• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہروں کی قدیم تاریخ ’’مٹیاری‘‘

اسامہ خان

یہ قصبہ حیدر آباد سے 35کلو میٹر آباد شمال میں قومی شاہراہ پر واقع یہ ضلع حیدر آباد کی ایک تحصیل کا صدر مقام ہے۔ اس کا شمار سندھ کے قدیم ترین قصبات میں ہوتا ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ اشاعتِ اسلام کے ابتدئی زمانے میں وادیٔ مہران سندھ ،میں تبلیغِ اسلام کے تین بڑے مرکز تھے۔

’’ٹھٹھہ، نصر پور اور مٹیاری۔‘‘مٹیاری کو سندھ کی تاریخ میں ادب کے حوالے سے ہمیشہ منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ یہاں کی مردم زرخیز زمین نے بڑے بڑے صوفیا، علما، فضلا، اور عمائدین سلطنت پیدا کیے ہیں۔ سندھی زبان کے سب سے بڑے صوفی شاعر ،شاہ عبداللّطیف نے مٹیاری میں کافی وقت گزارا اور علم و عرفاں کے چراغ روشن کیے۔ قرآن مجید کا پہلا سندھی ترجمہ یہاں کے مشہور عالم دین آخواند عزیز اللہ نے کیا تھا۔

شہروں کی قدیم تاریخ ’’مٹیاری‘‘

مٹیاری کے جس پہلو کو بھی دیکھیںاس سے روحانیت، پیار ومحبت،علم وعرفاں اور دانائی جھلکتی ہے۔ مٹیاری کا نام بھی ایک محبت بھری کہانی سے وجود میں آیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ مٹیاری’’ حسن شاہ ‘‘نامی ایک بزرگ نے آباد کیا تھا۔ آپ اپنے نام کی طرح نہایت حسین ووجیہہ تھے اور نقاب پہن کر چلتے تھے۔ 

لوگ آپ کو ’’سید آری‘‘ کہتے تھے۔ آپ تبلیغ اسلام کرتے ہوئے یہاں پہنچے، تو اس مقام کو بہت پسند کیا اور یہیں سکونت اختیار کرلی۔ آپ تبلیغ کے ساتھ ساتھ خدمتِ خلق بھی کرتے تھے۔ مٹیاری اُس وقت اہم گزر گاہ تھی، حسن(آری) شاہ مسافروں کے راستے میں پانی کے مٹکے بھر بھر کے رکھتے رہتے۔ سندھی زبان میں مٹکے کو’’مٹ‘‘کہا جاتا ہے۔ یو ں رفتہ رفتہ یہ قصبہ ’’مٹ آری‘‘ یعنی آری کا مٹ کہلانے لگا ۔ وقت کی گردشوں نے اسے مٹ آری سے مٹیاری بنا دیا۔

لیجیے، آپ آٹھویں صدی ہجری میں آباد ہونے والے قصبے مٹیاری پہنچ گئے ہیں۔ جونہی بس اڈّے پر پہنچیں گے ، آپ کی نظر دکانوں اور ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی سادہ مگر انتہائی پُر وقار مسجد پر پڑے گی۔ 

مقامی طور پر اسے اڈّے والی مسجد کہا جاتا ہے۔ اسے مٹیاری کی ایک متمول لیکن فقیر منش شخصیت ، جناب صوفی احمد راشدی کے والد نے تعمیر کروایا تھا۔ صوفی صاحب بتاتے ہیں’’ والدمحترم جب حج اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت سے واپس آئے تو کربلا میں بنی ایک مسجد کا نقشہ بھی اپنے ساتھ لائے۔ یہ مسجد ہو بہو اُس مسجد کا عکس ہے۔‘‘

تھوڑا آگے بڑھیں، تو مٹیاری کا سب سے پرانا ہائی اسکول آتا ہے۔ یہ حال کے کئی مشہور افراد کی مادرِ علمی ہے۔ یہاںسندھی زبان کے شیکسپیئر ’’شاہ عبد اللطیف بھٹائی‘‘ اپنا دیوان گنگناتے نظر آتے ہیں ،یعنی ان کے خوب صورت وجدائی اشعار اسکول کی دیواروں پر لکھے گئے ہیں۔ 

ذرا اور آگے بڑھیں، تو مٹیاری کے مشہور بازار ، ’’شاہی بازار‘‘ میں پہنچ جائیں گے۔ معلوم نہیں اسے شاہی بازار کیوں کہا جاتا ہے، شاید شاہ سے شاہی بنا ہو، مگر یہاں ایسا کوئی باد شاہ تو نہیں گزرا جس نے محل آباد کیے ہوں، یہ تو ولیوں کی نگری ہے۔ بہر حال، چھوٹے بڑے سائیں، چوہدری ہماری زمین اور خمیر کا حصہ ضرور رہے ہیں اور یہی لوگ شاہی بازار بناتے اور سجاتے رہے ہیں۔ مٹیاری کے اس بازار میں آپ کو وادیٔ مہران کی قدیم و جدید تہذب کے نہایت شان دار اور خوب صورت نمونے ملیں گے۔

کوئی کپڑے کی دکان ہو اور وہاں سندھی اجرک اور ٹوپی نہ ملے، یہ ناممکن ہے۔ مٹیاری اجرکوںکا گھر ہے، اجرک سو سے پانچ ہزار روپے تک فروخت کی جاتی ہے۔ اچھی اجرک کھڈی کے کپڑے سے تیار ہوتی ہے، یوں یہاںا بھی تک ہاتھ سے کپڑے بنانے کا فن متروک نہیں ہوا۔اجرک کے بعد مٹیاری کی خصوصی سوغات ’’ماوا‘‘ ہے۔ 

یہ خصوصی مٹھائی صرف مٹیاری ہی میں بنتی اور فروخت ہوتی ہے۔ یہ خالص دودھ سے تیار کی جاتی ہے اور یہ صرف ’’سفید اور کلیجی‘‘ رنگوں کی ہوتی ہے۔ قصبے کا کوئی بھی ہوٹل یا چائے خانہ اس کے بغیر نہیں چلتا۔رلّی بھی سندھی ثقافت کا ایک مظہرہے ۔ یہ مختلف رنگ دار کپڑوں کے ٹکڑوں سے تیار ہوتی ہے۔ 

اسے بنانا انتہائی محنت طلب کام ہے۔ اسی محنت کاثمر ہے کہ اسے سندھ کے کونے کونے میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو دست کاریوں میں سندھی کڑھائی والے گلے، سندھی ٹوپیاں۔ لوئی (گرم چادریں)اور بیڑی(ایک خاص قسم کا دیسی سگریٹ)خاص قسم کی اہمیت رکھتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین