مسئلہ کشمیر کے حوالے یوں تو کشمیریوں کی جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے اور مسئلہ کشمیر کے عمومی حل سے متعلق کئی طرح کے فارمولے اور آپشنز بھی زیر بحث چلے آرہے ہیں ان دنوں شدت کے ساتھ گلگت بلتستان سے متعلق کئی طرح کی سوچیں کشمیریوں میں گردش کررہی ہیں خاص طورپر پاک چائنا اکنامک کو ریڈور کے بعد حکومت پاکستان کے بعض اقدامات جن سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ اس علاقہ کو مستقل بنیادوں پر پاکستان کا صوبہ بنایاجارہا ہے کہ بعد اندرون ملک کے علاوہ برطانیہ سمیت بیرونی دنیا میں مقیم کشمیریوں میں بھی تشویش کی شدید لہر محسوس کی جاسکتی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کا مستقبل کیاہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھ لیاجائے کہ مسئلہ ہے کیا! اور وہ کون کون سے لیڈران کرام ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار کی خاطر اس مسئلے کو مزید الجھایا،باالفاظ دیگر یہ مسئلہ سنجیدہ تجزیہ کا متقاضی ہے۔خورشید الحسن خورشید جو اس لحاظ سے بھی ایک اہم حوالہ ہیں کہ بانی پاکستان کے پرائیوٹ سیکرٹری رہے اور جدوجہد آزادی کشمیر کے علاوہ مملکت پاکستان کے قیام اور پھر وہاں پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی معیت میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لئے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں آپ ’’ مسئلہ کشمیر کے اوجھل پہلو‘‘ کے سب عنوان سے رقمطراز ہیں کہ ریاست جموں کشمیر سے مراد جموں کشمیر کی وہ سالم ریاست ہے جس پر مہاراجہ ہری سنگھ 14 اگست 1947کو حکمران تھا اور اس کی آئینی حکمرانی مسلم تھی،اس وقت جو علاقے اس ریاست میں شامل تھے آج تین حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ، وہ علاقہ جس پر ہندوستان کا قبضہ ہے اس میں جموں اور سری نگر سمیت وادی کشمیر کے بیشتر حصے شامل ہیں۔ وہ علاقہ جس پر آزاد کشمیر حکومت قائم کی گئی ہے اس میں ضلع پونچھ، مظفر آباد اور میرپور (کوٹلی، بھمبر) شامل ہیں۔ وہ علاقہ جسے شمالی علاقے کہا جاتا ہے اس میں گلگت اور بلتستان کے دو ضلع اور بعض ایجنسی کے علاقے شامل ہیں یہ علاقے براہ راست حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور یہاں پولیٹیکل ایجنٹ اور ریڈنٹ حکومت کرتے ہیں ۔اب وہاں پر وزیراعلیٰ ہیں بقول کے ایچ خورشید اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان تینوں حصوں کو پھر سے ایک اور متحد کیاجائے اور اس کے بعد تینوں حصوں کے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں آزادی کے ساتھ کوئی حتمی فیصلہ کرسکیں۔ یہاں پر میں یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ غلط فہمی جو پاکستان عوام کے ذہنوں میں پیدا ہوئی (یا پیدا کی گئی) وہ یہ تھی کہ تقسیم ہند کے فیصلے کے مطابق ریاست جموں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے حالانکہ یہ تاثر بالکل غلط ہے اور اس کی ذمہ داری بعض پاکستانی لیڈروں اور آزاد کشمیر کے بعض رہنمائوں پر عائد ہوتی ہے یہ لوگ تاریخ کے سیاق وسباق سے ہٹ کر ایسے بیانات دیتے رہے ہیںجن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب یا تو ہند کی تقسیم کے اصولوں سے ناواقف ہیں یا پاکستانی عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔ حالانکہ موٹی سی بات یہ ہے کہ اگر تقسیم کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر پاکستان کا حصہ بن گئی تھی تو مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی کیا ضرورت پیش آئی، مسئلہ کشمیر کو سمجھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی سوچ کی ابتدا اس انداز میں کرے کہ کشمیر آئینی اور قانونی طورپر نہ پاکستان کا حصہ پہلے تھا اور نہ اب ہے پھر ایک بات اور بھی ہے اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ کشمیر آئینی طورپر 1947میں پاکستان کا حصہ بن گیا تھا تو پھر وہاں خود ارادیت یا رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے عنوان سے یہی واضح کرتے ہیں کہ بدقسمتی سے پاکستان میں بیورو کریسی نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر گلگت بلتستان کے عارضی بندوبست کو جسے آزاد کشمیر کے ساتھ ملحق ہوجانا چاہئے تھا کسی صحیح نظام پر قائم نہیں ہونے دیا۔ورنہ اصولی طور پر کشمیر کے اس سارے علاقے میں جو مقبوضہ کشمیر سے الگ کیا گیا تھا ایک نمائندہ جمہوری حکومت بننی چاہئے تھی۔جو ایک طرف ریاست کے باقی ماندہ حصے کو آزاد کرانے کی ذمہ داریاں سنبھالتی اور دوسری طرف ڈوگرہ زمانے کے نظرانداز کیے ہوئے پسماندہ علاقے گلگت بلتستان کے غریب عوام کی اقتصادی اور تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتی، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔کشمیر کے حل کی ممکنہ صورت اس وقت سلامتی کونسل کی وہ قراردادیں ہیں جنہیں بھارت اور پاکستان کی حکومتیں تسلیم کرچکی ہیں اور جس میں گلگت وبلتستان کا علاقہ بھی شامل ہے۔ خورشید ملت واضح کرتے ہیں کہ اگر گلگت اور بلتستان کو باقی کشمیر سے علیحدہ رکھاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کی صورت میں وہاں کے باشندے حق رائے دہی سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ممتاز کشمیری مصنف محمد سعید اسد گلگت بلتستان تاریخی وآئینی حیثیت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس خطے کی تاریخی وتہذیبی شناخت، ثقافتی پہچان اور جغرافیائی اہمیت کو پامال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ارض شمال 1947 کے بعد ایک ایسے المناک المیے سے دوچار ہوئی جس کے نتیجے میں تاریخ کا صدیوں سے جاری تسلسل رک گیا اور یہ حسین وجمیل خطہ نصف صدی پر پھیلی ہوئی ایک دردناک کہانی بن کر رہ گیا۔یہ عظیم سر زمین جسے دنیا کا چھت ، بام ایشیا، سیاحوں کی جنت اور ہند کا گیٹ وے کہاجاتا تھا آج موت وحیات کی کشمکش میں ہے اور یہاں کے انسان اپنے آپ کو لاوارث اور بے گوروکفن لاشہ خیال کرتے ہیں۔گلگت وبلتستان سے ان کا حق آزادی چھین کر انہیں سے دست وپاکیوں کردیا گیا۔ ان کو کشمیر کے قومی دھارے سے علیحدہ کیوں کیاجارہا ہے۔یہ وہ سوالات ہیں جن کے سنجیدہ جوابات وقت کی ضرورت ہیں ۔