کہا جاتا تھا کہ صنف نازک کمزور ہوتی ہے،جلد خوفزدہ ہوجانے والی ،گھبرانے والی، بچپن میں امی نے یہ کہہ کر جہاز بھائی کو دلایا کہ تمہارے لئے باربی لی تو ہے ۔ جس کے بعدوہ معصومانہ انداز میں کیا گیا سوال کئی سال تک سماعتوں میں گونجتا رہاکہ امی کیا لڑکیاں جہاز نہیں اڑا سکتیں ؟؟؟
تاہم کئی سال بعدشعور میں قدم رکھتے ہی اس بات کا جواب 2006میں ملا جب یہ خبر پڑھی کہ تاریخ میں پہلی بار بری فوج میں طبی شعبے کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں30 خواتین کو بھرتی کیا جائے گا جنہیںسگنلز، تعلقات عامہ، کمپیوٹر سیکشن، تعلیمی اور قانونی شعبوں میں بحیثیت کیپٹن اور میجر مقرر کیا جائے گا کیونکہ اس سے قبل صنف نازک کی بھرتی کا عمل صرف فوج میںطبی شعبے تک ہی محدود تھا اگر بات کی جائے اس وقت طبی شعبے میں شامل خواتین کی، تو اس میں تقریبا 650 خواتین بحیثیت ڈاکٹرز اور2300 خواتین بطور نرسز کام کر رہی تھیں، جن میں ایک میجر جنرل ، 13 برگیڈئر، 26کرنل اور 38لیفٹیننٹ کرنل کے عہدوں پر تعینات ہیں ۔
طب کے شعبے کے علاوہ دیگر شعبوں میں خواتین کی بھرتی کا اعلان ترجمان پاک فوج میجر جنرل شوکت سلطان کی جانب سے اسلام آباد کے مقامی صحافیوں کی پریس کانفرنس میں کیا گیا ۔پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس روز یہ بھی انکشاف کیا گیا گزشتہ ماہ پاک فضائیہ میں چار خواتین کو تربیت کے بعد بحیثیت لڑاکا پائلٹ بھرتی کرلیا گیا ہے اس دن خوشی کی انتہا نہ تھی امی کو فورا ہی بتایا کہ دیکھیں لڑکیاں بھی جہاز اڑاسکتی ہیں جب امی نے بھی یہ تسلیم کیا کہ عورت بھی وہ کام کرسکتی ہے جو مرد سرانجام دیتے ہیں کیونکہ عورت کسی سے کمتر نہیں ہوتی ۔۔۔
جی تو بات ہورہی تھی ان صنف نازک کی جنہوں نے پاکستان کو یہ کامیابی دلائی کہ دفاع وطن میں خواتین بھی کسی طور پیچھے نہیں ۔وطن کی حفاظت سے منسلک اس شعبے میں خواتین کی شمولیت نے پاکستان کو بھارت سمیت کئی ممالک کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے زینہ فراہم کیا جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اب کوئی بھی عورت اس شعبے کو صرف مرد کی ذات سے منسلک نہیں سمجھتی ۔
اس شعبے میں شمولیت کے لئے سخت سے سخت ٹریننگ سے گزرنا پڑے یا اپنوں سے دوری اختیار کرنا پڑے یہ نڈر خواتین کسی طور پیچھے نہیں کامیابی اور بہادری کی بلندیوں کو چھونے والی پاکستان کی ان بیٹیوں نے ملک کا وقار بہر طور بلند کیا ہے اور کرتی رہیں گی ۔۔
صبا خان،نادیہ گل،مریم خلیل اور سائرہ بتول وہ خواتین ہیں جنہوں نے تاریخ میں پہلی بار 2006 اپنی تربیت مکمل کرکے پاکستان کی فائٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان خواتین نے یہ اعزاز 32مرد کیڈٹس کے ساتھ 116واں جنرل ڈیوٹی پائلٹ کورس کی تربیت مکمل کرنے کے بعد حاصل کیا ان خواتین کی ایک اور یا یوں کہیں سب سے خاص بات یہ تھی کہ ان میں دو کا تعلق پاکستان کے پسماندہ شہر کوئٹہ سے تھا تو ایک کا تعلق قبائلی اور اصولوں میں سخت گیر خیالات رکھنے والے صوبہ سرحد جب کہ ایک صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپو ر سے تعلق رکھتی تھیں ان خواتین نے ثابت کیا کہ کامیاب پائلٹ خواتین بھی مردوں کی طرح مشکل ترین تربیتی مراحل میں خود کو ثابت قدم رکھ کر دنیا کے کسی بھی شعبے میں اپنا آپ منواسکتی ہیں پھر چاہے انھیں کتنی بھی سخت سے سخت ٹریننگ سے گزرنا پڑے یا اپنی جان سے کھیلنا پڑے ۔۔۔
2006 سے شروع ہوا یہ سفر جون 2013 میں پاکستان کو ایک اور نڈر بیٹی دینے کا سبب بنا جب 26سالہ باہمت اور نڈر عائشہ فاروق نےدفاع وطن کے لئے پاک فضائیہ کی پہلی خاتون جنگجو پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔عائشہ فاروق کا تعلق صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع بہاولپور سے ہے قوم کی اس بیٹی پرہر شخص کو ناز ہے جس کا شمار گزشتہ دہائی میں فضائیہ کی پائلٹ بننے والی 25 خواتین میں ہوتا ہے جس کے باعث بھارتی میڈیا بھی پاکستان کی برتری ماننے پر مجبور ہوا۔
2013کے اعداد وشمار کے مطابق پاک افواج میں 4 ہزار کے قریب خواتین جبکہ فضائیہ میں 316 خواتین اہلکارمختلف شعبوں میں موجود ہیںاس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 5 سال قبل 2008یہ تعداد صرف 100تھی۔
عائشہ فاروق کا میڈیا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میںکہنا تھا کہ ’’واحد خاتون فائٹر پائلٹ ہونے کے ناطے مجھے مرد ساتھیوں کے ہمراہ کچھ مختلف نہیں محسوس ہوتا،ہماری سرگرمیاں ایک سی ہیں،دشمن پر بمباری کرنا ہمارا پیشہ ہے ان کا کہناتھا کہ اپنے ملک کے جغرافیائی محل وقوع اور دہشت گردی کی وجہ سے یہ بہت اہم ہے کہ ہر وقت تیار رہا جائے۔‘‘
بات نکلی ہے اڑان کی تو ہم شہید مریم مختا ر کوبھی ہرگز نہیں بھول سکتے جو 2014ء میں پاک فضائیہ میں بطور جنگجو پائلٹ منسلک ہوئی جس نے ثابت کیا کہ عورت مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے میں کمر بستہ ہے ۔تاہم قوم کی یہ بیٹی 24 نومبر 2015ء کی صبح اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے پاکستان کا سر فخر سے بلند کرگئی جب دوران پرواز ضلع گجرات کی فضاؤں میں جہاز کے انجن میں اچانک آگ لگنے کے باعث مریم مختار ہمیشہ کے لئے ہم سے دور ہوگئی ۔
جس کی شہادت پر نہ صرف خواتین بلکہ ہرپاکستانی کو فخر ہے جس نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کردیا ملک کی اس دلیر باہمت بیٹی نے ثابت کیا کہ ملک و قوم کا تحفظ کرتے ہوئے جان دینی پڑے ،تو وہ یہ عظیم ترین قربانی دینے سے ہرگز گریزنہ کرے۔۔
یہ حقیقت ہے کہ عورت نازک ہے لیکن کمزور نہیںاگر یہ پنی صلاحیت، ذہانت اور سمجھ بوجھ کا استعمال مردوں کے شانہ بشانہ کرنے لگے توتاریخ انسانی اِس بات کی گواہ ہےکہ قوموں کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی۔یہ صنف اپنے اندر وہ جذبہ رکھتی ہے جو تبدیلی کی طاقت ہے ۔
یہ اپنے اندر ایسا انقلاب رکھتی ہے جس کے بغیر ترقی ناممکن ہے ہمیں فخر ہے ملک کی ان تمام قابل فخر خواتین پائلٹس پر جنھوں نے دفاع وطن کے لئے مردوں کے شانہ بشانہ کام کے ا س میدان میں شمولیت کے بعد اپنی قابلیت اور اہلیت کا لوہا منواکر آنے والی خواتین کیلئے نئے دروازے کھولے ، ہمیں فخر ہے عائشہ پر ہمیں فخرہے مریم مختار ہمیں فخر ہے ہر اس عورت پر جو دفاع وطن کےلئے مردوں کے ساتھ کھڑی ہے جو نہیں ڈرتی جان کی بازی لگانے سے جو نہیں ڈرتی بھو ک پیاس سے ۔۔۔۔