• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نئی فلم ’’ریڈ‘‘ اجے دیوگن کی عمدہ اداکاری کا شاہکار

نئی فلم ’’ ریڈ ‘‘

کہانی ،ڈائریکشن اور ٹریٹمنٹ میں جھول اور کمزور میوزک کے باوجود نئی فلم’’ ریڈ‘‘ اجے دیوگن،سورابھ شکلا اور سپورٹنگ کاسٹ کی اداکاری کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔ فلم کم بجٹ سے بنائی گئی ہے ،نہ تو فلم میں کوئی بڑی یا باہر کی لوکیشنز ہیں، نہ ہی عالی شان سیٹس،کاسٹیوم اور ملبوسات!! گانے بھی پُرانے ری میکس کر کے نمٹادیے گئے ہیں۔ فلم کی کہانی کو اگر ایک جملے میں بتانا ہو تو ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘۔

 اب یہ گھر کا بھیدی کون ہوتا ہے؟ کیوں ہوتا ہے؟ وہ کیسے کام کرتا ہے اور وہ پکڑا جاتا ہے یا نہیں ؟یہ جاننے کے لیے فلم دیکھنی ضروری ہے۔ فلم 1981میں کیے گئے انکم ٹیکس چھاپے کی حقیقی کہانی پر بنائی گئی ہے، جو دو سے تین دن میں ختم ہوتا ہے۔ اس چھاپے میں انکم ٹیکس کی ٹیم نے 420کروڑ مالیت کی کرنسی اور سونا برآمد کیا تھا۔اُس وقت بھارت میں اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں، جن کی جھلک بھی فلم میں دکھائی گئی۔اُس وقت کے بھارتی 420کروڑ روپے کتنے تھے اور ان کو ڈھونڈنے اور پھر گننے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ یہ ایک الگ’’ گھن چکر‘‘ ہے۔

فرض کریں اگر ان 420کروڑ میں سے آدھے بھی کرنسی تھی اور اس وقت سو سو کے نوٹوں کی شکل میں اس گھر میں چھپی تھی، تو اس کو صرف گننے میں کئی گھنٹے لگنے چاہیے۔کیوں کہ ٹیم کا صرف ایک فرد اگر سو کی نوٹوں کی گڈی ایک منٹ میں گن سکتا ہے تو وہ ایک گھنٹے میں صرف ساٹھ گڈی یعنی 6لاکھ روپے گن سکتا ہے ۔ یعنی 24گھنٹے میں ایک فرد بغیر وقفہ دیے صرف1کروڑ44لاکھ روپے گن سکتا ہے۔

نئی فلم ’’ریڈ‘‘ اجے دیوگن کی عمدہ اداکاری کا شاہکار

اس کا مطلب ہے کہ 2سو کروڑ کو گننے میں 48نان اسٹاپ گھنٹے میں کم سے کم بھی 80افراد کی ٹیم تو ہونی چاہیے تھی۔فلم میں ماں کا کردار جہاں جہاں آتا ہے، وہاں سب کے دل جیت جاتا ہے۔کھانے کی ٹیبل پر جلیبی کھانے کا سین ہو یا پھر اپنی بیماری پر بیٹوں کے لاپرواہی کی شکایت ۔بہو کے انداز پر شک ہو یا معصومیت میں اپنے ہی بیٹوں کے پیر پر کلہاڑی مارنا۔

یہ سب سین اور بے ساختہ مکالمے دیکھنے والوں کو مسکرانے اور اپنے یادوں میں ساتھ رکھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ سورابھ شکلا نے بینڈٹ کوئن سے لےکر اب تک ستیہ،کلکتہ میل،برفی اور جولی ایل ایل بی سمیت کئی فلموں میں یادگار کردار کیے، لیکن فلم ریڈ میں ان کا وِلن کا کردار اب تک ان کے کیرئیر کا سب سے بڑا کردار ہے۔ فلم میں کئی جگہ وہ اجے دیوگن جیسے اداکار پر بھی بھاری نظر آئے۔ 

فلم کی کہانی لکھنو شہر کی ہے، جہاں ایک بہت ہی ایمان دار انکم ٹیکس افسر کسی مخبر سے اطلاع ملنے کے بعد 420 کروڑ کا کالا دھن بر آمد کرنے لکھنو کے ہی نہیں پُوری یو پی کے طاقت ور ترین کرپٹ آدمی کے گھر پر چھاپہ مارتا ہے۔اس چھاپے کے دوران اسے کیا دقت اور مشکلات آتی ہیں، پہلے ناکامی اور پھر ایک کے بعد ایک ملنے والی کام یابی کے بعد آخر میں اس کی زندگی کیسے خطرے میں پڑ جاتی ہے اور وہ کیسے اس خطرے سے نکل جاتا ہے یہ جاننے کے لیے بھی فلم دیکھنا ضروری ہے۔

اجے دیوگن کا یہ کردار سنگھم کے غصے والے پولیس والے کی طرح نہیں ،بلکہ’’دریشھم‘‘ کے کردار کے قریب ہے، جو کمزور ہو کر بھی اپنے دماغ سے سب مشکلوں پر قابو پالیتا ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر عامر اور نو ون کلڈ جیسیکا جیسی’’ پاورفل سینما‘‘ بنانے والے راج کمار گپتا ہیں، جن کی آخری فلم پانچ سال پہلے ریلیز ہونے والی فلاپ ’’گھن چکر ‘‘ تھی۔ فلم اسی کی دہائی اور ٹیکس چھاپوں کی کہانی ہونے کے باوجود اکشے کمار کی اسپیشل چھبیس جیسی نہیں ۔

فلم کی کہانی اور سسپنس دونوں اکشے کی فلم سے کافی کمزور ہیں۔ فلم دیکھنے کے بعد آپ کے ذہن اور دل میں کئی سوالات جنم لے لیتے ہیں۔ اجے دیوگن فلم کے شروع میں کلب میں کیوں جاتا ہے ؟ فلم میں گانے زبردستی کیوں ٹھونسے گئے؟قائدے قانون پر چلنے والا شخص دل کی کیسے سن سکتا ہے؟اتنی ٹینشن میں کوئی بیگم کھانا لیکر چھاپے کی جگہ کیسے پہنچ سکتی ہے؟اسی وقت انسپیکٹر اجے کو اندر بلاتا ہے ضروری کام سے، لیکن اس وقت رومانس اور فلیشن بیک کا گانا شروع ہوجاتا ہے؟

بیوی کو کچھ نہ بتانے والا ایمان دار سرکاری افسر قانون کے خلاف ولن کو باہر جانے کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ بیوی پر حملے کی خبر سن کر جب تاؤ جی تاؤ دکھاتے ہیں۔ گھر کے بھیدی کا پس منظر بھی موثر انداز میں پیش کیا گیا، نہ اسے سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا؟گھر کے بھیدی کے سب سے قریبی شخص کے کردار کو بھی ’’اسٹیبلیش‘‘ نہیں کیا گیا۔ وزیر اعظم کے حکم کے باوجود ایکشن اتنا تاخیر سے کیوں ہوتا ہے؟ بھارتی جماعت کانگریس کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا یا منفی انداز میں یہ فیصلہ بھی فلم بین کے لیے مشکل ہی رہتا ہے؟اپنی نہیں لیکن اپنوں کی جان بچانے کے لیے بھی ہیر و ولن کے خاندان پر بندوق کیوں نہیں اٹھاتا؟

دو گھنٹے اور کچھ منٹ کی فلم ہونے کے باوجودفلم آرام سے 15منٹ اور کم ہوسکتی تھی، ساتھ میں گانے کم ہونے سے فلم کادورانیہ 10منٹ اور کم ہوجاتا۔ فلم کیوں کہ موبائل اور سوشل میڈیا سے دور سے پہلے کی ہے تو فلم میں سیٹی بجاتا پریشر ککر، ہاتھ کی اور دیوار کی گھڑی، گاڑیاں،کلینڈر، فائلز اورٹیلے فون سیٹ کا فلیور اپنا رنگ دکھاتا ہے۔اجے دیوگن اور سورابھ شکلا کے مکالمے تو زوردار ہیں ،لیکن اجے کے ساتھی للن کا سونے میں تلنے والا مکالمہ بھی بڑا بھاری تھا۔ فلم میں الیانا ہوتی یا نہیں ہوتی یا کوئی اور اداکارہ ہوتی، فلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

یہ فلم اجے دیوگن کے فینز کے لیے بنی ہے۔ ان پرستاروں کے لیے جو اجے دیوگن کے ایکشن اور اسٹنٹ کے نہیں ان کی اداکاری کے دیوانے ہیں۔ فلم کا باکس آفس پر سو کروڑ کا چھکا لگانا نا ممکن نظر آرہا ہے۔فلم اگر 60سے 70 کروڑ بھی کمالے تو سستی فلم ہونے اور سینما کے علاوہ ڈیجیٹل ،اوور سیزا،میوزکل اور ٹی وی رائٹس کی وجہ اپنے پروڈیوسرز کو مالا مال کرجائے گی۔

جاتے جاتے وہ جو فلم دیکھ چکے ہیں اور ابھی تک کروڑوں کی چار سو بیسی میں الجھے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے یہ معلومات کہاگر مان لیا جائے کہ تاؤ جی کے گھر سے ملنے والا صرف سونا 200کروڑ مالیت کا تھا تو اُس سونے کی قیمت آج کے حساب سے 40ارب روپے بنتی۔اور جو سوچتے ہیں اتنا پیسہ گھروں میں کون چھپائے گا۔ ان کے لیے عرض ہے کہ دو سال پہلے بلوچستان میں ایک چھاپے میں نیب نے کروڑوں روپے کی کرنسی ایک ہی گھر سے بر آمد کی تھی۔

تازہ ترین
تازہ ترین