• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوب رُو، خُوش ادا، خُوش مزاج، حفظہ چوہدری کی باتیں

خوب رُو، خُوش ادا، خُوش مزاج، حفظہ چوہدری کی باتیں

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

قسمت کے کھیل بھی نرالے ہیں، بعض اوقات ہم اپنے روشن مستقبل کے لیے سوچتےکچھ ہیں، مگر پھر اپنے کسی پیارے کے کسی ادھورے رہ جانے والے خواب کو پورا کرنے کے لیےکرنا کچھ اور پڑ جاتا ہے۔ جیو نیوز کی خُوش شکل، خُوش ادا، خُوش مزاج، نیوز اینکر، حفظہ چوہدری بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں۔ وہ بننا تو مسیحا چاہتی تھیں، مگر وابستہ میڈیا سے ہوگئیں، انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا، اُن کی ذاتی اور عوامی زندگی، پسند، ناپسند، دِل چسپیاں اور مشاغل …یہی سب جاننے کے لیے ہم نے گزشتہ دِنوں اُن سے سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ایک تفصیلی ملاقات کی۔ اس دِل چسپ گفتگو کا احوال آپ کی نذر ہے۔

خوب رُو، خُوش ادا، خُوش مزاج، حفظہ چوہدری کی باتیں
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س : خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج : میرا تعلق زندہ دِلوں کے شہر، لاہور سے ہے۔ والد بشیر احمد بزنس مین ہیں، جب کہ والدہ رفیعہ بشیر خالصتاً گھریلو خاتون۔ مَیں نے ابتدائی تعلیم کیتھڈرل اسکول، مال روڈ، لاہور سے حاصل کی، جب کہ یونی ورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور سے میڈیا مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ جہاں تک تربیت کی بات ہے، تو ابّو نے ہم سب بہن، بھائیوں کی تعلیم پر بہت فوکس رکھا، جب کہ والدہ نے گھرگرہستی سکھائی۔ انفرادی طور پر بات کروں، تو والد نے اس میل ڈومیننٹ سوسائٹی میں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ مَیں لڑکی ہوں۔

س: کتنے بہن بھائی ہیں، کیا خاندان میں کوئی اور بھی میڈیا سے وابستہ ہے؟

ج : ہم دس بہن بھائی ہیں۔ چھے بہنیں اورچار بھائی۔ میرا نمبر ساتواں ہے۔ مجھ سے بڑی تین بہنیں پیا گھر سدھار چکی ہیں اور تین بھائیوں کے سَر پر بھی سہرا سج چکا ہے۔ جب ہم سب ساتھ ہوں ،تو بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے خُوب موج مستی کرتے، بہت ہنستے ہنساتے ہیں۔ اور خاندان میں دور دور تک کوئی میڈیا سے وابستہ نہیں، یہ اعزاز میرے ہی سَر جاتا ہے۔

س : فرماں بردار بیٹی ہیں یا خود سَر اور والدین میں سے کس کی زیادہ لاڈلی ہیں؟

ج : تھوڑی سی خودسَر ضرور ہوں، لیکن بعض معاملات میں انتہائی فرماں بردار بھی ہوں۔رہی بات لاڈلے ہونے کی، تو مَیں گھر بَھر کی لاڈلی ہوں۔

س : اگر بچپن کے گلی، محلّوں کا تذکرہ کیا جائے، تو کیا خیال آتا ہے؟

ج : میرا بچپن بغیر کسی ڈر و خوف کے ،کالونی کے بچّوں کے ساتھ کھیلتے کودتے، خُوب شرارتیں کرتے گزرا، تو بچپن سے تو بہت ہی حسین یادیں وابستہ ہیں۔

س : اگر اپنا نام خود رکھ سکتیں، تو کیا رکھتیں؟

ج : میرا نام والدنے رکھا ہے، جو مجھے بے حد پسند ہے۔ ہاں اگر خود اپنا خود نام رکھتی، تو ایمان رکھتی۔

س : آپ نے ماسٹرز کے دوران دو گولڈ میڈلز حاصل کیے، کیااسکول، کالج میں بھی ذہین طالبات میں شمار ہوتا تھا؟

ج : چوں کہ والد نے تعلیمی معاملات میں کسی قسم کی رعایت نہیں بخشی، تو اسکول سے لے کر یونی ورسٹی تک میرا شمار ذہین طالبات ہی میں ہوتا تھا۔ مَیں پوزیشن ہولڈر رہی ہوں اور ماسٹرز کے دوران بھی دو گولڈ میڈلز بھی حاصل کیے۔

س : بچپن میں ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا، تو پھر ٹی وی اسکرین پر آنے کا شوق کیسے ہوا؟

ج : جی بالکل، مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور مَیں نے انٹر پِری میڈیکل ہی سے کیا، مگر پھر بڑی بہن کے ادھورے خواب کو مکمل کرنے کے لیے کہ وہ میڈیا مینجمنٹ میں ماسٹرز کرنا چاہتی تھی اور شادی ہوجانے کے باعث نہ کر سکی، مَیں نے اِسی مضمون میں ماسٹرز کا فیصلہ کیا اور پھر وہیں سے ٹی وی اسکرین پر آنے کا شوق بھی ہوا۔

س : میڈیا سے وابستہ ہونے پر اہلِ خانہ کا کیا ردِّعمل تھا، کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا؟

ج : مَیں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں، جس نے ملازمت کی، اس کے باوجود مجھے کسی خاص رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک تو ماسٹرز کے دوران ہی سب کا تھوڑا بہت ذہن بن چکا تھا کہ مَیں میڈیا کو بطور پیشہ اپنائوں گی اور پھر ابّو نے بھی بہت ساتھ دیا۔ اور ابّو جو کہہ دیں، وہ تو حرفِ آخر ہوتا ہے۔

س : پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا، تو کیا احساسات تھے؟

ج : بہت ڈر لگ رہا تھا، آواز بھی کانپ رہی تھی، مگر پھر جلد ہی ڈر و خوف پر قابو پالیا اور اعتماد کے ساتھ بلیٹن مکمل کیا۔

س : 2013ء میں ایک نجی چینل سے انٹرن شپ کی، پھر 2014ء میں باقاعدہ کیرئیر کا آغاز کیا اور اب جیو نیوز سے وابستہ ہیں، تو 2013ء سے آج تک کے سفر کے متعلق مختصراً کچھ بتائیں؟

ج : ایک ایسا سفر، جس میں عام ڈگر سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ سیکھنے کو ملا اور مل رہا ہے۔

س : نیوز پڑھتے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا، لیکن ابھی بھی کچھ جملوں کا تلفّظ غلط کرجاتی ہیں، کیوں؟ دیگر نیوز کاسٹرز کےمقابلے میں آپ سے Fumbles کچھ زیادہ نہیں ہوتے؟

ج : جی درست کہا، ایسا ہی ہوتا ہے۔ مَیں دراصل بہت Idealistic سی ہوں، تو اگر کبھی کاپی میں کوئی غلطی آجائے، تو یک دَم ذہن بہت ڈسٹرب ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے الفاظ کا تلفّظ بھی غلط کرجاتی ہوں۔

س : زندگی کی پہلی کمائی ہاتھ آئی، تو کیا کیا؟

ج : دفتر سے گھر جاتے ہی امّی کے ہاتھوں میں تھما دی، کیوں کہ مجھے یہ پیسے دینے والا پیار امّی ہی پر آتا ہے۔ اور انہوں نے بھی روایتی مائوں کی طرح وہ پیسے میرے ہی نام پر محفوظ کردیئے۔

س : جیو جوائن کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

ج : مَیں نے کئی چینلز پر کام کیا، لیکن جتنا سیکھنے اور کام کرنے کا موقع مجھے جیونیوز سے ملا، کہیں اور نہیں ملا۔ اور پھر یہاں کا ماحول، خاص طور پر خواتین کے لیے بہت اچھا ہے۔

س : کیا ریکارڈنگ کے دوران کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟

ج : کیریئر کے ابتدا میں میرا تلفّظ ذرا لاہوری سا تھا، جس کے باعث اکثر خبریں پڑھتے ہوئے، کوئی نہ کوئی غلطی ہوجاتی تھی۔ کبھی کبھار تو غلطی ہونے پر بولتے بولتے رک جاتی، تب خاصی سبکی محسوس ہوتی اور خوب روتی بھی۔ تاہم، سینئرز کی مسلسل رہنمائی اور وقت کے ساتھ بہتری آتی چلی گئی۔

س : خود کو پانچ سال بعد کہاں دیکھ رہی ہیں؟

ج : پروگرام اینکر کے روپ میں۔

س : بہ ظاہر تو ناظرین کو نیوز اینکرز کی زندگی بڑی پُرکشش دکھائی دیتی ہے، تو کیا حقیقتاً بھی ایسا ہی ہے؟

ج : قطعاً نہیں، یہ جاب بَھرپور توجّہ کی متقاضی ہے۔

س : پروفیشنل لائف میں کبھی کوئی ایسا ٹاسک ملا، جو بے حد مشکل لگا ہو؟

ج : ہاں، یہ اُن دِنوں کی بات ہے، جب مَیں لاہور میں ایک نجی چینل کے لیے کام کررہی تھی۔ تب مجھے ایک اسائنمینٹ کی کوریج کے لیے نائن زیرو، کراچی جانے کو کہا گیا۔ ایک لمحے کے لیے تو پورے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی، مگر منع بھی نہیں کرسکتی تھی۔ سو، ڈری سہمی سی نائن زیرو چلی گئی، لیکن وہاں سے متعلق جو کچھ سُنا تھا اور جس قدر ڈرایا گیا تھا، ویسا کچھ بھی نہیں تھا۔

س : کس نیوز اینکر کے اسٹائل سے متاثر ہیں؟

ج : رابعہ انعم، محمّد جنید اور ذوہیب حسن سے۔

خوب رُو، خُوش ادا، خُوش مزاج، حفظہ چوہدری کی باتیں

س : آپ رابعہ انعم کو اپنی سہیلی کہتی ہیں، تو کیا کبھی پیشہ ورانہ حسد محسوس نہیں ہوا؟

ج : نہیں، بالکل نہیں۔ اس لیے کہ رابعہ میری دوست ہی نہیں، سینئر بھی ہیں۔ مجھے تو اُن سے بہت سیکھنے کا موقع ملا اور استاد سے کبھی حسد نہیں کیا جاتا۔

س : کبھی کسی ساتھی اینکر سے اپنا موازنہ کیا؟

ج : نہیں، نہیں، کبھی نہیں۔ میرا مقابلہ ہمیشہ خود ہی سے رہا ہے، کیوں کہ اگر مَیں کبھی ان باتوں میں الجھ گئی، تو پھر سیکھنے کا عمل رُک جائے گا۔

س : ریکارڈڈ شوز پسند ہیں یا براہِ راست نشریات؟

ج : لائیو ٹرانس میشن ہی پسند ہے، ریکارڈڈ شوز تو تقریباً Planted ہی ہوتے ہیں۔

س : آپ کے خیال میں ایک نیوز اینکر میں کیا خُویباں ہونی چاہئیں؟

ج : خود اعتمادی، حالاتِ حاضر سے آگاہی اور مطالعے کا ذوق و شوق۔

س : دفتری ذمّے داریاں ادا کر کے جب گھر جاتی ہیں، تو پہلا کام کیا کرتی ہیں؟

ج : سب سے پہلے تو نمازِ ظہر ادا کرتی ہوں کہ قضا ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس کے بعد کھانا، آرام اور پھر گھر کے کام کاج۔ گھر میں کوئی ماسی وغیرہ نہیں ہے، اس لیے گھر کی صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، برتن، کپڑوں کی دھلائی وغیرہ مَیں خود ہی کرتی ہوں۔

س : آپ لاہور سے کراچی منتقل ہوئیں، تو کیا یہاں کی زندگی بہت فاسٹ یا مشینی تو نہیں لگی؟

ج : پہلی بار جب کراچی آئی اور ائیرپورٹ سے گھر کی جانب روانہ ہوئی، تو یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے ہر شے بھاگ رہی ہے۔ اور آج تک یہی احساس برقرار ہے۔

س : کوئی ایسا کام، جو آپ نے کرنے کے بارے میں سوچا، مگر کیا نہیں؟

ج : سی ایس ایس کرنا چاہتی ہوں، مگر ہر بار مصروفیات آڑے جاتی ہیں۔

س : کھانا پکانے، سینے پرونے کا شوق ہے؟

ج : دیسی سے لے کر چائنیز کھانے تک بے حد لذیذ بناتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرے ہاتھ میں ذائقہ امّی کی وجہ سے ہے۔ سینے پرونے کا کچھ خاص شوق نہیں، حالاں کہ ابّو نے امّی سے کہا کہ ’’اسے سینا پرونا بھی سکھائو۔‘‘ لیکن مجھے لگتا ہے ،یہ میرے بس کی بات نہیں۔

س : کبھی ڈراموں یا فلموں میں کام کی آفر ہوئی، اگر ہوئی تو کیا قبول کرلیں گی؟

ج : ڈراموں، فلموں ہی کی نہیں، کئی اشتہارات کی بھی آفرز آرہی ہیں، لیکن ان تینوں شعبوں میں مجھے کوئی دِل چسپی نہیں، اس لیے معذرت کرلیتی ہوں۔

س : شاپنگ یا پھر کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں، تو کیا لوگ پہچان لیتے ہیں اور پھر عموماً اُن کے ریمارکس کیا ہوتے ہیں؟

ج : جی بالکل پہچان لیتے ہیں اور سیلفیز بھی لیتے ہیں، جب کہ زیادہ تر فینز یہی کہتے ہیں کہ ’’ہماری صُبح آپ کا بلیٹن دیکھ کر ہی ہوتی ہے۔‘‘

س : کبھی کسی بات پر غصّہ آجائے، تو ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟

ج : اس معاملے میں ایگریسو ہونے کے ساتھ ایکسپریسو بھی ہوں۔ اس لیے جب غصّہ آتا ہے، تو خُوب چیختی چلّاتی ہوں، جب تک دِل کی بھڑاس نہ نکل جائے، چُپ نہیں ہوتی۔ مَیں دراصل بہت اصول پسند ہوں، اصولوں، مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجائے، تو پھر بہت غصّہ آتا ہے۔

س : گھر والوں کو آپ کی کون سی عادات ناپسند ہیں؟

ج : یہی غصّہ کرنا، چیخنا، چلّانا۔

س : موسم اور رنگ کون سا بھاتا ہے؟

ج : موسمِ گرما بے حد پسند ہے، جب کہ رنگ سارے ہی اچھے لگتے ہیں، لیکن پہننے اوڑھنے میں سیاہ اور نیلا زیادہ بھاتا ہے۔

س : میک اپ اور جیولری میں کیا پسند ہے؟

ج : لپ اسٹک تو میک اپ کا لازمی جزو ہے۔ کاجل، مسکارا بھی اچھا لگتا ہے۔ اور جیولری میں نازک سی چین اور بریسلیٹ پسند ہیں۔

س : ستارہ کون سا ہے، سال گرہ مناتی ہیں؟

ج : 19 اکتوبر تاریخِ پیدایش ہے۔ اس اعتبار سے ستارہ، میزان ہے۔ سال گرہ منانے کا شوق زمانۂ طالب علمی ہی تک رہا، اب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھنے کے بعد زندگی اس قدر مصروف ہوچکی ہے کہ اس طرح کے شوق پورے کرنے کا وقت نہیں ملتا۔

س : اگر فیس بُک بند کردی جائے اور موبائل فون بھی زندگی سے نکال دیا جائے تو؟

ج : زندگی رُک سی جائے گی۔

س : آپ کے بیگ کی تلاشی لی جائے تو؟

ج: فون چارجر، تھوڑا بہت میک اپ کا سامان، چاکلیٹ اور کینڈیز ہی نکلیں گی۔

س : آپ کو سیاست دانوں میں نواز شریف پسند ہیں، موجودہ سیاسی صورتِ حال پر کیا تبصرہ کریں گی؟

ج : صرف یہی کہوں گی کہ احتساب کے نام پر صرف نواز شریف ہی نشانے پر کیوں؟ دیگر سیاست دان کیوں نہیں؟

س : کتب بینی کا شوق ہے؟

ج : پہلے نہیں تھا، لیکن جیو نیوزجوائن کرنے کے بعد مطالعے کی اہمیت کا اندازہ ہوا، تو اب مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتی رہتی ہوں۔

س : شاعری اور موسیقی سے کس حد تک دِل چسپی ہے؟

ج : شاعری تو سَر سے گزر جاتی ہے، البتہ موسیقی اس حد تک پسند ہے کہ اکثر ہی گنگناتی رہتی ہوں۔ ایک بار ایک نیوز سیگمینٹ میں بھی گلوکار سلمان احمد سے بات چیت ہورہی تھی، تو انہوں نے گانے کو کہا اور مَیں نے بھی جھٹ قومی نغمہ سُنادیا۔

س : آپ کی انفرادیت؟

ج : اصول پرستی۔

س : اپنے فینز کے نام کوئی پیغام؟

ج : آپ لوگوں سے ہم ہیں اور ہم سے آپ، اسی لیے جیوز نیوز دیکھتے رہیں، اور فیڈ بیک بھی دیتے رہیں۔

س : ایک دُعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج : یااللہ! میرے ماں، باپ تاقیامت سلامت رہیں۔

تازہ ترین