• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کامیاب لوگوں کی سوانح عمری پڑھنے کا مجھے جنون کی حد تک شوق ہے۔ فکشن کے مقابلے میں سوانح عمری پڑھنے سے آپ کو ایک کامیاب شخص کی اُن خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے جس کی بدولت وہ ایک کامیاب انسان یا عظیم لیڈر بنا۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو برسوں گزرجانے کے باوجود بھی آپ کے ذہن میں رہتی ہیں۔ لی آئیو کوکا (Lee Iacocca) کی سوانح عمری بھی ایک ایسی کتاب ہے جسے میں سالوں گزرجانے کے باوجود بھی اپنے ذہن سے بھلا نہیں سکا۔ آئیوکوکا امریکہ کی مشہور کار کمپنیوں کرسلر(Chrysler) اور فورڈ (Ford) میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے اور اُن کا شمار امریکہ میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے چیف ایگزیکٹوز میں ہوتا تھا۔
آئیوکوکا نے کئی کتابیں تحریر کیں۔ اپنی سوانح عمری میں ایک جگہ آئیو کوکا لکھتے ہیں کہ ’’انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب وہ کئی مشکلات میں گھر جاتا ہے اور اُسے یکے بعد دیگرے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میری زندگی میں بھی ایسا وقت آیا جب میری کمپنی کرسلر دیوالیہ ہوگئی اور مجھے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، میں جب گھر پہنچا تو مجھے یہ خبر سننے کو ملی کہ میری بیوی کو اُسی دن کینسر کا مرض تشخیص ہوا ہے، ابھی میں اِن صدموں سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ کچھ دنوں بعد مجھے فون موصول ہوا کہ میری بیٹی کار ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوگئی ہے، یہ وہ وقت تھا جب مجھے ایسا لگا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ہے لیکن میں نے پھر بھی اُمید کا دامن نہیں چھوڑا اور جوانمردی سے حالات کا مقابلہ کیا، نتیجتاً اپنی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔‘‘ آئیو کوکا اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’اگر ہم مشکل حالات کا ہمت و حوصلے سے سامنا کریں تو پہاڑ جیسی مشکلات بھی گزرجاتی ہیں اور وہ ہمیں اندر سے مضبوط شخصیت بنادیتی ہیں، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کسی وقت ہم نے کتنے برے حالات کا سامنا کیا تھا۔‘‘
آج آئیو کوکا کی سوانح عمری کا حوالہ دینے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھی آج کل کچھ اِسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ پانامہ کیس میں اقامہ کی بنیاد پر اُن کی نااہلی، اہلیہ کلثوم نواز کو کینسر کی تشخیص، عدالتوں میں بیٹی مریم نواز کے ساتھ آئے دن پیشیاں بھگتنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، سپریم کورٹ کی جانب سے پارٹی صدارت سے نااہلی اور حال ہی میں اہلیہ کی تشویشناک حالت پر عیادت کی غرض سے اُنہیں لندن جانے کی اجازت نہ دینے جیسے فیصلے سے ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف بھی آج کل برے وقت سے گزررہے ہیں اور مصیبتوں و مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ وہ اِن تمام مصیبتوں اور مشکلات کا جوانمردی اور ہمت و حوصلے سے سامنا کررہے ہیںجو ایک عظیم لیڈر کی پہچان ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں نیب عدالت کی جانب سے نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز کو کلثوم نواز کی عیادت کیلئے بیرون ملک جانے کی درخواست مسترد کئے جانے کی خبر سے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو صدمہ پہنچا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ نیب پراسیکیوٹر نے درخواست کی مخالفت میں یہ دلیل دی کہ ’’مریض کے سارے خاندان کا وہاں موجود ہونا ضروری نہیں۔‘‘ حالانکہ درخواست کے ساتھ بیگم کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ بھی منسلک تھی جس میں ڈاکٹروں نے کلثوم نواز کا کینسرگلے تک پھیلنے اور مزید کیموتھراپی یا ریڈیو تھراپی کیلئے اُن کے شوہر نواز شریف کو مشورے کیلئے لندن بلایا تھا۔ عدالتی فیصلے کے بعد مریم نواز کے بیان نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو دکھی کردیا۔ مریم نواز کے بقول جب انہوں نے اپنی والدہ کو ملاقات کی اجازت نہ ملنے کے عدالتی فیصلے سے آگاہ کیا تو والدہ محترمہ کہا کہ ’’کوئی بات نہیں، ہمارا اللہ مالک ہے۔‘‘ کلثوم نواز کے صرف اِس جملے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس فیصلے سے اُن کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔
برطانیہ میں کینسر کے علاج کے طریقہ کار سے میں بخوبی واقف ہوں، مجھے اِن معاملات کا اِس لئے بھی تجربہ ہے کہ کیونکہ میں کئی سال قبل لندن میں اپنی اہلیہ کے کینسر کے علاج اور کیمو تھراپی کے مراحل سے گزرچکا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری اہلیہ کے پھیپھڑوں کا کینسر مزید پھیل کر گردن تک جاپہنچا اور کیموتھراپی موثر ثابت نہیں ہوئی تو ڈاکٹروں نے ریڈیو تھراپی کی تجویز دی مگر ریڈیو تھراپی بھی موثر ثابت نہیں ہوئی اور اہلیہ کینسر جیسے موذی مرض سے نبردآزما نہ ہوسکیں۔ کلثوم نواز کا کینسر بھی کیموتھراپی سے کنٹرول نہیں ہورہا اور یہ کینسر پھیل کر گردن تک جاپہنچا ہے جو خطرے کی علامت ہے۔ برطانیہ میں یہ نارمل پریکٹس ہے کہ کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی سے قبل ڈاکٹرز مریضہ کے شوہر سے مشورہ کرتے ہیں اور کینسر جسم کے دوسرے حصے میں پھیلنے کی صورت میں مریضہ اور اُس کے شوہر کو کونسلنگ کیلئے ایک ساتھ بلایا جاتا ہے تاکہ ذہنی دبائو کو کم کیا جاسکے۔
نیب عدالت کے حالیہ فیصلے سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلثوم نواز کی عیادت کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جاتی تو کیس میں ایک ہفتے کی تاخیر سے کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑتا مگر وہ عورت جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے، کی آس نہیںٹوٹتی۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب سیاستدانوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی جس کی حالیہ مثال جنرل پرویز مشرف کو کمر درد کی وجہ سے بیرون ملک جانے کی اجازت دینا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب! میری اپنے کالم کے توسط سے آپ سے گزارش ہے کہ آپ انسانی حقوق کے حوالے سے از خود نوٹس لے کر عام لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور دکھ درد کا مداوا کر رہے ہیں،کیا کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا ایک مریضہ جو تین مرتبہ خاتون اول رہ چکی ہیں اور آج زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، کا یہ بنیادی حق نہیں کہ اُن کےبیماری کے ایام میں اُن کے شریک حیات اور چہیتی بیٹی اُن کے ساتھ ہو اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر کہے کہ ’’یہ مشکل وقت بھی گزرجائے گا اور آپ ٹھیک ہوجائیں گی۔‘‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک مریضہ اپنے پیاروں کی راہ تکتے تکتے دنیا سے رخصت ہوجائے جو ہم پر ایک بدنما داغ ہوگا جس سے نفرتیں جنم لیں گی اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ یہ وقت کل ہم پر بھی آسکتا ہے۔ کیا ہم میں ایسے حالات کا سامنا کرنے کی ہمت اور سکت ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین