ہمارا میڈیا چند لوگوں کو چھوڑ کے لاکھ کہے کہ ملالہ قوم کی بیٹی ہے، اس کو ہم وطن واپسی پر خوش آمدید کہتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر متحرک ہمارے ’’چیتے‘‘ یہ کہتے جائیں گے کہ ملالہ ملک دشمن ہی نہیں فوج دشمن اور مذہب دشمن بھی ہے۔ اسے کسی مغربی سازش کے تحت تیار کیا جارہا ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن عزیز میں آئے اور پھر یہود و ہنود کی آلہ کار بن کر اس ملک کی سیاست پر حملہ آور ہو۔ شاید وزیراعظم بنے اور پھر شاید اس ملک کے اثاثے بشمول ہمارے ایٹم بم کو کسی بکسے میں ڈال کر مغربی طاقتوں کے حوالے کردے ۔
میڈیا کی اکثریت ہمارے وزیراعظم حتیٰ کہ ہماری پاک فوج ملالہ کی حامی ہے۔ یہ فوج ہی تھی جس نے ملالہ پر حملے کے بعد اسے اپنے فوجی اسپتال میں منتقل کیا اور پھر اپنے ہیلی کاپٹر پر اسے اسلام آباد پہنچایا اور پھر اس کے بیرون ملک جانے کے لئے سہولتیں دیں۔ ملالہ کے بارے میں یہ کہنے والےکہ اس پر حملہ ہوا ہی نہیں، دراصل فوج کےکہنے کو بھی جھٹلارہے ہیں جس نے بعد میں اس پرحملہ کرنے والوں کو پکڑااور قرار واقعی سزا دی۔
اپنے اوپر بے پناہ تنقید کے جواب میں ضروری ہے ہم یہاں ملالہ سے سنیں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید کے جواب میں کیا کہتی ہے۔
’’میرے خیال میں جب ملکوں کی ترقی کی بات کی جاتی ہے تو اس کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو ملک کا سب سے بڑا اور اہم اثاثہ سمجھا جائے، لوگ ہی ملک کا سب سے اہم کیپٹل ہوتے ہیں۔ یہاں پر لوگوں کا خیال رکھاجاتاہے، ورکر کے رائٹس ہیں، بچوں کے رائٹس ہیں، بڑوں کے رائٹس ہیںاور عورتوں کے رائٹس ہیں، غرض سب کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ریاست کا نظام اس بات پہ استوار ہوتا ہے کہ آپ بلاتفریق لوگوں کاخیال رکھتے ہیں اور ان کےمسائل اور ضروریات کے بار ےمیںسوچتے ہیں۔ پھر حکومت لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے، وہ لوگوں کے لئے ایک نظام چلاتی ہے، وہ ٹیکس اکٹھا کرتی ہے،لوگوںکی فلاح و بہبود پر اسے خرچ کرتی ہے اور اس طرح ریاست کے دیگر اخراجات ہوتے ہیں۔ اسکول اور اسپتال بنائے جاتے ہیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ معاشرے کایہ سسٹم متوازن انداز میں چلتا رہے تو آپ کو لوگوںکا خیال رکھنا پڑے گا اور اس امرکو یقینی بنانا پڑے گا کہ ملک میں تمام لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں۔ یہاں پہ ہم نےکبھی یہ نہیں دیکھاکہ بجلی چلی گئی ہے، پانی نہیں آرہا۔ پاکستان کے حوالے سے جب ہم سوچتے ہیں اگر آپ کے گھر میں سات آٹھ گھنٹے بجلی نہ ہو، صاف پانی کی سہولت نہ ہو، معیاری تعلیم کے مواقع نہ ملیں تو پھر کیا فائدہ؟‘‘
ملالہ فنڈ کے حوالے سےبات کرتےہوئے وہ کہتی ہیں ’’ملالہ فنڈ کے ذریعے زیادہ توجہ پاکستان پر دی جارہی ہے اور وہاں پر ہی زیادہ پیسہ خرچ کیاجارہاہے۔
اس کے علاوہ رفیوجی چلڈرن (پناہ گزین بچوں) کی تعلیم ہے تو ان دونوں پہ ہم بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اگر میں ملالہ فنڈ کے کام کو تقسیم کروں تو ہمارے پاس تین چیزیں ہیں جو ہمارے پیش نظر ہیں۔ پہلی چیز ایڈووکیسی اورکمپیننگ ہے تاکہ ہم تعلیم کی کمپین کو دنیاکے لیڈرز تک پہنچائیں۔ اس کے علاوہ ہماری ترجیح پناہ گزین بچوں کی تعلیم ہے جس کے لئے میں نے بہت ساری کانفرنسوں اور سیمیناروں میںبات کی ہے۔ اس مقصد کے لئے میں نے ڈونرممالک کے صدور اوروزرائے اعظم کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اس کے علاو ہ ہم نے اس مد میں کافی رقم بھی خرچ کی ہے۔ لبنان اور اردن میں شام کے پناہ گزین بچوں کے لئے ہم نے اسکول بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ نائیجیریا میں بھی ہم نےان بچوں کے لئے کام کیاہے جو بوکو حرام کے چنگل سے فرار ہوئے تھے۔ پاکستان میں ہم نے سب سے زیادہ رقم سوات اور شانگلہ میں خرچ کی ہے۔
جب مجھے نوبیل پرائز ملا تو اس ایوارڈ میں ملنے والی ساری رقم ہم نے شانگلہ کے لئے مختص کردی۔ اس کے علاوہ بھی ملالہ فنڈ سے مزید رقم لے کر اس سے ضلع شانگلہ میں ایک بڑا تعلیمی پروجیکٹ شروع کیا جس میں ہم شانگلہ کی بچیوں کو تعلیم دیں گے۔ یہ پراجیکٹ ہم ایک مقامی ادارہ ’’خپل کور فائونڈیشن‘‘ کے ذریعے کرارہے ہیں۔ اس پہ باقاعدہ کام شروع ہوچکا ہے۔ بنیادیں تعمیر ہوئی ہیں، دیواریں بن گئی ہیں اور اس کی پہلی چھت مکمل ہوچکی ہے۔ انشاء اللہ اگلے سال مارچ میں اس میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیاجائے گا۔
میں دو تین باتیں واضح کرنا چاہوں گی۔ وہ یہ کہ لوگ ملالہ کو کچھ اس طرح سمجھتے ہیں جیسے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے اور اس کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جس کو گھماتے ہوئے وہ کہے کہ پاکستان میں 300اسکول بن جائیں، تو وہ فوراً بن جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اسکول بنانے پر بھی بہت زیادہ خرچہ آتا ہے۔ اس کےلئے پہلے زمین لینی پڑتی ہے، پھر اس کو بنانا پڑتا ہےاور اس کے بعد اس کو ریگولیٹ کرنا پڑتاہے۔یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور جب آپ فری تعلیم کی بات کرتےہیں تو یہ میرے دل کی آواز ہے اور میں کوشش کرتی ہوںکہ جتنے بھی ہمارے ورلڈلیڈرز ہیں، پاکستان کے لیڈرز ہیں یاہمارے لوکل لیڈرزہیں، ان سب سے یہ کہوں کہ آپ لوگوں سے ٹیکس کے جوپیسے لیتے ہیں ، آپ اس کو لوگوں پرہی خرچ کریں، آپ اس سے تعلیمی ادارے بنائیں، آپ یہ یقینی بنائیں کہ آپ لوگوں پر انویسٹ کریں اور اس میں جو سب سے بڑی انویسٹمنٹ ہے وہ تعلیم ہے، تو یہی میرا کام ہے۔ اس کے علاو ہ ملالہ فنڈ کے ذریعے ہمیں جتنی بھی ڈونیشنز ملتی ہیں اس سے ہم اسکول بناتے ہیں۔ مجھے مختلف ایوارڈز کے جو پیسے ملے ہیں، وہ میں نے تعلیم کو دیئے ہیں۔ ایک ایوارڈ کے پیسے میں نے فلسطین میں بچوں کو دیئے ہیں۔ نوبیل پیس پرائز کی رقم شانگلہ میں لگائی ہے باقی جتنی ڈونیشنز ہیں ان سے ہم نے ’’گل مکئی نیٹ ورک‘‘ لانچ کیاہے جس کے ذریعے ہم لوکل لیڈرز کو ایمپاور کرتے ہیں۔ ‘‘
گل مکئی نیٹ ورک کے بارے میںوہ کہتی ہیں کہ’’ہمارے پاس دس لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کا نام لیں لیکن کچھ لوگ سیکورٹی کے حوالے سے خود کومحفوظ نہیںسمجھتے، اس لئے ہم ان کا نام ظاہر نہیں کرتے۔ اس کے لئے ہم نے کچھ مخصوص علاقوں کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستان، افغانستان، شام، ترکی اورمشرق وسطیٰ کا علاقہ۔ میں اور میرے والد جب تعلیم کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے تو اس وقت ہم صرف دو تھے لیکن ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو اپنی کمیونٹی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اور جو لوکل ایڈووکیسی کرنا چاہتے ہیں توہم ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘‘ یہ سوال کہ آپ کے حوالےسے میڈیا میں بڑے نازیبا الزامات لگائے جارہے ہیںجیسے ملالہ یہودیوںکی ایجنٹ ہیں، مغرب کی پروردہ ہیں، وہ اسلام اور پاکستان کو بدنام کر رہی ہیں، وہ کہتی ہیں ’’میں ضرور یہ کہنا چاہوں گی کہ یہ بالکل ایک خیالی بات ہے کہ ہم امریکہ یا یہودیوں کے ایجنٹ ہیں کیونکہ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
میں نے ایک موقع پہ کہا تھا کہ ٹرمپ کو اردن، شام یا ترکی میں ایک رفیوجی کیمپ کا دورہ کرنا چاہئے، وہ دیکھیں گے کہ ایک رفیوجی کیمپ میں زندگی کیسی ہوتی ہے۔ وہ لوگ جو جنگوں کی وجہ سے بے گھر ہوجاتے ہیں وہ ایک بہت مشکل زندگی گزارتے ہیں اور اس کو ٹرمپ اور دیگر عالمی رہنما سمجھ نہیں پاتے۔ اس کے بعد اگر لوگ تھوڑا سا سوچیں، غور کریں تو انہیں خود ہی سمجھ آجائے گا کہ یورپ، امریکہ یا یہودیوں کے اصل ایجنٹ کون ہیں؟‘‘
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)