وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ حکومت اور پیپلز پارٹی میں مک مکا کی تصدیق کرتا ہوں۔ اسی مک مکا کا ذکر کررہا ہوں جس کا الزام تحریک انصاف دھرنوں کے دوران لگاتی رہی ہے، اگر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مراعات نہیں لیں تو واضح طور پر بتائیں اور حکومت بھی بتائے کہ ان مراعات کے بدلے میں اس نے بھی کچھ حاصل کیا ہے یا پھر خورشید شاہ کو بس فری میں مراعات دیتی رہی حالانکہ سیاست میں کوئی چیز فری نہیں ہوتی۔ حیران ہوں کہ جس شخص کے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ لکھاہے وہ جھوٹ بولتا ہے۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ مک مکا کی بات کرکے نواز شریف کو چیلنج کیا گیا ہے، وزیر اعظم صاحب آپ کی آستینوں میں سانپ چھپے ہیںیہ سانپ ڈستے کسی اور کو ہیں ،مرتا کوئی اور ہے، اگر ہمیں کوئی ڈس رہا ہے تو اس کا نقصان کسی اور کو ہوگایہ دیکھنا نواز شریف کی ذمہ داری ہے۔ قائد حزب اختلاف نے یہ بھی کہا کہ میں نے حکومت سے کوئی فائدہ نہیں لیا ہے اگر الزام ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑدوں گا۔ میں یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھائوں گا، اگر نواز شریف نے پارلیمنٹ میں رسپانس نہ دیا تو عدالت میں جائوں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر اس شخص کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں جبکہ میرے بیان سے ایسے لگا جیسے کوئی وٹامن کی گولی دے دی گئی ہے۔
ہماری نظر میں یہ جو بھی بیان بازی ہوئی ہے افسوسناک ہی نہیں قومی سیاست و جمہوریت کے لئے خطرناک بھی ہو سکتی ہے چوہدری نثار علی وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے اس وقت کلیدی ذمہ داری پر فائز ہیں، انہیں اپنی ذمہ داری کے تقاضوں کا بھی ادراک ہونا چاہئے۔ ہمیںوزیراعظم نواز شریف کی ان مجبوریوں کا احساس ہے جن کی وجہ سے چوہدری صاحب کی کئی نامناسب باتوں سے بھی صرف نظر کرلیا جاتا ہے حالانکہ حالات سے آگہی رکھنے والے ہر شخص کو مارشل لا کے وہ دن یاد ہیں جب مشکلات جاوید ہاشمی جھیل رہے تھے لیکن مابعد اسٹیئرنگ سیٹ پر محترم چوہدری صاحب کو بٹھا دیا گیا۔ دھرنے کے خوفناک دنوں کو ہی یاد کرلیا جائے۔اس وقت سید خورشید شاہ قائد حزب اختلاف ہی تھا جس نے جمہوریت کے خلاف تمام سازشیں فیل کردیں۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی منوانے کے لئے وہ جمہوریت کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ سید خورشید شاہ نے ایک منجھے ہوئے زیرک سیاستدان ہونے کا حق ادا کردیا اور تمامتر اشتعال انگیزیوں کے باوجود انہوں نے وہی کیاجو ایک قومی در د رکھنے والے سیاستدان کا فرض بنتا تھا۔ اعتزاز احسن جیسے بڑے سیاستدان کی زبان میں لغزش آئی لیکن یہ سید زادہ کہیں نہ لڑکھڑایا۔ اعتزاز احسن کی آواز میں اگر شدت آئی تو اس کا باعث بھی چوہدری نثار صاحب تھے۔ یہ تو بھلا ہو جاوید ہاشمی کا جو جمہوریت کی بقاء کے لئے عین وقت پر فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ مولانا عزیز کے خلاف کوئی الزام موجود نہیں ہے۔ کیا لال مسجد کے واقعہ میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ اس کے بعد بھی کوئی ایک موقع بتادیں جب انہوں نے کسی بھی اشتعال انگیزی سے پرہیز فرمایا ہو۔ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں بیٹھ کر وہ جن تعلیمات کا کھلے بندوں پرچار کرتے ہیں ملکی آئین اور جمہوری بنیادوں پر جو چوٹیں لگاتے ہیں ۔ وطن عزیز میں جناب عزیز صاحب کے لئے یہ جمہوریت ہی کا فیضان ہے کہ وہ دارالحکومت کے عین وسط میں بیٹھ کر ببانگ دہل ریاستی آئین، پارلیمنٹ کی بالادستی جمہوریت اور ہیومن رائٹس کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لئے تو بقول سید خورشید شاہ صاحب آپ اس کی ہلاکت پر چھوٹے بھائی کی طرح دکھی تھے ۔
آج وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ’’میں حکومت اور پیپلز پارٹی میں مک مکا کی تصدیق کرتا ہوں۔ اسی مک مکا کی جس کا الزام تحریک انصاف لگاتی رہی ہے‘‘۔ اب آپ کو خود ہی اس مک مکا کی تفصیلات بھی بیان کرنا ہوں گی کیونکہ یہ ملک کا خارجی نہیں داخلی مسئلہ ہے اور و زیر داخلہ کی حیثیت سے آپ اسی جمہوری حکومت کا اہم حصہ ہیں اگر یہ مک مکا وزیر اعظم نواز شریف نے آپ سے بالا بالا کیا تھا تو آپ کی اخلاقی ذمہ داری بنتی تھی کہ آپ اس افسوناک صورتحال میں استعفیٰ دے دیتے۔ آپ کو وضاحت کرنا ہوگی کہ یہاں’’حکومت‘‘سے آپ کی کون مراد ہے؟ نیز جب یہ مفاداتی مک مکا ہورہا تھا اس وقت آپ کہاں تشریف فرما تھے؟ آپ نے تو اپوزیشن چھوڑ خود وزیراعظم نواز شریف کی جمہوری حکومت کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ ہماری رائے میں رانا تنویر حسین صاحب وفاقی وزیر دفاعی پیداوار کو بھی آپ کی ہاں میں ہاں ملانے سے احتراز کرنا چاہئے تھا۔ وہ اچھی طرح آگاہ ہیں کہ وطن عزیز میں بعض حلقے کس چوکسی سے تاک میں بیٹھے اپنی اسٹریٹجی تیار کررہے ہوتے ہے، صرف مناسب موقع ملنے اور حالات بننے کا انتظار ہوتا ہے۔ یہاں آئین شکنوں اور جمہوریت کے قاتلوں کو معافی مل سکتی ہے لیکن اگر سیاسی خلفشار بڑھے تو سیاستدانوں کو ہی اس کا شدید نقصان ہو گا۔ کیا ہماری قومی سیاست نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے؟ یا وہ مصطفیٰ جتوئی جیسوں کو اپنے لئے ا سوۂ حسنہ خیال کرتی ہے۔ ہمارے وفاقی وزیر نے اپنے غیر ذمہ دارانہ رویئے سے جو صورتحال پیدا کردی ہے اگر وزیراعظم نے اپنے تدبر سے اسے کنٹرول نہ کیا تو بات زیادہ بڑھ سکتی ہے اور قائد حزب اختلاف کا یہ موقف درست قرار پائے گا کہ مک مکا کا نعرہ لگاتے ہوئے درحقیقت وزیر اعظم نواز شریف کو چیلنج کیا گیا ہے، اگر اس طریقے سے قومی سیاست میں پھوٹ پڑتی ہے تو جمہوریت کو اس کا نقصان دھرنوں سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ بغیر کوئی ٹارگٹ حاصل کئے یا کوئی قابل ذکر اچیومنٹ حاصل کئے بغیر مدت پوری کرنا بلاشبہ کوئی کارنامہ نہیں ہے اور ڈاکٹر عاصم کی کرپشن پر اسٹینڈ لینا بھی پی پی کو زیب نہیں دیتا لیکن ان حیلوں بہانوں سے ملک میں سیاسی منافرت کو ہوا دنیا درحقیقت جمہوریت دشمنی ہے ۔کیا اسے اصول پسندی کا نام دیا جائے گا؟ ہمارا سوال صرف اس قدر ہے کہ کیا اس وقت ملک کسی طالع آزمائی کا متحمل ہوسکتا ہے؟ جبکہ وہ بالواسطہ طالع آزمائی کو دعوت دے رہے ہیں۔