• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسپین میں رہتے کئی برس بیت گئے، اِس عرصے میں بہت سے مواقع ایسے آئے کہ ہمیں بارسلونا سے پاکستان آنے کا اتفاق ہوا، نئے جہاز، آرام دہ سفر، خوبصورت ایئر ہوسٹس، بااخلاق ایئر اسٹاف، جہازوں کے اندر بہترین صفائی، خوشبوؤں کے حصار میں قائم بیت الخلا، ہر نشست کی پشت پر ٹی وی اسکرین جس کا ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ پسنجر کا حکم ماننے کو بے تاب ہوتا تھا، ڈرامہ دیکھیں، فلم کا شوق فرمائیں یا کامیڈی فلموں سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں، اس طرح کی بہت سی مزید سہولتوں کو دیکھتے ہوئے ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہم غیر ملکی ایئر لائن میں ہی سفر کریں۔ دورانِ سفر کبھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو ایک بٹن دبانے سے پیدا ہونے والی ہلکے سرخ رنگ کی لائٹ تازہ چہرہ لئے ایئر ہوسٹس کو آپ کے پہلو میں لا کھڑا کر دیتی، قریب آکر ایئر ہوسٹس مدُھر آواز کے ساتھ آپ سے پوچھتی کہ آپ کیا لیں گے؟ کانوں میں رس گھولتی وہ آواز سُن کر ایک کے بجائے زیادہ سے زیادہ اشیاء مانگنے کا دِل کرتا تھا۔ بارسلونا سے لاہو ر پہنچنے تک دو دفعہ تازہ کھانا پیش کیا جاتا، مختلف مشروبات، گرما گرم چائے کافی یہ سب کچھ آپ کی خواہش کے تابع ہوتا تھا۔ سفر کے دوران ایئر لائن کا ماحول ’’لوریاں‘‘ سنانے کا کام کرتا اور ہم بے خوف و خطر نیند کی آغوش میں چلے جاتے اور گھنٹوں خواب خرگوش کے مزے لُوٹتے تھے۔ ہمارے ساتھ اسپین میں مقیم دوستوں کے سمجھانے کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، موت کا ایک دِن مقرر ہے، بہت سے حادثات میں نئے جہاز تباہ ہوئے ہیں، پرانا یا نیا جہاز ہونا موت اور زندگی کی تصویر کشی نہیں کر سکتا، ایسی تسلیوں اور تشفیوں نے ہمارے دِل میں وطن عزیز کی والہانہ محبت کو مزید اُبھارا اور ہم نے پاکستان کی قومی ایئر لائن میں سفر کرنے کی ٹھان لی۔ لاہور اور اسلام آباد سے دو پروازیں براہِ راست پیرس اور وہاں سے بارسلونا پہنچتی ہیں، بارسلونا سے یہ پروازیں پاکستان واپسی کے لئے براہِ راست کہی جا سکتی ہیں لیکن جب پسنجرز پاکستان سے بارسلونا واپس آتے ہیں تو وہ براہِ راست نہیں بلکہ پیرس میں دو گھنٹے اسٹاپ کر کے منزل پر پہنچتے ہیں۔ ہم اکثر اپنے دوستوں کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے ذریعے پاکستان کے سفر پر روانہ کرنے اور انہیں الوداع کہنے ایئر پورٹ پر آتے تو دیکھا کرتے تھے کہ کوئی جہاز بارسلونا سے پاکستان خالی نہیں جاتا تھا، ایسا بھی ہوا کہ اگر وقت پر ٹکٹ کی بکنگ نہیں کرائی تو سیٹ ہی نہیں ملتی تھی، لیکن اس کے باوجود روزانہ پندرہ کروڑ کا نقصان ہو رہا ہے، پی آئی اے کے متعلقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ نقصان ہو نہیں رہا بلکہ خود کیا جارہا ہے تاکہ پی آئی اے کو فروخت کرنے کا بہانہ پیدا کیا جاسکے اب ذرا غور کریں تو پتا چلے گا کہ ’’لیز‘‘ پر لئے گئے چار جہاز واپس کر دیئے گئے، تین جہاز فنی خرابی کی وجہ سے گراؤنڈ کر دیئے لیکن انہیں درست نہیں کرایا گیا، باقی 30طیارے ناکافی ہونے کی وجہ سے بہت سے منافع بخش روٹس کو بند کر دیا گیا اور وہ روٹس دوسرے ممالک کی ایئر لائنز کو انتہائی ارزاں قیمت میں فروخت کر دیئے گئے ہیں۔ خیر کچھ بھی ہے یا کچھ بھی ہو ہم نے آخری فیصلہ سُنا دیا کہ اِس بار سفر اپنی قومی ایئر لائن میں ہوگا۔ ٹکٹ خریدا اور ہم مقررہ دن اور وقت پر ایئر پورٹ کی طرف محو سفر ہوئے، بورڈنگ کے بعد اپنے قومی جہاز کی تلاش میں پیدل چلتے چلتے بہت بڑے ایئرپورٹ کے آخری کونے پر پہنچے تو سانس ساتھ دینے میں جھجھک محسوس کرتا دکھائی دیا، موٹاپا اور ایکسر سائز کے بغیر جسم تھکاوٹ کا باعث بنا، سوچا کہ جہاز کے اندر جا کر آٹھ گھنٹے تک سوتے رہیں گے، سانس بحال ہوئی تو جہاز کے اندر جانے کا اعلان ہوا ہم اپنی نشست پر پہنچے اور جہاز میں مانوس چہروں کو دیکھ کر تھوڑا ڈر کم ہوا، سوچا کہ جہاز کی حالت جتنی بھی پتلی ہے ہمارے ساتھ اور مسافر بھی تو ہیں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ہم اپنے دِل کو تسلی دے کر اپنا ڈر کم کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ جہاز ’’رن وے‘‘ پر رینگنا شروع ہوا تو کھڑکھڑاہٹ سے محسوس ہوا کہ شاید تمام مسافروں کو ’’مکس‘‘ کیا جارہا ہے۔ ہمیں سینئر صحافی یحییٰ حسینی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے خصوصی طور پر لاہور اور کراچی میں میچ دیکھنے کے لئے مدعو کیا تھا۔ جہاز فضا میں بلند ہوا اور ہمارا ڈر مزید کم ہوتا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں اُونگھ آئی تو ہم اپنے گریبان کی جانب منہ پھینک کر سونے کی کوشش میں لگ گئے، کچھ لمحے اسی کیفیت میں گزرے ہونگے کہ کانوں کا پردہ پھاڑتی ہوئی ایک آواز آئی کہ آپ کچھ لیں گے، ہم ہڑبڑا کر اُٹھ گئے آواز کی جانب دیکھا تو تقریباً 55سالہ خاتون ڈپریشن زدہ چہرے کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑی تھیں ہم نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم جہاز سے اُتر کر گھر جانے کا رکشہ لیں گے، وہ خاتون اپنے چہرے پر ناگواری کی سلوٹیں مزید گہری کرتی ہوئی ہمارے آگے کھانا رکھ کر چلی گئی، اتنا تھرڈ کلاس کھانا کہ دیکھتے ہی بھُوک ختم ہو گئی، بادِل نخواستہ کھانے کا پیکٹ کھولا تو اندر ’’چاولوں کا ٹوٹا‘‘ اور اُس کی پیچھے چھپی ہوئیں دو عدد بوٹیاں نظر آئیں، ٹوٹے کے دوسری طرف تھوڑی سی دال ڈال کر چاولوں کا وزن متوازن کیا گیا تھا، مرغ کی بوٹیاں اِس طرح سہمی ہوئی تھیں کہ جیسے انہیں ڈر ہو کہ کوئی مسافر کھا ہی نہ لے، ٹوٹا پکانے اور ثابت چاول نہ پکانے میں پی آئی اے کی کیا حکمت تھی وہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ اللہ سے سینکڑوں معافیاں مانگ کر ہم نے کھانا چھوڑ دیا۔ ہمارے سامنے والی ٹی وی اسکرین وہاں سے اُکھاڑ لی گئی تھی لہٰذا سارے جہاز کا چکر لگایا کہ کہیں کوئی چلتی ٹی وی اسکرین مل جائے لیکن یہ تلاش بے سُود رہی، بیت الخلا کی جانب گئے تو اُس کے ہینڈل باہر لٹک رہے تھے وہاں سے بھی ناکام واپسی ہوئی، بٹن دبایا تاکہ کچھ پینے کے لئے منگوایا جاسکے ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن کوئی ایئر ہوسٹس ہماری بات سننے نہ آئی، ہم جہاز کی دُم میں چلے گئے اور وہاں خوش گپیوں میں مصروف ایئر ہوسٹز کو کہا کہ وہ جو لائٹ جل رہی ہے وہ ہم نے جلائی ہے پلیز ہمارے ساتھ چل کر ہماری بات سُن لیں، آگے سے جواب ملا کہ آپ والی لائن دوسری ایئر ہوسٹس کی ہے، ہم اپنا سا منہ لے کر اپنی نشست پر جا بیٹھے، ذہن نے فیصلہ دیا کہ پی آئی اے کبھی بھی انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ حاصل نہیں کر سکتی، پچاس سال سے زیادہ عمر کی ایئر ہوسٹس، جہاز کے اندر صفائی کا فقدان، اخلاق سے خالی گفتگو، بیت الخلائوں کی بدبو، انٹرٹینمنٹ کے لئے ٹی وی اسکرین کا نہ ہونا، بٹن دبانے پر بروقت اشیاء مہیا نہ ہونا، اور جہازوں کی فنی حالت زار مسافروں کو پی آئی اے میں سفر کرنے پر مائل نہیں کر سکتی۔ لاہور اُترے تو قذافی اسٹیڈیم کی جانب جاتے ہوئے پانچ گھنٹوں میں کرکٹ کے میدان تک پہنچے، جگہ جگہ چیکنگ اور پولیس ناکے، چار غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے لاہور ’’سیل‘‘ کر دیا گیا تھا، کیا ہی اچھا ہو کہ یہی چیکنگ پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے تحفظ کے لئے بھی کی جائے، شاید اس طرح کوئی کیپٹن مبین، ایس پی گوندل، کیپٹن عاصم، کیپٹن خالد اُن جیسے کئی پاکستانی ماؤں کے لال ہم سے نہ بچھڑیں، شاید چار کھلاڑیوں کو تحفظ دینے والے ناکے پاکستانی عوام کا تحفظ بھی کر سکیں۔ شاید؟
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین