• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھاگنے کا راستہ تھا، نہ چھپنے کی جگہ

مصّورِغم علامہ راشدالخیری کی کتاب ’’غدر کی ماری شہزادیاں‘‘میں ایک داستا ن مظفر سلطان کی ہے جو ظل سلطانی بہادر شاہ ظفر کی خالہ زاد بہن تھیں ۔انہوں نے قلعہ کی چہل پہل، رنگ رنگینیاںدیکھی تھیں۔ غدر نے جن کو زندہ چھوڑ کر اس طرح نچوڑا کہ حال سے بے حال اور صورت سے بے صورت کر دیا۔ راشد الخیری نے اس کتاب مظفر سلطان کے بارے میں ان ہی کی زبانی قلم بند کیا ہے۔جو نذرِ قارئین ہے۔

ظل سلطانی ،جن کے سایہ میں ہمارا بچپن کٹا اور جوانی گزری ہم سےہزاروں کوس دور زندگی کے باقی دن پورے کرکے دنیا سے رخصت ہوچکے۔ سرکار کے مبارک ہاتھوں کے نوالے بارہا میرے منہ میں گئےہیں۔ اور حضور نے سیکڑوں ہزاروں مرتبہ میرے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا ، مگر یہ تقدیر کی خوبی کہ جب عالی جاہ پر وقت پڑا تو ہم کسی خدمت کے قابل نہ رہے۔مظفر سلطان کی زبان سے سرکار کا نام سنتے ہی سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بادشاہ کی مغفرت کے لئے ہزاروں ہاتھ بلند ہوگئے۔

اس کے بعد مظفر سلطان نے کہا۔

’’شہر کی حالت اتنی ابتر ہوگئی تھی کہ ہر طرف کہرام مچ رہا تھا، کوئی گھر ایسا نہ تھا، جہاں سے رات بھر رونے پیٹنے کی آوازیں نہ آتی ہوں، بھاگنے والے بھاگ چکے تھے، جدھر جس کا منہ اُٹھا ،جارہا تھا۔ افراتفری ایسی تھی کہ بھائی کو بھائی کی خبر نہ تھی زندوں کی خیر صلاح تھی، نہ مردوں کی خبر ، اپنوں کا ہوش نہ غیروں کا خیال۔ مغرب کے بعد منشی وزیر کا مخبر آکر بتادیتے تھے کہ کل اس کو پھانسی ہوگی۔ ست ہی ست پر جان تھی، ایک قدم اٹھائو دوسرے کی خبر نہیںتھی،بھاگنے کا راستہ تھا نہ چھپنے کی جگہ، دھڑکے میں جان اور کھٹکے میں دل، جو پکڑا گیا پھر پلٹ کر نہ آیا۔ 

میرے شوہر خسرو مرزا کو دن دہاڑے کوتوالی چبوترے پر کالے مخبر نے پھانسی دلوائی ،میں بہتیرا ہی تڑپی اور پیٹی کہ صاحب عالم کی لاش اپنے ہاتھ سے دفن کروں، مگر کسی نے نہ سنی اور یہ ہی کہا کہ جب بادشاہ ہی کے لالو کو کفن نصیب نہ ہوا تو ہم کس گنتی میں ہیں۔ مرزا کے بعد جینے کا مزا نہ تھا اور مجھے سب سے بڑا کھٹکا سلیم کا تھا، جس کی مجھے فکر تھی کہ دیکھئے اس کا کیا ہوتا ہے۔ 

میں نے کالے مخبر اوراس کی بیوی بچوں کی رات رات بھر خدمت کی کہ کہیں ظالم میرے بچے کا نام نہ لے دیں اور مرزا کے ساتھ اس کا داغِ غم بھی نہ اٹھانا پڑے، کالا اصل میں لوہار تھا ، مگر اس وقت شہر بھر کا مختار تھا ۔اس کی مخبری پر چٹکی بجاتے پھانسی ہوجاتی تھی۔ پوچھ نہ گچھ ، مسل نہ مقدمہ، جس دن بھائی فراست کو پھانسی ہوئی وہ رات خدا دشمن کو نہ دکھائے اور میرے واسطے تو قیامت سے کم نہ تھی ۔ 

جب کالے نے کہا کہ تمہارے بچے کا بھی نام آیا ہے، ا تنا سنتے ہی چکرا کر بیٹھ گئی ، کالا میری حالت پر ہنسا اور کہا۔ ’’شہر میں بارہ مخبر ہیں، اس وقت تو میں نے بچالیا ، مگر ان بے ایمانوں کے منہ کو تو خون لگا ہوا ہے اور مسجد میں قسم کھالی ہے کہ وہ اپنے باپ کو نہ چھوڑیں گے تمہارے پاس جو جمع جتھا ہو،لے آئو میں لے دے کر پاپ کاٹوں، خبر نہیں دوڑ کس وقت آجائے۔

میرے پاس نقد تو ایک کوڑی نہ تھی جو گہنا پاتا تھا وہ اوپلوں کی کوٹھری میں دبا رکھا تھا ، مجھے زیور بچے سے زیادہ عزیز نہ تھا، دوڑی دوڑی گئی اور جوکچھ تھا کھود کھاد کر اس کے حوالے کردیا ،مگر دل کا یہ حال تھا کہ گزوں اچھل رہا تھا ،کس کی نیند اور کس کی بھوک ،آدھی رات اسی چکر میں بیت گئی۔ 

مجھے ٹھیک یاد بھی نہیں کہ آدھی تھی یا پچھلا، میں نے سلیم اور فرخ دونوں بچوں کو ساتھ لیا، سلیم ماشاء اللہ پندرہویں میں اور فرخ اللہ رکھے چھٹے برس میں تھی، یہ دونوں نیند میں کسمساتے اٹھے ، ان کو لے کر کسی نہ کسی طرح دلی دروازے تک پہنچی گوروں اور کالوں کی روائیاں کھڑی تھیں اور لالٹینوں میں ان کی تلواریں اور کرچیں دور سے جگمگا رہی تھیں، قدم بڑھانے کی ہمت نہ پڑی اور دونوں بچوں کو کلیجوں سے لگا کر وہیں بیٹھ گئی، جب میں نے دیکھا کہ پہرے والےبے خبر پڑے ہیں تو بچوں کے منہ پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی اور دبے پائوں چوروں کی طرح آگے چلی۔ کیا بتائوں دل کا کیا حال تھا، سر پر موت تھی اور سامنے وہ موئے برقتداز، مگر اللہ کی کچھ ایسی مہربانی ہوئی کہ میں پرانے قلعے تک پہنچ گئی، اور سانس تک کی آواز میرے کان میں نہ آئی۔ 

یہاں میں ٹھٹکی ،خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا چاند کی آخری تاریخیں ہر طرف اندھیرا گھپ، اس پر یہ خوف کہ صبح کو جو دیکھے گا وہ مار ڈالے گا ، راستے کا پتا نہیںکہ کدھر جاؤں غرض بچوں کو لے اسی سڑک پر سیدھی ہولی ،سلطان جی پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ ہم نظام الدین میں ہیں۔ 

فرخ نے پانی مانگا، مگر میرے پاس پانی کہاں، اس کو بہلاتی پھسلاتی لئے جارہی تھی کہ دو آدمیوں کی آواز سنائی دی، جان ہی نکل گئی اور سمجھی کہ ظالم آگئے ۔ سڑک چھوڑ کرپک ڈنڈی پر ہولی ،دل دھکڑ دھکڑ کر رہا تھا اور جان کا اللہ ہی وارث تھا کہ پو پھٹی اور ایک گائوں کی سی صورت نظر آئی۔

اب میں نے اپنا بھیس بدلا ۔دوپٹہ سر سے باندھا اور سلیم کی اچکن پہن کر اچھا خاصا لڑکا بن گئی۔ گائوں کے پاس ایک ٹوٹی سی مسجد تھی ، ہم تینوں وہاں پہنچے، ایک بڈھے سے گنوار نے اذان دی اور ہم کو غور سے دیکھ کر چھوٹتے ہی کہنے لگا۔ ’’شہر سے بھاگے ہو‘‘ میں نے بھی نماز پڑھی ، مگر کیا خاک پڑھی، دل کا اللہ ہی بیلی تھا۔ سلام پھیر چکی تو بڑے میاں سے کہا۔ ’’اس لڑکی کو پیاس لگ رہی ہے ۔ 

انہوں نے ایک میلے کچیلے مٹکے کی طرف اشارہ کیا جو کوٹھری میں رکھا تھا ٹوٹے ہوئے کلڑے سے پانی بھرا اور اوک سے پلایا تو بڑے میاں نے اتنی مہربانی کی کہ ہم سے کہا ۔ ’’ تم لوگ بھوکے ہوگے، چلو میں کھانا کھلادوں۔‘‘ ہم ان کے ساتھ ہوگئے، بھوک کے مارے پتلا حال تھا، ان کے گھرپہنچے تو معلوم ہوا بڑے میاں بڑھئی ہیں، انہوں نے غور سے ہماری صورتیں دیکھیں اور کہنے لگے۔ ’’مال مسالہ تو بہت سا لائے ہوگے ہمارا حصہ تو دلوائو۔‘‘ میں نےکہا، ’’تلاشی لے لیجئے پھوٹا بادام بھی پلے نہیں بھوکے مررہے ہیں‘‘۔ 

ہمارے پیٹ بھر دیجئے ۔‘‘ بڑھئی خاموش تھا۔ اس کی بیوی اندر سے جاکر تین باسی روٹیاں اور پیاز کے گھٹے لائی۔ ہم کو وہی غنیمت لگے ، اس عورت کا دل ہی میں شکریہ ادا کررہی تھی کہ اس نے فرخ کو دیکھ کر کہا۔’’تم کو روٹی نصیب نہیں۔ اس بچی کو کہاں لئے پھروگے ، یہاں چھوڑ جائو ، یہاں کھانے کو تو ملے گا۔‘‘

میری تو یہ سن کر جان ہی نکل گئی ، بڑھیا میری بچی کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئی اور مجھ سے کہنے لگی یہ تو دلی کی الگنائی ہے۔ دن بھر گورے کالے آتے رہتے ہیں ،تم کو بھاگنا ہے تو جلدی بھاگ جائو دو نوںکمیلے چلے جائو۔ وہ گائوں ابھی اچھا ہے اور بچا ہوا بھی ہے۔‘‘ میں اس کا منہ تکنے لگی ، فرخ روئی تو بڑھیا نے اس بری طرح ڈانٹا کہ توبہ بھلی، بڑھئی اپنے کام پر چلاگیا ہم دونوں کھڑے اپنی تقدیر کو رو رہے تھے ، بڑھیا اپنی لٹیا لے کر جنگل کو گئی اور میں اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لے ایک طرف ہولی، تھوڑی دور جاکر ایک ٹوٹا سا مقبرہ دکھائی دیا۔ 

گوروں اور کالوں سے زیادہ اب بڈھے بڑھیا کا ڈر تھاکہ کب آجائیں اور کدھر سے آئیں تینوں اس مقبرے میں گھسے اور دن وہیں گزارا۔ بھوکے پیاسے لق لق کرتے ر ات کو نکلے تو سڑک پر ایک کوٹھڑی میں دو مٹکے سےدکھائی دیئے ۔ 

 پیٹ بھر کر پانی پیا، لٹیا بھر ساتھ لی اور آگے بڑھے ، صبح ہوتے ہوتے فرید آباد پہنچے۔ ہم تھک کر چور ہوگئے تھے اور پائوں میں موٹے موٹے چھالے پڑگئے تھے۔ فرید آباد کے ایک قاضی صاحب نے ہم کو مہمان بھی رکھا اور خاطر تواضع بھی کی ، مگر یہ کہہ دیا کہ ’’یہاں زیادہ رہنا ٹھیک نہیں‘‘ مخبر ادھر بھی آجاتے ہیں تم لوگ جلدی کوچ کرو‘‘۔ 

میں اتنا سنتے ہی پریشان ہوگئی اور شام ہی کو وہاں سے چلتی ہوئی دوسرے دن گیارہ بجے قریب ہیمیا پہنچے۔ یہ ہندوئوں کا گائوں تھا ، جہاں ہر طرف سے ہم پر لعنت برسنے لگی ، بھنگیوں اور چماروں کی طرح ہم کو جھوٹی روٹی کے ٹکڑے ملے اور الگ سے پانی پلایا، بھوک میں کواڑ بھی پاپڑ ہوتے ہیں کسی نہ کسی طرح پیٹ بھرا۔ کہیں میرا دوپٹہ سر سے سرک گیا تو ایک موٹے جگادری ہندو نے دوپٹہ یہ کہہ کر اتار لیا۔

’’ارے یہ تو عورت ہے‘‘۔

میں چور بنی کھڑی تھی کہ دوتین ہندو میرے دونوں بچوں کو پکڑکر لے گئے اور مجھ سے کہا ۔ ’’ تو مخبر ہے، نکل یہاں سے نہیں تو ابھی سرپھاڑ ڈالیں گے‘‘۔ ایک شخص میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے سڑک پر چھوڑ گیا اور کہا کہ ’’اب گائوں میں قدم رکھا، تو جان کی خیر نہیں‘‘۔اب میں کس طرح بتائوں کہ بچوں سے چھوٹ کر میری کیا کیفیت ہوئی۔ دن بھر بڑ کے نیچے بیٹھی روتی رہی اور خدا خدا کرکے شام ہوئی۔

ابھی رات کی سیاہی پوری طرح چھا ئی نہ تھی کہ مامتا بڑکے نیچے سے اٹھا کر گائوں میں لے آئی، جھٹ پٹا وقت تھا گوالنیں اپنی گائے بھینسوں کا دودھ دوہ رہی تھیں اور آنےجانے والے ادھر ادھر آجارہے تھے میرا دل ہوا ہورہا تھا اور جاں دم پر بنی ہوئی تھی کہ اب کسی نے پکڑا، مارا اور نکالا ۔ تھوڑی دور ایک ٹیلے کے پیچھے چھپی رہی، لیکن یہاں بھی چین نہ پڑا۔ 

نکلی منہ گائوں کی طرف کیا، مگر ہمت نہ پڑی اور اور ایک جگہ ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی، ابھی جھٹ پٹا ہی تھا کہ عورتوں اور مردوں کی ٹولیوں کی ٹولیاں گھی کے چراغ ہاتھ میں لئے مندر کی طرف جانے لگیں۔ شاید کوئی میلہ ہوگا ،جس کا پورا حال مجھے معلوم نہیں جب مندر کھچا کھچ بھر گیا تو میں اسی گھر پرپہنچی، جہاں میں نے اپنے بچے چھوڑے تھے، جھانک کر دیکھا تو ایک بڈھا پڑا حقہ پی رہا تھا اور دونوں بچے سامنے بیٹھے تھے۔ سوچتی تھی کہ کیا کروں بچوں کو کیوں کر بلائوں، مگر کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آتی تھی، دل کڑا کیا جان پر کھیل کر اندر قدم رکھا بڈھا اونگھ رہا تھا۔ 

میں نے بچوں کو اٹھایا بڈھا اونگھتا ہی رہا اور میں بچوں کو ساتھ لے کر باہر آگئی۔ اب چاروں طرف اندھیرا گھپ تھا، البتہ مندر سے بھجنوں کی اور جنگل سے گیدڑوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ آگے آگے میں اور پیچھے پیچھے میرے دونوں بچے بھاگے چلے جارہے تھے۔ مجھ کو اپنی جان کی پروا نہ تھی بچوں کے دھڑکے نے نیم جان کردیا تھا۔ 

جسم کی تمام قوت جمع ہو کر ٹانگوں میں آگئی تھی اور شفقت مادری اس وقت کو مہمیز کررہی تھی، یہاں تک کہ رات کی سیاہی نے کائنات کا ساتھ چھوڑا ور ہم ایسے پہاڑ کے دامن میں پہنچے ،جہاں مرغ کی آواز انسانی آبادی کا پتا دے رہی تھی، بچے بھوک کے مارے بلبلا رہے تھے، میں تو خیر دن بھر کی بھوکی پیاسی اعمال کو بھگت اور تقدیر کو رو رہی تھی۔ 

معصوم بچے نہ معلوم کس گناہ میں پکڑے گئے تھے کہ تن کو چیتھڑا تھا نہ پیٹ کو ٹکڑا ، پائوں کے چھالوں میں سے پانی اور ہاتھ کی کھڑیچوں سے خون بہہ رہا تھا، مگر دھجی تک میسر نہ تھی کہ پٹی باندھ دیتی ، رات جس نے اپنی زندگی میرے بچوں کی رہنمائی کو وقف کردی تھی ، دم توڑ چکی اور دن ہم خانماں بربادوں کے استقبال کو آگے بڑھا، مگر رات کی دیوی کا سایہ ہمارے واسطے نعمت تھا ، جس نے اپنا سیاہ لباس دن کو اوڑھا کردنیا پر دھکیلا ، اس کے خوفناک چہرے میں آفتاب کا کچھ ایسا ذخیرہ چھپا ہوا تھا کہ ننھے منے دل دہل گئے اور سلیم بخار میں لوتھ ہوا اور فرخ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ 

گائوں کچھ فاصلے پر تھا، مگر نہر قریب ہی جار ہی تھی، اب اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ میں نے اپنی پھٹی ہوئی رضائی املی کے درخت کے نیچے پانی کے قریب بچھائی اور دونوں بچوں کو وہاں لٹا کر فرخ کا سر دبانے بیٹھ گئی۔

طلوع آفتاب کے ساتھ میرے بچوں کے مکھڑے تمتمانے شروع ہوئے اور ابھی پہلا پہر ختم نہ ہوا تھا کہ سلیم بالکل ہی بے ہوش ہوگیا، رات بھر کا خمار اور پانچ چھ کو س کی تکان، اس پربھوک اور پیاس ، مجھ پر جوگزری بیان نہیں کرسکتی۔ ہوا ہماری غذا تھی اور املی کی پتیاں ہماری مہمان نواز ، فرخ نے پانی مانگا میں چلو بھر کر لائی کہ دو جاٹ موٹے موٹے لٹھ کندھوں پر رکھے سر پرآدھمکے اور پوچھا تو کون ہو اور یہاں کیوں ٹھہرے ہو‘‘۔ 

میں نے منت سے کہا ۔ ’’ہم مسافر ہیں تھک کر چور ہوگئے۔ بچوں کو بخار ہوگیا ہے، دم لے رہے ہیں‘‘۔ دوپہر ڈھلے آگے بڑھ جائیں گے‘‘۔ ایک جاٹ ، جس کی مونچھیں بڑی بڑی تھیں، بگڑ کر بولا ، ’’تم لوگ شہر سے بھاگے ہو، ہم کو پکڑوائوگے، جائو یہاں سے آگے بڑھو‘‘۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’ بچے بیمار ہیں دیکھ لو بخار چڑھا ہوا ہے، تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے، لو چل رہی ہے، گرمی تیز ہے، اب چلے تو بن آئی مر جائیں گے‘‘۔ 

اس نے لٹھ زمین پر پٹخا اور کڑک کر کہا۔’’ بچوں کو لے کر آگے بڑھ ، میری روح فنا ہوگئی کہ ، اگر اس نےمجھے لٹھ مار دیا تو پھٹکا بھی نہ کھائوگی اور کسی بچے کے پڑگیا تو سی بھی نہ کرسکے گا۔ فرخ کو گود میں لیا۔ سلیم کو اٹھایا تو کھڑا نہ ہوسکا، دوسرے جاٹ کو مجھ پر حم آگیا اور کہا۔ ’’اچھا بیٹھ جا‘‘ یہ کہہ کر وہ دونوں چلے گئے اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد وہی بے چارا تین موٹی موٹی روٹیاں اور مٹھا لے کر آیا۔ میں نے اس کو ہزاروں دعائیں دیں، بچے تو کیا کھاتے میں نے ایک روٹی کھائی اور دو رکھ لیں کہ اگر ان میں سے کسی نے ٹکڑا مانگا تو دے دوں گی۔ 

دوپہر سے پہلے ہی لو کے جھکڑوں نے میرے لالوں کو جھلسانا شروع کیا ، ہوا کےتھپیڑے منہ پر طمانچے ما رہے تھے اور بخار زدہ معصوموں کے منہ پر پھپڑیاں بن رہی تھیں۔ آسمان انگارے برسانے لگا اور زمین شعلے اوگلنے لگی۔ مامتا کی ڈوبی ہوئی آنکھیں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھیں ، ایک نگاہ سلیم پر تھی اور دوسری فرخ پر۔ اٹکل سے دو کا وقت سمجھ کر میں نہر پر وضو کرنے بیٹھی، وہی رحمدل جاٹ آ پہنچا اور اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ’’ ارے تو عورت ہے۔‘‘ 

میں تھر تھر کانپنے لگی کہ دیکھئے اب کیا ہوتا ہے۔ ہزاروں قسم کے خوف تھے، مگر خدا اس کا بھلا کرے میںتو کہتی ہوںسیکڑوں مسلمان اس ہندو پر قربان ، مجھ سے کہنے لگا۔ ’’بہن چل میرے گھر چل۔‘‘ میں اس کا منہ تکنے لگی ، اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔

’’ڈر نہیں تو بہن اور میں بھائی۔‘‘ فرخ کو میں نےگود میں لیا اور سلیم کو اس نے پیٹھ پر ، میں ڈرتی ڈرتی اس کے گھر پہنچی تو اس کی بیوی شوہر سے زیادہ ملنسار تھی، بچوں کی طبیعت دوسرے دن ہی ٹھیک ہوگئی اور ان دونوں میاں بیوی نے ایسی محبت سے رکھا کہ اب بھی خیال آتا ہے تو بیساختہ دعا نکلتی ہے۔ 

میں ڈیڑھ مہینے تک اس گھر میں رہی جاٹ ، جاٹنی نے پردیس کو دیس بنادیا۔ جب میں نے سن لیا کہ شہر میں امی جمی ہوگئ تو ادھر کا رخ کیا بھائی جاٹ خود ہم کو یہاں تک چھوڑنے آیا۔ اور میرا رونگٹا رونگٹا اس کو ہر وقت دعائیں دیتا ہے۔

مظفر سلطان نے بتادیا کہ قلعہ معلیٰ کی بسنے والیاں ،جنہوں نے گرمی کے دن خس کی ٹٹیوں اور پنکھوں میں گزارے، لوکے تھپیڑوں اور املی کے پتوں میں بھی زندہ رہ سکتی ہیں۔

تازہ ترین