اسلام آباد:… ریاست کے دو اہم عہدیداروں، چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، نے حال ہی میں 2018ء کے عام انتخابات میں تاخیر کا اشارہ دیا ہے لیکن متعلقہ ادارے یعنی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابات کے التواء کیلئے کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔ اگرچہ چیف جسٹس پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے میڈیا میں آنے والے بیانات کی وجہ سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے سینئر عہدیداروں کا اصرار ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ایک کالم نگار نے چیف جسٹس پاکستان کے حوالے سے بتایا تھا کہ حدبندی کا معاملہ اب تک حل نہیں کیا گیا اور معاملہ لٹک سکتا ہے جس سے تاخیر ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’’اس سے نظریۂ ضرورت ایک مرتبہ پھر بحال ہو سکتا ہے اور یہ ملک کیلئے اچھا شگون نہیں ہوگا۔‘‘ اگرچہ جسٹس ثاقب نثار نے خواہش ظاہر کی کہ حکومت یہ معاملہ اپنی مدت سے پہلے حل کر لے تاکہ انتخابات میں تاخیر نہ ہو۔ آرمی چیف نے حال ہی میں صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی تھی۔ ایک سینئر صحافی نے ان کے حوالے سے کہا تھا کہ آرمی چیف نے یقین دہانی کرائی کہ انتخابات بروقت ہوں گے اور شفاف اور آزاد ہوں گے۔ رپورٹ کے مطابق، آرمی چیف نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو میدان دیا جائے گا۔ تاہم، آرمی چیف نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر چند ہفتوں کیلئے انتخابات میں تاخیر کے امکان کو رد نہیں کیا۔ آرمی چیف کی جانب سے جن تکنیکی وجوہات کا ذکر کیا گیا؛ ان کا رپورٹ میں حوالہ نہیں دیا گیا لیکن عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وجوہات مختلف حلقوں کی حدبندی کے عمل سے جڑے تنازعات کے متعلق ہیں۔ الیکشن کمیشن کے باخبر اور مصدقہ ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا کہ اب تک کمیشن کو حدبندی کی ابتدائی رپورٹ کیخلاف 89؍ درخواستیں موصول ہوئی ہیں لیکن ان میں بمشکل ہی کسی میں سنجیدہ نوعیت کا اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کو اب تک اعترا ضا ت موصول ہو رہے ہیں جن کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے متعین کردہ ٹائم فریم اور قانون میں وضع کردہ اصولوں کے تحت کیا جائے گا۔ ان ذرائع نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے اور منظور کردہ میکنزم کے تحت حلقوں میں حدبندی کی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا تھا کہ 2018ء کے مقابلے میں، 2002ء کے انتخابات سے قبل کی حدبندیوں کے متعلق موصول ہونے والے اعتراضات بہت زیادہ تھے لیکن اس وقت بھی انتخابات میں تاخیر کی بات سامنے نہیں آئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ 2002ء میں مجموعی طور پر 985؍ شکایات موصول ہوئی تھیں جبکہ اس مرتبہ صرف 89؍ شکایات / اعتراضات موصول ہوئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ان تمام 89؍ شکایات میں سے کسی میں بھی قانون کے تحت ٹھوس معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ الیکشن کمیشن کو یقین ہے کہ اگر انتخابات میں تاخیر کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے تو حدبندی کا معاملہ معمول کے مطابق قانون کے تحت حل ہوجائے گا۔ ان افسران کے مطابق، حلقوں کی حد بندی کا کام الیکشن کمیشن کی جانب سے آزادانہ طور پر اور کسی بھی ادارے یا اتھارٹی کے دبائو یا اثر میں آئے بغیر کیا گیا ہے۔ آئین کے مطابق، نگران حکومت 60؍ یا 90؍ روز میں عام انتخابات کرانے کی ذمہ داری سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اپنی طاقت اور اختیارات کے باوجود کو ئی بھی ادارہ عبوری نظام کو توسیع نہیں دے سکتا۔ پارلیمنٹ اگر اپنی مدت مکمل کرے تو نگران حکومت 60؍ روز کیلئے قائم رہے گی اور اگر اسمبلیاں جلد تحلیل ہوگئیں تو نگران حکومت 90؍ روز کیلئے ہوگی اور اس کا مینڈیٹ اسی عرصہ کے دوران پارلیمانی انتخابات کرانا ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 224؍ میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا عام انتخاب اس دن سے فوراً 60؍ روز کے اندر کرایا جائے گا جس دن اسمبلی کی معیاد ختم ہونے والی ہو، بجز اس کے کہ اس سے پیشتر تحلیل نہ کر دی گئی ہو۔ تاہم، اگر اسمبلی قبل از وقت تحلیل کر دی گئی ہو تو نگران حکومت کے پاس 90؍ دن ہوں گے کہ وہ انتخاب کرا سکے۔ لیکن موجودہ معاملے میں چونکہ اسمبلی اپنی مدت کے آخری دن پر تحلیل ہو رہی ہے اسلئے نگران حکومت کے پاس انتخابات کے انعقاد کیلئے 60؍ دن ہوں گے۔