو اے ڈی بی کے کنسلٹنٹ نے اعتراض اٹھادیا ۔یوں ان پائلز کوبند کرکے ایک بار پھر پہلے سے موجود سڑک کی سطح پر ہی ٹریک بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ۔اس مقام سے تھوڑا سا آگے فردوس سینما کے سامنے بی آر ٹی کیلئے طویل انڈر پاس بنانے کیلئے کھدائی کا عمل بہت تیزی سے جاری تھا کہ اچانک معلوم ہوا یہاں تو زیر زمین کھدائی سے شاہی کھٹہ اُبل پڑے گا اور قرب وجوار کے تمام علاقے اس کی لپیٹ میں آ جائینگے ۔چنانچہ ریت کے گھروندے ایک بار پھر منہدم کرکے جی ٹی روڈ کو ہی میٹرو بس کے ٹریک کیلئے بروئے کار لانے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔لگے ہاتھوں قارئین کو یہ بھی بتادوں کہ پشاور کا شاہی کھٹہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں ۔ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سیوریج کا نظام آج بھی اس شاہی کھٹہ کے مرہون منت ہے جو انیسویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے گورنر کی حیثیت سے اطالوی جرنیل پائولو آوی تابیلے نے تعمیر کروایا ۔ 10کلو میٹر پر محیط لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانا سیوریج کا یہ نظام قصہ خوانی اور خیبر بازار سے شروع ہو کر ،جہانگیر پورا ،کوچی بازار ،جنگی محلہ ،محمد علی جوہر روڈ ،پیپل منڈی اور بدھانی تک چلا جاتا ہے۔پشاور کا بچہ بچہ اس شاہی کھٹہ سے واقف ہے لیکن صوبائی حکومت کو اس کی موجودگی کا احساس تب ہوا جب کھدائی کے دوران مزدور اس کے دہانے تک جا پہنچے ۔ اب سب دور اندیش حکام سر جوڑ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ اس شاہی کھٹہ کو یہاں سے کسی طرح اکھاڑ پھینکا جائے یا پھر زیر زمین کے بجائے زمین کی سطح پر ہی ٹریک بنا لیا جائے ۔تھوڑا سا آگے بڑھیں تو صوبائی اسمبلی کے پاس ملک سعد فلائی اوور ہے جو بذات خود ایک حسرت بھری داستان ہے ۔ایم ایم اے کے دورِحکومت میں اس فلائی اوور کا ٹھیکہ دیا گیا تو اس کا نام مفتی محمود فلائی اوور تھا ،پانچ برس گزر گئے لیکن یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو ا۔اے این پی کی حکومت آئی تو اس کا نام بدل کر باچا خا ن فلائی اوور رکھ دیا گیا لیکن نام تبدیل کرکے بھی پانچ برس میں یہ فلائی اوور مکمل نہ ہو سکا ۔تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس ادھورے منصوبے کو مکمل کرنے میں مزید تین سال لگ گئے اور اس کا افتتاح ہوا تو ایک بار پھر نام تبدیل کرکے اسے ملک سعد شہید سے موسوم کر دیا گیا ۔لیکن اب منتوں مُرادوں سے مکمل ہونے والے اس فلائی اوور کو جزوی طور پرتوڑنے کے منصوبے بن رہے ہیں تاکہ بی آر ٹی کا روٹ مکمل کیا جا سکے ۔بی آر ٹی کا روٹ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے تعجب کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔یونیورسٹی روڈ کی طرف مُڑنے کیلئے امن چوک سے تو پشاور کے مکین خوب واقف ہونگے ۔یہاں بی آر ٹی کیلئے بنایا گیا انڈر پاس مکمل ہو چکا تو معلوم ہوا کہ اس کی اونچائی اتنی کم ہے کہ بس گزر ہی نہیں پائے گی ،یوں نئے جوش و جذبے سے ایک مرتبہ پھر کھدائی کا آغاز کر دیا گیا کم وبیش ایسی ہی صورتحال حیات آباد میں تاتارا پارک کے قریب تب پیش آئی جب غلطی کا اِدراک ہونے پر پُل کی تعمیر روک دی گئی اور وہاں بھی کھودی گئی 50کے قریب پائلز کو بھرنا پڑا۔شمع چوک میں بی آر ٹی کیلئے فلائی اوور بننا شروع ہوا تو امریکی قونصلیٹ والوں نے سیکورٹی رسک قرار دیدیا اور یوں یہاں سے انڈر گرائونڈ یعنی ’’نیواں نیواں ہوکر ‘‘نکلنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔کسی شخص کو تین مرلے کا چھوٹا سا مکان بنانا ہو تو کئی بار نقشے بنتے ہیں ،ماہرین سے مشاورت کے بعد حتمی خاکہ بن جانے کے بعد تعمیراتی کام کا آغاز ہوتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ کے اس مہنگے ترین منصوبے پر کام یوں ہو رہا ہے جیسے بچوں کا کھیل ہو ۔اچانک پتہ چلتا ہے کہ نقشے کو تبدیل کردیا گیا ہے اور اب کارخانو مارکیٹ بھی اسٹیشن بنے گا ،کام شروع ہونے لگتا ہے تو نقشہ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو چکا ہوتا ہے ۔گزشتہ برس صوبائی حکومت نے 2ار ب روپے خرچ کرکے پشاور بیوٹیفکیشن پروجیکٹ کے تحت جی ٹی روڈ پر جو نقش و نگار بنائے اور مہنگے پودے لگائے تھے ،وہ بھی اس بی آر ٹی منصوبے کی نذر ہو گئے ہیں ۔کیا تب تبدیلی سرکار کو معلوم نہیں تھا کہ یہاں سے بی آر ٹی روٹ کیلئے کھدائی ہو گی ؟گزشتہ برس اکتوبر میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہونے سے اب تک تقریباً 20مقامات پر نقشے میں اسی نوعیت کی تبدیلیاں ہو چکی ہیں جن میں چندایک کا میں نے ذکر کیا ہے۔
کاغذات میں دی گئی ڈیڈلائن کے مطابق تو بی آر ٹی منصوبے کومارچ 2019ء میں مکمل ہونا ہے لیکن وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی خواہش پر پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے یہ سبز باغ دکھا رکھا ہے کہ اپریل نہیں تو مئی میں حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے آپ کو فیتہ کاٹنے کا موقع مل جائے گا تاکہ انتخابی مہم میں اس منصوبے کو کارکردگی کے طور پر پیش کیا جا سکے۔لیکن جس غیر ملکی ادارے کی خدمات اس منصوبے کیلئے بطور کنسلٹنٹ حاصل کی گئی تھیں ،اس نے 26فروری کو پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو خط لکھ کر متنبہ کیا ہے کہ بار بار ڈیزائن تبدیل کرنے سے گریز کریں اور کنٹریکٹرکیلئے واضح سمت کا تعین کریں وگرنہ صورتحال یہی رہی تو دی گئی ڈیڈ لائن یعنی مارچ 2019ء تک بھی یہ منصوبہ مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔اس منصوبے کا ایک اور نرالہ پن یہ ہے کہ صوبائی حکومت تو بی آر ٹی کے اخراجات کا تخمینہ 49ارب ڈالر بتاتی ہے مگر منصوبے کے فنانسر یعنی اے ڈی بی کے مطابق منصوبے کی مالیت 63ارب ڈالر ہے ۔ جس حساب سے توڑ پھوڑ کی گئی اور جس بے ترتیبی اور بدانتظامی کے ساتھ کام ہو رہا ہے اس کو مد ِنظر رکھا جائے تو اس منصوبے کی مالیت 63ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرتی نظر آتی ہے ۔اب آپ ہی بتائیں اس منصوبے کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کیوںنہ قرار دیا جائے ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)