• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلمی پوسٹر، اشتہارات اور سنیما ڈیکوریشن کی دل چسپ کہانی!

فلمی پوسٹر، اشتہارات اور سنیما ڈیکوریشن کی دل چسپ کہانی!

آج کل جب کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے تو اس کا پینا فلیکس تیار کرکے سینما پر آویزاں کردیا جاتا تعلیمی اداروں اور شاپنگ سینٹروں اور باکس آفس جا کر فلم کا پروموشن کرتے ہیں۔ جدید پینا فلیکس بڑے سے بڑے سائز میں الیکٹرانک پرنٹنگ مشینوں سے چند لمحوں میں تیار ہوجاتے ہیں۔ 

ایک زمانہ وہ بھی تھا، جب نئی فلم کی نمائش سے دو ماہ قبل اس کی بل بورڈز بنانے کے لیے آرٹسٹ کو بُک کرلیا جاتا تھا، جس سینما پر فلم ریلیز ہوتی تھی، آرٹسٹ اور اس کے عملے کے لوگ اس فلم کی ڈیکوریشن کی پیمائش کرلیا کرتے تھے، پھر اسی حساب سے نئی فلم کے بِل بورڈ تیار کرتے تھے، جو کم از کم دو تین ہفتے کی شب و روز کی محنت سے تیار کیے جاتے تھے، ہارڈ بورڈ کی شیٹ پر جہازی سائز کے بورڈ اداکارائوں اور اداکاروں کے تیار کرکے سینما ہال کی زینت بنائے جاتے تھے، جو مختلف رنگوں میں بے حد دیدہ زیب نظر آتے تھے اور انہیں دیکھنے کے لیے لوگ سینما ہال کے باہر ایک ہجوم کی صورت میں آتے تھے۔ 

سڑک پر چلنے والے ہوں یا پھر پیدل اور گاڑیوں میں!! ان ڈیکوریشن آرٹسٹوں کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے تھے، نئی فلم کی ریلیز پر سینما ہال کو دُلہن کی مانند سجایا جاتا تھا، اپنے دور کی سپرہٹ کام یاب فلمیں، جب سیکنڈ رن میں ریلیز ہوتی تھیں، تو انہیں بھی نئی فلم کی طرح سے سینما پر خوش آمدید کہا جاتا تھا۔

فلم کی کام یابی اور مقبولیت کے لیے غیرمعمولی پبلسٹی کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ جب کبھی نئی فلم بنانے کا اعلان کیا جاتا تھا، تو باقاعدہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے علم میں یہ بات لائی جاتی تھی، اس کے بعد اخبارات و رسائل میں اس فلم کے مختلف دیدہ زیب اور دل کش اشتہارات شائع ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ 

اس وقت کے اردو اور انگریزی کے بڑے اخبارات فلم والوں کے ساتھ خصوصی رعایت کرتے تھے، ان اخبارات نے فلم کے اشتہارات کے باقاعدہ کچھ صفحات مخصوص کیے ہوتے تھے، 1960ء کے عشرے میں فلمی اشتہارات فل پیج اور ہاف پیج کے بھی شائع ہوئے اور 1970ء کی دہائی تک یہ فلمی اشتہارات ان اخبارات کی خوب صورتی تصور کیے جاتے تھے، فلم بینوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی، ان فلمی اشتہارات کی بناء پر ان اخبارات کو خریدتی تھی، روزنامہ جنگ کے فلمی اشتہارات کے صفحات اس سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت کے حامل ہوتے تھے، ہر تقسیم کار اپنی فلموں کے اشتہارات جنگ میں شائع کرنے کو ترجیح دیتا تھا، کیوں کہ اسے عوام کی بہت بڑی تعداد پڑھتی تھی۔ 

اس کے علاوہ پاکستان کے دیگر اخبارات میں بھی فلمی اشتہارات کی بھرمار ہوتی تھی۔ اشتہارات کے بعد فلم کے پوسٹر کو بھی بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ ابتدا میں ہینڈ پینٹنگ سے یہ پوسٹر بنائے جاتے تھے، بعد میں اس کام میں جدت پیدا ہوتی گئی، فلم کے فوٹو سیٹ میں چند کلوزاپ لے کر ان پوسٹروں کو آرٹسٹ اپنے رنگوں سے خوب صورت بنادیتا تھا۔ چند نامور پوسٹر بنانے والے اداروں میں ایس خان اسٹوڈیو، ایم افضل اسٹوڈیو، عزیز آرٹ، آزاد، اختر آرٹس، طاہر آرٹ، وزیر آرٹ کے نام قابل ذکر رہے۔ 

پوسٹر فلم کا پہلا تعارف ہوتا تھا،جس سے پتہ چلتا تھا کہ فلم کا موضوع رومانی ہے یا ایکشن، یا پھر کامیڈی ہے۔ پوسٹر فلم کے بارے میں بنیادی کہانی کا پتہ دیتے تھے۔ ریڈیو پبلسٹی کے ذریعے فلم کی نمائش کے وقت خصوصی پروگرام نشر ہوتے تھے، جو لوگوں کی دل چسپی کا باعث ہوتے تھے۔ ٹی وی کے آنے کے بعد فلم کے ٹریلر کا سلسلہ بھی شروع ہوا، فلم کی موسیقی ریلیز سے قبل ہی عوام میں مقبول ہوجایا کرتی تھی، فلم کے گانوں کے گرامو فون ریکارڈ مختلف کمپنیاں لائونچ کرتیں۔ آڈیو کیسٹ بھی اس سلسلے میں نکالے جاتے، ریڈیو پر فلموں کے گانے فرمائشی پروگرامز میں نشر ہوتے تھے۔ شہر شہر، گلی گلی تانگا پبلسٹی بھی اس سلسلے میں کی جاتی تھی، اس کے لیے تانگے کرائے پر لیے جاتے تھے جن پر فلم کے بڑے بڑے بینر اور پوسٹر آویزاں کیے جاتے، اور پھر سارا دن یہ تانگے شہر کے مختلف علاقوں میں جاکر ان فلموں کی پبلسٹی کرتے تھے۔ 

بڑے شہروں کے چوراہے اور بس اسٹاف پر آرٹسٹوں کے بنائے ہوئے بِل بورڈ بھی لوگوں کو ان فلموں کی جانب توجہ دینے پر مجبور کردیتے تھے۔ قصبات اور دیہاتوں میں چائے کے ہوٹل میں فلموں کے پوسٹرز لگانے کا رواج عام تھا۔ نائی کی دکانوں میں بھی اس وقت ان فلموں کے مختلف فوٹوز آویزاں کیے جاتے، یہ دور تھا، جب ذرائع ابلاغ زیادہ تیز نہیں تھا، تقسیم کار باقاعدہ اپنی فلموں کی پبلسٹی کے لیے تجربہ کار عملہ رکھتا تھا، جس کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل تھی کہ وہ شہر کے مختلف عوامی مراکز میں جاکر فلموں کی پبلسٹی کے کام کو انجام دے۔ کراچی، حیدرآباد، لاہور، پشاور، کوئٹہ اور دیگر تمام بڑے چھوٹے شہروں میں فلموں کے پوسٹر اور بینر کی بہاریں ہی بہاریں نظر آتی تھیں۔ 

1990ء تک پبلسٹی کا یہ معیار برقرار رہا، پھر فلمی صنعت کے زوال کے ساتھ ساتھ پبلسٹی کے کام کو لوگ بھول ہی گئے، جس کے نتیجے میں فلمیں ریلیز ہونے کے بعد گمنام ہوکر رہ جاتی تھیں، نئی فلم کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کب بنی اور کب ریلیز ہوئی اور یہی صورت حال آج بھی بعض فلموں کی ریلیز کے وقت مشاہدے میں آئی ہے۔ فلمی پوسٹرز کو جدت کے ساتھ اس کشش کی بھی ضرورت ہے جو ہمیشہ فلم بینوں کی کمزوری رہی ہے۔ 

فلم کی موسیقی کو فلم کی ریلیز ہونے سے قبل ہی عوام میں مقبول کروانے کی ضرورت پر غور کرنا ہوگا اس کے ساتھ ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ شہر کے مختلف راستوں پر فلم کی پبلسٹی کے بجٹ کو اہمیت دینی ہوگی تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ نئی فلم کب آرہی ہے، اس کے گانے ہٹ ہیں، اس میں کون سے اداکار ہیں، یہ وہ ضروری باتیں ہیں جو آج کے اس ڈیجیٹل دور میں کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، اس جانب فلم میکرز اور ڈسٹی بیوٹرز کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ کام یاب اور مقبول فلموں سے ہی پاکستانی سنیما کا احیأ ممکن ہے اور اس کے لیے مربوط اور بروقت پبلسٹی ناگزیر ہے۔ 

تازہ ترین