• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بینکاک اور کینڈی میں ’سندھ‘ کی تلاش

ایوب خاصخیلی کے پائوں نبردِ عشق میں زخمی سہی لیکن شوقِ سفر ہے کہ انہیں ملکوں ملکوں لیے پھرتا ہےاور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ جہاں جہاں بھی اپنی داستان چھوڑ کرآتے ہیں۔ اس کی مکمل رُوداد بھی ساتھ لاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ان کا تازہ سفرنامہ ’’کینڈی کان کوھہ ما‘‘ ہے۔ایوب خاصخیلی کا یہ سفر لگ بھگ دس دنوں پر محیط ہے لیکن ان کے ساتھ اس کتاب کی وساطت سے شریکِ سفر ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ان دس دنوں میں صدیوں کا سفر کیا ہے۔

ایوب خاصخیلی کا یہ سفربینکاک اور کینڈی سے زیادہ سندھی تہذیب کو یاد کرنے کا سفر ہے۔کینڈی جھیل کی نیلگوں آنکھوں میں انہیں کینجھر اور منچھرکی جولانیاں دکھائی دیتی ہیں۔کولمبو سے کینڈی جاتے ہوئے راستے میں بائبل کا پہاڑی سلسلہ دیکھتے ہیں تو لسبیلہ سے شروع ہونے والے کوسٹل ہائی وے کو یاد کرتے ہیں اور جب انگریز گورنر رابرٹ کی اپنی محبوبہ کی یاد میں بنائی جانے والی جھیل سے ملتے ہیں تو ریاست خیرپور کی بالی کا قصہ یاد کرتے ہیں اورپھر ہنگول ندی اور کنڈ ملیر کے اساطیری حسن میں کھو جاتے ہیں۔

’تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں‘ کایہ سلسلہ کینڈی سے نہیں بلکہ کراچی سے بینکاک کے سفر کے دوران اس وقت شروع ہوتا ہے۔جب خوبصورت تھائی میزبان دونوں ہاتھ جوڑ کر قدرے جھکتے ہوئے آداب بجالیتی ہیں تو ایوب خاصخیلی کو لگتا ہے کہ ایسے ادب آداب تو سندھی تہذیب کا حصہ ہیں۔کینڈی جھیل پر انہیں لطیف سرکار کے سُراور منظورسولنگی کی نظمیں یاد آتی ہیںاور وہ اس تصور میں کھو جاتے ہیں کہ کاش سندھ میں پھر سے کوئی ماچھی، بھیل یا کولہی حکمران بن جائے تو لوگ کینڈی جانے کے بجائے کراڑ اور منچھرجھیل دیکھنےکو سندھ کا رُخ کرنے لگیں۔

اگر آپ نے اس سے پہلے بینکاک نہیں دیکھا تو وہاں جانے سے پہلے ایوب خاصخیلی کا سفرنامہ ضرور پڑھ لیں۔ایسا کرنے سے آپ نوسرباز ٹیکسی ڈرائیوروں اور بھارتی اور لبنانی ہوٹلوں کی اووربلنگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ٹیکسی ڈرائیور جہاں آپ کی بے خبری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے زیادہ پیسے چارج کرتے ہیں وہیں اس سفرنامے کی قرعت سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ تھائی حسینائیں بھی وارداتِ قلبی کے بجائے صرف اورصرف وارداتوں پر یقین رکھتی ہیں اور یہ وارداتیں آپ کے آگے کے سفر کو خوشگوار بنانے کے بجائے محتاجی میں بدل سکتی ہے۔

ایوب خاصخیلی کے ساتھ اگرچہ ایسی کوئی واردات نہیں ہوئی لیکن دو لاہوری نوجوانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا انہوں نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ کس طرح انہیں تھائی حسینائوں نے لوٹ لیا تھا۔یہاں ہمیں ایوب خاصخیلی کو شک کا فائدہ دینا پڑتا ہے کہ انہوں نے سارےکے سارے واقعات انتہائی سچائی کے ساتھ بیان کیے ہوں گے، ہمارے ایک اور دوست کی طرح اپنے ساتھ پیش آنےوالی ناکام وارداتوں کو کسی اور کے نام سے نہیں لکھاہوگا۔

ایوب خاصخیلی کے اس سفرنامے میں بینکاک میں سندھی ہوٹل کے مالک ابراہیم سے ملاقات کا قصہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ہم پاکستانیوں کی عادات میں شامل ہے کہ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں،وہاں بھی اپنی جنم بھومی کو یاد کرتے ہیں اور کھاجے بھی اپنے دیس ہی کے پسند کرتے ہیں۔ابراہیم نے ایوب خاصخیلی کو جب چائے اور سندھی کھانا پیش کیا تو لذتِ کام و دہن کے سارے مفہوم کھلتے چلے گئے۔

ابراہیم بینکاک میں سندھی ہوٹل چلاتے ہیں اور ایک ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ایوب خاصخیلی کو بھی انہوں نے وہاں رہنے کی پیش کش کی لیکن ساتھ ہی ایک شرط بھی عائد کر دی کہ شام کو کچہری کے دوران گفتگو زیادہ اونچی نہیں ہونی چاہیے۔ایوب خاصخیلی کوبھلا یہ شرط کیسے منظور نہیںہو سکتی تھی۔ سو انہوں نے ہوٹل میں قیام کو ترجیح دی۔

جب شام کے سائے ڈھلنے لگتےہوں اور محفلِ یاراں میںکہیں ساز کی لے تیزہونے لگے توبہت سے لوگوں کی سرشت میں ہے کہ ان کی آواز کی لے بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔اورپھروہ کینجھر کی کونجوں کی طرح کرلانے اور کارونجھر کے موروں کی طرح ناچنے لگتے ہیں۔کونجوں کی طرح کرلاتے اور موروں کی طرح ناچتےایوب خاصخیلی نےبھی ہمیں بینکاک اور سری لنکا کے سفر کے دوران سندھ کے بکھرے ہوئے رنگوں کی یاد خوب دلائی ہے۔

تازہ ترین