• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

غیر قانونی مذبح خانہ شہری مضر صحت گوشت کھانے پر مجبور

غیر قانونی مذبح خانہ شہری مضر صحت گوشت کھانے پر مجبور

پنو عا قل، ضلع سکھر کی اہم تحصیل ہے جس کی آبا دی سا ت لا کھ سے تجا وز کر گئی ہے ، لیکن یہ شہر مسائل کا آما جگاہ بنتا جا رہا ہے ۔ اس کے اہم مسائل میں گوشت،مچھلی مارکیٹ اور مذبح خانہ کا فقدان ہے ۔بلدیہ انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سکھر کی ایک بڑی تحصیل ، مچھلی اور گو شت ما رکیٹ سے محروم ہے ۔ 

گزشتہ کئی سال سے قصا بو ں نے نا لو ں اور نا لیو ں پر قبضہ کرکے انہیں مذبح خانوں میں تبدیل کردیا ہے۔ وہ گندے ومتعفن نا لو ں اور نا لیو ں پر جا نور ذبح کر تے ہیں، جا نوروں کی آلا ئشوں اور فضلہ سڑکوں پر پھینکتے ہیں، جس کی وجہ سے راہ گیروں کو یہاں سے گزرنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔

ان غیرقانونی سلاٹر ہاؤسز میں لا غر ،کمزور بیمار جا نورو ں کے علاوہ شیر خوار بھینسوں کے بچھڑو ں کو ذبح کرکے ان کا گو شت فرو خت کیا جا رہا ہے نومولود بچھڑوں کا گوشت قومی شاہراہ پر واقع ہوٹلوں پر بکرے کا گوشت بتا کرفروخت کیا جا تاہے ۔

ایک بڑے شہر میں سلاٹر ہا ئوس کا نہ ہو نا متعلقہ محکموں کی کارکردگی کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ چند سال قبل یہاں ایک چھوٹی گوشت مارکیٹ تھی،لیکن شہریوں کی ضرورتیں باآسانی پوری ہو جاتی تھیں جب کہ اس سے متصل مچھلی مارکیٹ بھی موجود تھی۔

غیر قانونی مذبح خانہ شہری مضر صحت گوشت کھانے پر مجبور

اس مارکیٹ کا انتظام میونسپل کمیٹی کے ہاتھ میں تھا۔ لیکن عدم توجہی کی وجہ سے اس کی دکانیں مخدوش ہوتی گئی اور ایک وقت وہ آیا جب یہ انہدام کے قریب پہنچ گئی، جس کے بعد اسے قصابوں اور مچھلی کے بیوپاریوں سے خالی کرالیا گیا۔

کئی سالوں تک یہ اسی حالت میں رہی اور اس میں کتو ں نے اپنا بسیرا بنالیا جب کہ ہیروئین فروشوں اور ہیروئنچیوں نے اپنے اڈے قائم کرلیے۔ بلدیہ سکھرنے وہ مار کیٹ مکمل طور سے مسمار کر نے کےبعد دوبارہ تعمیر کرائی اوربجائے اس کی دکانیں قصابوں کو دینے کے،اس میں مو با ئل ما رکیٹ قائم کردی گئی ۔ 

یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ شہریوں کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس میں گوشت اور مچھلی مارکیٹ کا قیام ضروری تھا لیکن اس کی دکانوں کو موبائل فون کےتاجروں کو الاٹ کردیا گیا۔ 

یہاں سے بے دخل ہونے کے بعد قصا بو ں نے مختلف مقامات پر اپنا کاروبار شروع کیا لیکن انہیں ہر جگہ سے بے دخل کیا جاتا رہا، جس کے بعد انہوں نے گندی نا لیو ں اور نا لو ں کے ساتھ لکڑی کے تختوں کے ٹھیے بنا کر اپنا کاروبار شروع کردیا۔

اس اہم مسئلے پر متعلقہ ادا روں، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سیا سی رہنما ئوں کی خا مو شی باعث حیرت ہے۔ شہر بھر میں تجا وزات کے خلاف آپریشن کیا گیا لیکن انہیں قصا بوں کا قائم کردہ غیر قانونی مذبح گھر اور نالے پر بنی گوشت کی دکانیں نظر نہیں آئیں۔

قصا بو ں کااس سلسلے میں مؤقف ہے کہ ہمیں ہر جگہ سے ہٹایا گیا، اس لیے مجبوراً ہم نے نالے پر کاروبار شروع کیا ہے۔ شہریوں کو گوشت کی ضرورت ہے جب کہ ہم اپنے بچوں کو فاقہ کشی سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگرشہر میں گو شت ما ر کیٹ بنادی جائے توہمیں اس گندی جگہ کام کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔

شہریوں کا اس سلسلے میں کہنا ہے ہم مضر صحت گوشت کھانے پر مجبور ہیں کیوں کہ اپنی لحمیاتی ضرورت پوری کرنے کے لیےمذکورہ تختہ نما دکانوں سے گوشت خریدتے ہیں،جہاں رات کے اوقات میں کتوں کا بسیرا ہو تا ہے اور جس وقت یہاں جانوروں کو ذبح کر تے ہیں اس وقت بھی کتوں کے غول کے غول وہا ں موجود ہو تے ہیں۔ 

لاکھوں جرثومے اس گوشت کے ساتھ انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں، یہ انسانی صحت کے ساتھ کھلا مذاق نہیں تو کیا ہے ۔ پنو عاقل شہرمیںگوشت مارکیٹ کا قیام ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین