ایک نوجوان پاکستانی خاتون جو کسی این جی او سے وابستہ ہیں وہ پچھلے دنوں کچھ عرصہ تک گلگت میں مقیم تھیں، جہاں انہیں اپنے ادارے کیلئے کوئی ریسرچ سونپی گئی تھی۔ اپنے اس قیام کی روداد اور گلگت اور اس کے گردو پیش میں پھیلے حسن کے بارے میں انہوں نے ایک بڑا اچھا رپورتاژ قلمبند کیا ہے جسے پڑھ کر ایک بار پھر سے ان پہاڑوں، دریاؤں اور آبشاروں کی طرف جانے کو دل چاہنے لگا ہے لیکن میری اصل دلچسپی قدرت اللہ شہاب کے بچپن کے گھر سے پیدا ہوئی انہیں کسی نے خبر دی تھی کہ شہاب صاحب شاید اس گھر میں پیدا ہوئے تھے یا ان کے بچپن کا کچھ حصہ گلگت کے ایک گھر میں گزرا تھا، جہاں ان کے والد اس زمانے میں تعینات تھے۔گلگت ایک زمانے میں ریاست جموں وکشمیر کا ہی ایک حصہ تھا، اسلئے یہ بات قرین قیاس ہی تھی کہ مقبوضہ پونچھ کے رہائشی اور مجھے اپنا گھر گرائیں کہنے والے (میرے دادا اور ان کے والد اور دادا ایک ہی علاقے کے باسی تھے) گلگت میں پیدا ہوئے ہوں یا بچپن میں وہاں رہے ہوں لیکن ان خاتون کو وہ گھر ڈھونڈنے میں کافی دقت ہوئی۔ ادھر ادھر سے پوچھنے پر جو پہلا سوال ان سے کیا جاتا تھا کہ قدرت اللہ شہاب سنی تھے، شیعہ تھے یا آغا خانی تھے؟ ان خاتون کی خوش قسمتی کہ آخر کار انہیں وہ گھر مل ہی گیا لیکن مجھے آج سے پندرہ سولہ سال پہلے اپنا گلگت کا سفر یاد آگیا۔ بڑے شوق سے ہم ایک عدد جیپ بک کروا کر اسلام آباد سے سڑک کے راستے یعنی شاہراہ قراقرم پر گلگت، ہنزہ اور سوست کے سفر کو نکلے تھے، بے حد اچھا اور بہت یادگار سفر تھا لیکن گلگت شہر کو دیکھنے جب ہم نکلے تو ہمارا گائیڈ جو ایک مقامی رپورٹر تھا، وہ ہر چند قدم کے فاصلے پر رک کر ہمیں کوئی نہ کوئی قابل ذکر مقام دکھاتا تھا اور وہ قابل دید مقام کیا تھے، آپ بھی سن لیجئے۔ ”اس موڑ پر، جہاں آپ کھڑے ہیں یہاں دس شیعوں کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا تھا“ ”یہ مسجد جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہاں پندرہ سنیوں کو صبح کی نماز کے وقت شہید کر دیا گیا تھا“۔
”اس موڑ پر جہاں گوتم بدھ کے مجسمے کی طرف مڑتے ہیں وہاں دو شیعہ علماء نامعلوم حملہ آوروں کی گولیوں سے شہید ہوگئے تھے“ ”گلگت کے مین بازار میں ایک مہینہ پہلے سولہ شیعہ اور دس سنی، ایک دوسرے کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے“ ”بس بس“ آخر گبھرا کر ہم نے اسے چپ کروایا۔ کیا اس پورے شہر میں اور کوئی قابل ذکر مقام نہیں؟
رپورٹر نے حیرت سے ہماری صورت دیکھی اور چپ ہو گیا لیکن اس کی رپورٹنگ کا صحیح اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب اگلے روز ہنزہ سے واپسی پر ہم نے گاڑی گلگت کی طرف موڑنا چاہی تو پتہ چلا کہ پورے شہر میں کرفیو نافذ ہو چکا ہے کیونکہ ہمارے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی فسادات نے انتہائی خطرناک شکل اختیار کر لی تھی اور اب شہر میں داخلہ بند تھا۔ ہم جو خود کو صرف اور صرف مسلمان سمجھتے ہیں، انتہائی دل گرفتہ حالت میں اسلام آباد کی طرف واپس مڑ گئے۔ اس لمحے ہمیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ آنے والا وقت ہمیں کیا کیا دکھانے والا ہے۔
خدا جانے کن کن فرقوں میں ہم خود کو بانٹ کر بھی مطمئن نہیں۔ اگلا قدم سندھی، پنجابی، پختون، ہزارہ، اردو اسپیکنگ، بنگالی اور اللہ جانے کن کا خانوں میں ہم خود کو بانٹنے پر مصر رہتے ہیں اور پھر خود کو مسلمان بھی کہتے اور سمجھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ بنیادی طور پر یہ مذہب فرقوں، گروہوں اور اونچ نیچ کو ختم کرنے کے لئے آیا تھا، یوں تو اپنی اپنی جگہ ہم خود کو اس ایک پیغمبر کے ماننے والے اور ان کی ذات سے محبت کرنے والے ہی کہتے اور سمجھتے ہیں لیکن اپنے اس پیارے نبی کی محبت میں ہم اپنے دوسرے بھائی بندوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں اس کا ہلکا سا اندازہ آپ کو عشق رسول میں منائے جانے والے دن سے ضرور ہو گیا ہو گا۔ گھر سے نکلنے کی کس کی ہمت تھی صرف ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر ایسے تھے کہ جنہوں نے قیام پاکستان کے حالات کی یاد تازہ کر دی ایک وحشت، بربریت اور جنون تھا، لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہر چیز کو تہس نہس کر دیں لیکن یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ یہ غصہ آخر کس چیز پر تھا۔ ہم تو اپنے رسول کی محبت کے اظہار کے لئے سڑکوں پر آئے تھے، اس کے ماننے والوں پر یہ پتھراؤ اور اپنے ہی ملک اور شہر کو جلانے اور تباہ کرنے سے آخر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ پہلی دفعہ یقین آیا کہ انسان بھی بنیادی طور پر ایک جانور ہی ہے۔ مذہبوں، پیغمبروں اور تہذیبوں نے اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑا، وہ اب بھی صرف اور صرف طاقت اور گولی کی زبان ہی سمجھتا ہے میری سوچ پر مجھے معاف کردیں، کل سے میرا دل بہت دکھا ہوا ہے اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ آخر ہم لوگوں کا کیا بننے والا ہے۔اسی ذہنی کیفیت کے ساتھ میں سونے کے لئے لیٹ گئی، دیکھتی کیا ہوں کہ مزار قائد پر کھڑی ہوں اچانک ایک دھماکہ ہوا دھند چھٹی تو دیکھا کہ میرے سامنے قائد اعظم اپنے روایتی لباس میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن چہرے پر ایک وحشت اور کوفت ہے ”اگر میں ایک لمحے کو بھی یہاں اور رکا تو میرا دم گھٹ جائے گا“ وہ مجھ سے زیادہ خود سے مخاطب تھے، یہ کہہ کر انہوں نے مزار سے باہر کی طرف قدم بڑھایا۔ ”تڑ تڑ تڑ“ مزار سے باہر کھڑے گارڈز کی گولیوں کی تابڑ توڑ آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ ڈر، وحشت اور پریشانی سے میں پسینہ پسینہ ہو چکی تھی اس کے بعد صبح تک مجھے نیند نہیں آئی۔ خدا خیر کرے، پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟