• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی کسی ہلکی سی آہٹ سے خوابیدہ یادیں بیدار ہوجاتی ہیںاور نگاہوں کے سامنے گزرے ہوئے واقعات کی کہکشاں جگمگانے لگتی ہے بقول شاعر گزری ہوئی سرگرمیاں، بیتے ہوئے دن پیار کے، بنتے ہیں شمع زندگی اور ڈالتے ہیں روشنی میرے دل صدچاک پہ۔ کچھ ایسی ہی واردات میرے ساتھ چند روز قبل ہوئی۔ جوانی کی دیوانگی، خوابوں کا نشہ، خون کی گرمی، دنیا کو فتح کرنے کی آرزو، ناانصافیوں، غربت اور مسائل کو ختم کرکے ایک نئی دنیا بسانے کا ارادہ اور انقلاب کے سراب کا پیچھا کرتے ہوئے سڑکوں پر گلے پھاڑ پھاڑ کر نعروں سے دل بہلانا ہمارے زمانے طالبعلمی کا سب سے بڑا فریب تھا۔ جوانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جوش زیادہ اور ہوش کم ہوتا ہے، شورش، ہنگامے، ا حتجاج اور جلوس کی وجہ کیا ہے؟ اس سے غرض نہیں ہوتی بس احتجاج کرنے، جلوس نکالنے اور نعرے لگانے کی دیوانگی اعصاب پر سوار ہوتی ہے۔ طاہرہ مظہر علی خان اور 1986میں ریگل لاہور کے چوک پر مظاہرے کا ذکر کرتے ہوئے حامد میر صاحب نے لکھا کہ طاہرہ مظہر علی جام ساقی کو رہا کرو کے نعرے لگوارہی تھی۔ بقول حامدمیر وہ ڈیموکرٹیک ا سٹوڈنٹس کے رہنما کی رہائی کے لئے نعرے لگا رہا تھا۔ مظاہرہ ختم ہوا تو اس نے حبیب جالب سے پوچھا جام ساقی کون تھا؟ اس واقعے کی آہٹ نے میری ایک خوابیدہ یاد کو بیدار کردیا اور

میں ماضی میں سفر کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج لاہور میں جاپہنچا جہاں میں نے بحیثیت طالبعلم اور بطور لیکچرار زندگی کا طویل اور قیمتی حصہ گزرا۔ طاہر ہ مظہر علی خان اور میرے مہربان بزرگ جناب مظہر علی خان لاہور کے ممتاز روس نواز دانشور اور کمیونسٹ سمجھے جاتے تھے۔ ان کا صاحبزادہ طارق علی خان ایک انقلابی، کمیونسٹ اور روس نواز نوجوان کی شہرت رکھتا تھا۔ وہ کالج میں مجھ سے ایک سال جونیئر تھا۔ بہت اچھا لکھاری اورمقرر تھا۔ میرے اور اس کے درمیان ’’چھیڑ خوباں سے چلی جائے‘‘ والا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ یہ شاید 1963کا واقعہ ہے کہ میں ہوسٹل سے کالج پہنچا تو سامنے طلبہ کا ایک ہجوم نظر آیا۔ آگے بڑھ کر دیکھا تو طارق علی خان کو ایک نہایت جذباتی تقریر کرتے پایا۔ وہ افریقہ میں ایک کمیونسٹ دانشور لیڈر کے قتل پر طلبہ کے جذبات بھڑکارہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جلسہ جلوس بن گیا اور یہ اچھا خاصا معتبر جلوس نعرے لگاتا مال روڈ(شاہراہ قائد اعظم) پر پہنچ گیا۔ میں اس میں شامل تھا بلکہ شامل باجا تھا۔ جب ہم پرانی یونیورسٹی کے سامنے پہنچے تو کئی اخبارات کے فوٹو گرافر اور رپورٹر آن دھمکے۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک باوقار رپورٹر نے آگے بڑھ کر چند طلبہ کو روک لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ احتجاج کیوں کررہے ہیں؟ ہم نے جواب دیا لومیبا کو قتل کردیا گیا ہے ہم اس ظلم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اس نے پوچھا یہ لومیبا کون تھا؟ ہم میں سے کسی کو بھی لومیبا کی تاریخ یا جغرافیہ معلوم نہیں تھا، چنانچہ ہم بغلیں جھانکنے لگے۔ اتنے میں وہ رپورٹر آگے بڑھا اور اس نے دو تین طلبہ کو روک کر یہی سوال کیا۔ ان’’معصوموں‘‘ کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ طارق علی خان یہ جلوس کیوں نکال رہا ہے نہ ہی انہوں نے لومیبا کا نام سنا تھا البتہ وہ اچھل اچھل کر نعرے ضرور لگا رہے تھے۔ ان میں ایک انقلابی کا تعلق جمعیت طلبہ اسلام سے تھابغیرکوئی پتھر اٹھائے اور نقصان کیے ہم نعرے لگاتے ریگل چوک پہنچے تو پولیس نے راستہ روک لیا۔ لاٹھی چارج ہوا، طارق علی لاٹھی کھائے بغیر کتابوں کی دکان میں گھس گیا۔ کچھ طلبہ نے لاٹھیاں کھائیں اور چند ایک گرفتار بھی ہوئے۔ ہم جو جلوس کے پیچھے پیچھے نعرے لگاتے آرہے تھے، سر پر ایڑیاں رکھ کر یوں بھاگے کہ کالج پہنچ کر سانس لیا۔ یہ میر اپہلا انقلابی تجربہ تھا۔ جب تک میں طالبعلم رہا ہم ہر سال ا یوبی آمریت کے خلاف جلوس نکالتے اور ریگل چوک پر پولیس کی لاٹھیاں کھا کر واپس لوٹتے۔ اس دوران ایوبی آمریت کے خلاف مضامین لکھنا میری اہم ترین مصروفیت تھی۔ میاں محمد شفیع(م ش) کا ہفت روزہ’’اقوام‘‘ میرے مضامین شوق سے چھاپتا تھا اور اگر مضمون زیادہ گرم ہوتا تو حامد مجید معذرت کرلیتے۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار کی حیثیت سے پڑھا رہا تھا تو ایک روز پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد نے بلایا اور دراز سے ایک سرکاری خط نکال کر کہا کہ سیکرٹری تعلیم کا خط آیا ہے کہ تم حکومت پر تنقیدی مضامین لکھتے ہو اس لئے تمہیں نوکری سے برخاست کردیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نہایت شفیق انسان تھے۔ معاہدہ یہ ہوا کہ تم آئندہ اپنے نام سے نہیں لکھو گے اور میں حکومت کو ضمانت دے کر تمہاری نوکری بچاتا ہوں۔ نوکری بچ گئی، میں مقابلے کا امتحان دے کر کالج سے رخصت ہوگیا۔ جب میں پنجاب میں سیکرٹری تعلیم تعینات ہوا تو کرسی پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے اس یاد نے دستک دی کہ ایک روز یہاں سے تمہاری نوکری ختم کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا تھا۔ اسے کہتے ہیں مقدر کے کھیل۔!!

لومیباکے جلوس کے بعد طارق علی میرے مشاہدے کا حصہ بن گیا وہ طلبہ کو بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ ہمارے زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور کا میگزین’’راوی‘‘ ایک ادبی معیاری پرچہ تھا اور عام طور پر سال میں اس کے تین شمارے چھپتے تھے۔ محمود شام اردو سیکشن کے ایڈیٹر تھے۔ کالج میں قیام کے دوران میرے افسانے راوی میں تواتر سے چھپتے رہے۔ میں نے اسی دور میں ’’روشنیوں کے جزیرے‘‘ کے عنوان سے راوی میں ایک افسانہ نما طنزیہ لکھا جس کا ہیرو ایک کمیونسٹ ا سٹوڈنٹ تھا۔ وہ کس طرح بھیس بدلتا اور کس طرح طلبہ کو ایجی ٹیٹ کرتا ، یہ دلچسپ تفصیلات اس کے خاکے میں رنگ بھرتی تھیں۔ گورنمنٹ لاہور کالج کے 125سالہ راوی کے انتخاب میں میرا ایک افسانہ ’’شاہکار‘‘ اور دوسرا یہ طنزیہ’’روشنیوں کا جزیرہ‘‘ شامل ہیں۔ اسکے بعد طارق علی مجھے جہاں بھی ملتا، طنزیہ مسکرا کر پوچھتا"I hope I am not agitating the students" (امید ہے میں طلبہ کو بھڑکا نہیں رہا)1963-64کی کانوکیشن میں مجھے اردو اور طارق علی خان کو انگریزی کا(Best writers of the year)بہترین لکھاری کا ایوارڈ ملا، چنانچہ ہم دونوں کو ایک طرف الگ بٹھایا گیا تھا۔ اسٹیج سے طارق علی خان کا نام پکارا گیا تو اٹھ کر جاتے ہوئے اس نے وہی فقرہ کہا’’میں طلبہ کو بھڑکا تو نہیں رہا‘‘ ایک روز میں نے دیکھا کہ طارق علی خان نے پرنسپل آفس کے باہر مجمع لگا رکھا تھا اور تالیاں بجائی جارہی تھیں۔

میں بھی جاکر کھڑا ہوگیا، چند لمحوں بعد ایک لشکتی شیورلیٹ کار جھنڈا لہراتی آئی۔ طارق علی نے اپنے دوستوں کے ساتھ کار کو گھیر لیا اور تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ اتنے میں پرنسپل صاحب جلدی سے مہمان کو ریسیو کرنے آئے تو پتہ چلا کہ روس کا سفیر پرنسپل سے ملنے آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ طارق علی کو پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ طارق علی نے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے پوچھا کہ آپ امریکن کار استعمال کررہے ہیں؟ سفیر نے مسکرا کر جواب دیا۔ یہاں روسی کاروں کے پرزے نہیں ملتے اس لئے مجبوری ہے۔ سرد جنگ کے اس دور میں روس، امریکہ کی دشمنی اور خوف کا آج تصور کرنا محال ہے۔1969-70کے دوران میں کراچی میں تعینات تھا۔ ایک شام ایک دوست کے ساتھ پرل کانٹینٹل میں چائے پینے گیا تو برآمدے سے گزرتے ہوئے اچانک اوپر سے لفٹ آن کر رکی۔ دروزاہ کھلا تو کئی لوگوں کے ساتھ طارق علی خان بھی برآمد ہوا۔ دیکھتے ہی اس نے گرمجوشی سے معانقہ کیا اور ہولے سے کان میں پوچھا’’میں اسٹوڈنٹس کو تو نہیں بھڑکا رہا‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا کہ اب تم یہ کام انگلستان میں کررہے ہو۔ اس وقت تک لندن اور آکسفورڈ میں طارق علی خان ایک معروف نام بن چکا تھا۔ میں طارق علی خان کے آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہونے کےکئی برس بعد آکسفورڈ پہنچا تو اس وقت طارق علی لندن میں مستقل رہائش اختیار کرچکا تھا اور اپنی اخباری تحریروں، ٹی وی پروگراموں اور کتابوں کی وجہ سے ایک Committedنظریاتی کمیونسٹ کی پہچان حاصل کرچکا تھا۔ ایک روز لنڈن ٹائمز کی ورق گردانی کرتے ہوئے طارق علی کی تصویر نظر آئی۔ وہ گلی کے نل کے پانی سے ڈبل روٹی بھگو کر رکھا رہا تھا اور تصویر کا عنوان تھا پیسے ختم ہونے کے بعد طارق علی پانی میں’’بند‘‘ بھگو کر کھارہا ہے۔ طارق علی نوابزادہ مظہر علی خان اور جاگیردار خاندان کی طاہرہ مظہر علی کا بیٹا اور روس کا یار پانی میں بھگو کر بند کھائے اتنا بڑا ڈرامہ تھا کہ میں قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ سکا اور زیر لب کہا طارق علی تم یہاں بھی نوجوانوں کو بھڑکا رہے ہو۔ طارق علی خان نے کئی کتابیں لکھیں لیکن جس کتاب نے میرے دل پہ چوٹ لگائی اس کا نام تھاCan Pakistan survive? کیا پاکستان قائم رہ سکتا ہے۔ یہ کتاب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے تناظر میں1983میں چھپی۔ کتاب کی پیشن گوئی کے برعکس الحمد للہ پاکستان 35برس بعد بھی ایک ایٹمی قوت کی حیثیت سے موجود ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔ لندن جاتا رہتا ہوں لیکن جب بھی طارق سے ملنے کا خیال آتا ہے یہ کتاب دیوار بن کر ہمارے درمیان کھڑی ہوجاتی ہے۔ باقی ان شاء اللہ پھر کبھی۔ یار زندہ صحبت باقی، فی الحال اتنا یاد رکھیں کہ یہ ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ ایک نسل اور عہد کی کہانی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین