• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بایو فرٹیلائزر

انسان کرۂ ارض پر صدیوں سے اپنی خوراک ،لباس ایندھن اور رہائش کے لیے پودوں پر انحصا ر کررہا ہے۔ فصلوں اور پودوں کی غذائی ضروریات زمین کے اندر موجود غذائی عناصر کے لامحدود خزانوں ،زرعی وصنعتی فضلہ جات کی ری سائیکلنگ ،بارش اور آب پاشی کے پانی میں حل شدہ غذائی عناصر ،زمین کے اندر اور پودوں میں موجود کئی اقسام کے جرثوموں کی وجہ سے پوری ہوتی ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ صدی کے دوران کیمیائی کھاداور کیمیائی زہر زرعی کاشت کے ضا من سمجھے جانے لگے تھے۔

لیکن اس کے اثرات انسانی صحت اور ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔اس کے مضر اثرات نے زراعت کے ماہرین کی توجہ زمین کی زرخیزی بر قرار رکھنے ،فصلوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے،پودوں کے امراض کے خلاف جنگ کے نئے طریقے دریافت کرنے اور مفید جر ثوموں پر تحقیق کی جانب مبذول کرائی ۔حیاتیاتی کھاد یابایو فرٹیلائزر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

حیاتیاتی کھاد کا زراعت کے شعبے میں اہم کردار ہے۔اس سے مراد فطری طور سے تیار شدہ وہ کمپوسٹ مٹیریل ہے جوزمین میں موجود خرد حیاتیات نا میاتی مادوں سے بنتاہے۔یہ کھاد ایک جانب فصل کو ا ہم غذائی عناصر مثلاً نائٹروجن ،فاسفورس وغیرہ کی فراہمی بہتر بناتی ہے اور دوسری جانب ایسے ہارمونز پیدا کرتی ہےجو پودوں کی افزایش کا باعث ہوں۔

ماہرین زرا عت کے مطابق بایو فرٹیلائزر کے استعمال سے زرعی اجناس کی پید ا وارمیں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنایا جاسکتا ہے اوراس کے ذریعے پھلی والی فصلوں کی پیداوار میں 100 فی صد تک بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔

بایو فرٹیلائزر، ایسے جر ثوموں پر مشتمل ہے جن کی موجودگی زمین کی قدرتی زرخیزی بر قرار رکھتی ہے بلکہ ما ہر ینِ زراعت کے مطابق بایو فرٹیلائزر کی اہمیت وقت کے ساتھ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے ،کیوں کہ اس کا استعمال زمین کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی قدرتی زرخیزی کو روکنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔

زمین میںبعض جر ثومے ا یسے ہوتے ہیں جو ہوا میں موجود نائٹروجن کو جذب کر سکتے ہیں۔ یہ جر ثومے پھلی والی فصلوں کی جڑوں کے اندر گھر بنا کر رہتے ہیں اور ہوا میں موجود نائٹروجن کو قابل استعمال بنا کر پودے کی نشو ونما کے لیے مہیا کرتے ہیں ۔ 

اگریہ (جر ثومے) کھیت میں مناسب تعداد میں موجود ہوں تو نائٹروجن کی مصنوعی کھاد کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔زرعی سائنس دانوں نے ایک تحقیق کے بعد ان جر ثوموں پر مشتمل ایک کھاد تیار کی ہے ،جسے ’’نائٹروجنی بایو کھاد ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

یہ پاکستان میں اُگنے والی پھلیوں ،مثال کے طور پر سویا بین ،چنا ،مونگ ،ماش ،برسیم اور مونگ پھلی وغیرہ کے لیے بہت زیادہ مفید ہوتی ہیں۔ اس سے مذ کورہ فصلوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔

جدید دور میں بایو فرٹیلائزر ،بایو کنٹرول اور بایو ٹیکنالوجی کے ذریعے مفید جر ثوموں کی کار کردگی بڑھا کر مضرکیمیائی عوامل سے چھٹکارا پانا مستقبل کی زرعی ترقی کا مطمع نظر بن گیا ہے ۔ماہرین کے مطابق پودوںکے غذ ا ئی عناصر میں سب سے زیادہ نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔

زمین کے ہوائی کرۂ میں تقریباً 79فی صد نائٹروجن پائی جاتی ہے ،جو زمین اور سمندر کے فی ایکڑ رقبے پر 78,000 ٹن یوریا کھاد کے برابر ہے ۔ایک اندازے کے مطابق جراثیم کے ذریعے سالانہ سترہ کروڑ ٹن نا ئٹر وجن پیداہوتی ہے ،جو کھیتوں ،چرا گاہوں اور جنگلات میں پیڑوں اورپودوں کی غذائی ضروریات پوری کرتی ہے۔

اس کے برعکس سیکڑوں کار خانے اربوں ڈالرز کا ا یندھن اور لاکھوں انسانوں کی انتھک محنت کے بعد سالانہ پانچ سے چھ کروڑ ٹن نائٹروجن تیار کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق دنیامیں تیل اور گیس کے بے دریغ استعمال ، تیزی سے بڑھتی ہو ئی قیمتوں اور ختم ہوتے ہوئے ذخائر کی وجہ سے اب ز ر ا عت صرف کیمیائی کھادپر انحصار نہیں کرسکتی ۔فاسفورس، پودوں کادوسرا بڑاغذائی عنصر ہے جو کثر ت سے زمین میں پایا جاتا ہے ۔

سائنسی تجزیے کے مطا بق ہماری زمینوں میںفاسفورس کی مکمل مقدار تقریباً 1000 پی پی ایم ہے۔ لیکن یہ زمین میں موجود کیلشیم کے ساتھ عمل کرکے ناحل پذیر کی وجہ سے پودے کی ضر و ر یا ت پوری نہیں کر پاتی ۔

کھاد کی تیاری،نقل وحمل ، ا سٹو ر یج، غرض یہ کہ تمام مراحل میں توانائی کے استعمال کی وجہ سے فاسفورس کھاد کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اور کاشت کار سفارش کردہ مقدار کھیت میں ڈالنے سے قاصر ہیں۔ ما ہر ین کا کہنا ہے کہ فاسفورس کی حل پذیر ی بڑھانے والے بہت سے ایسے جراثیم دریافت ہوئے ہیں جنہیں اگر ز مین میں ڈالا جائے تو یہ جر ثومے کھاد کے طور پر ڈالی گئی فاسفورس کی حل پذیری بڑھا کر فصل کی بہتر پیداوار کا باعث بنتے ہیں ۔ نائٹروجن اور فاسفورس کے علاوہ جڑوں میںپائے جانے والے بیکٹیریا، پوٹاش، زنک اور د یگر اجزاکی فراہمی بھی بہتر بناتے ہیں ۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ، اب ایسی فصلیں تیار کرنی چاہیں جن میں مختلف بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلا حیت ہو،وہ اینٹی بایوٹک خصوصیات کی حامل ہوں ،بیماری ،خشکی ،خراب موسمی حالات میں پودوں کو ان کے خلاف قوت اور طاقت بخشیں اور زمین کے اندرہی مسائل کا قلع قمع کرسکیں۔

علاوہ ازیں وہ مفید پیتھو جنز (Pathogens) یعنی جراثیم کی تعداد بھی بڑھائیں ، تاکہ پودے کی جڑوں میںمفید جر ثومے زیادہ تعداد میں پائےجائیں ۔یہ جر ثومے زمین میں موجود نامیاتی ما د ے،فصل کی جڑوں سے خارج ہونے والے گلوکوز ، کا ر بن اور نائٹروجن کمپائونڈز سے خوراک حاصل کرتے ہیں ۔پودے کی عمر کے ساتھ ان کی مقدار اور جر ثوموں کی تعداد بھی بدلتی رہتی ہے ۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر زرعی ممالک مثلاً امریکا ، یورپ ، روس ،چین ،بھارت اور جاپان وغیرہ میں بایو فر ٹیلا ئز ر پر تحقیق اور پروڈکٹس کی تیاری کا کام وسیع پیمانے پر ہورہا ہے ۔لاکھوں ایکڑ رقبے پر بایو فرٹیلائزر اور بایو کنٹرول پروڈکٹس کام یابی سے استعمال ہو رہی ہیں۔ لیکن پا کستا ن میں تحقیق اور کمرشل پروڈکٹس کی تیاری ابھی ابتدائی مر ا حل میں ہے ۔ 

شعبہ جراثیمِ اراضی، زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد ، زرعی یونیو رسٹی ، (این ، اے ،آر ،سی )کی جانب سے کیےگئے تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ با یو فرٹیلائزر کا استعمال زمینی صحت کی بحالی،پیداوارمیں اضافے،کیمیائی کھاد کی بچت ، ماحول کے تحفظ اور پید ا و ا ر ی لاگت میں نمایاں کمی کا باعث ہے۔بایو فرٹیلائزر کی بہت سی اقسام ہیں ،جن سے ہم استفادہ کرسکتے ہیں۔ان میں سے چند کا ذکر ذیل میں ملاحظہ کریں ۔

……رائزوبیکٹیریا……

بایو فرٹیلائزر کی یہ قسم 50 تا 200 کلو گرام نا ئٹر وجن فی ہیکٹر سالانہ فکس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ دنیا بھر میں سالانہ کروڑوں ٹن نائٹروجن اسی ذریعے سے فکس ہوتی ہے ۔یہ جرثومے پھلی والی فصل کے بعد کاشت کی جانے والی بغیر پھلی والی فصل کو بھی 40۔30 کلو گرام نائٹروجن فی ہیکٹر فراہم کرتے ہیں ۔

…..ایزوٹوبیکٹریا……

یہ گندم ،چاول ،مکئی اور سبزیوں وغیرہ کی جڑوں اور پتوںپر آزادانہ طریقے سے پرورش پاتاہے ۔علاوہ ا ز یں 20 تا 40 کلو گرام نائٹروجن فی ہیکٹر اور پودے کی افزایش پر اثر انداز ہونے والے وٹا منز اور گروتھ ہار مونز پیدا کرتا ہے ۔بعض جراثیم بیماریوں کا تدارک بھی کرتے ہیں۔

……بلیو گرین الجی……

کھیتوں میں پرورش پانے والی الجی کی یہ قسم 20 تا 30 کلو گرام نائٹرو جن فی ہیکٹر فراہم کرنے کے علاوہ گروتھ ہارمون بھی فراہم کرتی ہے ۔مثال کے طور پر انڈول ایسٹک ایسڈ اور جبریلک ایسڈ وغیرہ ۔

……سوڈوموناس……

یہ قسم فصل کی افزایش میںاہم کردار ادا کرتی ہے ۔ فا سفورس کی حل پذیری ،ہارمونز کی پیدایش اور بیماریوں کے خلاف موثر کنٹرول کی حامل یہ قسم ترقی یافتہ ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جارہی ہے ۔

……بیسی لس……

فاسفورس کی حل پزیر ی بڑھانے، ہارمون اور اینٹی بایو ٹک خصوصیات کی حامل بیکٹیریا کی یہ قسم بھی جدید دور میںبہت سی بایو فرٹیلائزر اوربایو کنٹرول مصنوعات کا با عث بنی ہے۔

……سوات کا تجربہ……

یہ چند برس قبل کی بات ہے۔ضلع دیر (اپر) میں واقع بے نظیر یونیورسٹی شیرنگل کے ایک ا سکالر، مداراللہ کی جانب سے سوات میں ایک تحقیقی مطالعے میں مکئی، چاول اور گندم جیسی اہم اجناس کے لیے مائیکروبس سے بنی کھاد سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کا تجربہ کیا گیا۔اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ کیمیائی کھاد کے مقابلے میں بایوفرٹیلائزر زیادہ مؤثر اور ماحول دوست ثا بت ہوتی ہے۔

مداراللہ نے جون 2013میں یونیورسٹی آف پشاور میں ایک وڈیو کانفرنس کے ذریعے دیگر افراد کو اپنی تحقیق سے آگاہ کیا تھا۔ مدراراللہ شرنگل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر اور بایوٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔ 

انہوں نے سوات میں اہم اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے رائزوبیکٹیریا کے کردار پر اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔ واضح رہے کہ برطانیہ اور کوریا کے ماہرین نےمداراللہ کے تحقیقی کام کو سراہا ہے۔ ان کے آٹھ سے زائد ریسرچ پیپرز دنیا بھر کے اہم ترین جرنلز میں شائع ہوچکے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فر ٹیلا ئز ر ز یا مصنوعی کھاد استعمال کے بعد جھیلوں، دریائوں اور پانی کے اہم ذخیروں کو آلودہ کرتی ہیں۔ یہ عمل دنیا بھر میں ساحلوںکا ایکو سسٹم تباہ کررہا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا جانوروں اور زراعت ونباتات کا تنوع بھی شدید متاثر ہورہا ہے۔ ہم نے چوں کہ اپنے گھاس کے میدان اور جنگل کھیتی باڑی کے لیے صاف کردیے ہیں، اس لیے ان جنگلوں میں بسنے والے جانوروں اور پرندوں کی آبادیاں بھی ختم ہورہی ہیں۔ 

گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج ز ر ا عت ہماری جنگلی حیات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔چناں چہ آج زراعت کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی چیلنجز بہت بڑے اور اہم ہیں۔ اگر ہم دنیا بھر میں خوراک کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کی طرف قدم بڑھائیں گے تو یہ چیلنجز مزید خطر نا ک ہوجائیں گے۔ 

ہمیں موجودہ صدی کے وسط تک دو ارب مزید پیٹ بھرنے ہوں گے، یعنی کرۂ ارض کی نو ارب آبادی کے لیے خوراک کا انتظام کرنا ہوگا۔ صرف ایسا نہیں ہے کہ آبادی بڑھنے سے خوراک کی ضرورت بڑھے گی، بلکہ دنیا کے متعدد ملکوں میں ہونے والی ترقی (بالخصوص چین اوربھارت میں) بڑی تیزی سے گوشت، انڈوں، دودھ اور دودھ سے تیارشدہ مصنوعات کی طلب میں اضافہ کردے گی، جس کے نتیجے میں ہمیں زیادہ اناج اُگانا ہوگا۔ 

ہمیں اپنے مویشیوں اور مرغیوں کو کھلانے کے لیے زیادہ چارے یا سویا بین کی ضرورت ہوگی۔ ہم پر خوراک کی طلب کا جو بوجھ بڑھے گا، وہ ہمیں مجبور کردے گا کہ ہم 2050تک اپنی فصلوں کی پیداوار دگنی کردیں ورنہ ہمارے لوگ بھوکے مرجائیں گے۔ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آج پوری دنیا میں کیمیکل فرٹیلائزرزکے بڑھتے ہو ئے مضر اثرات سے بچنے کے لیے بایولوجیکل کنٹرول اور قدرتی طور پر تیارکردہ بایو فرٹیلائزر پر تحقیق ہورہی ہے۔

تازہ ترین