• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے جلاد، تارا مسیح کے خاندان کے ایک فرد کا تذکرہ

ڈاکٹر سلیم اختر

’’لو سنو۔‘‘

فوٹو گرافر نے بیزاری سے فون مجھے تھما دیا۔ میں لیڈ کی سرخیاں نکالنے میں الجھا ہوا تھا، لہٰذا رات دو بجے کا فون بے وقت لگا، مگر اخبار میں وقت کا کیا قصور؟ اخبار کا اپنا وقت اور اپنے شام و سحر ہوتے ہیں، اسی لئے ہمارے لیے سورج رات کو طلوع ہوتا ہے اور آخری کاپی پریس کو بھیج کر دن تمام ہو جاتا ہے۔

’’کس کا ہے؟‘‘

’’چیف کا۔‘‘

میں نے فون اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ ’’جی سر۔‘‘

’’سب ٹھیک ہے نا؟‘‘

’’جی سر۔‘‘

’’کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’لیڈ تیار کر رہا ہوں۔‘‘

’’چھوڑو اسے۔‘‘

’’جی؟‘‘

’’ہاں! لیڈ کسی اور کو دے دو اور تم اسی وقت جیل خانہ چلے جائو۔‘‘

’’کیا ہوا… کوئی قیدی قتل ہو گیا؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’فرار ہوگیا؟‘‘

’’نہیں بھئی۔‘‘

’’پھر خبر کیسے بنے گی؟‘‘

’’سنو۔‘‘ چیف پُرجوش لہجے میں بول رہا تھا۔ ’’تمہیں پھانسی کور کرنی ہے۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’کوئی نامی مجرم ہے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’اشتہاری؟‘‘

’’سر پر لاکھوں کا انعام؟‘‘

’’نہیں بھئی۔‘‘

’’تو پھر وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ میں فون پر تفصیلات لے کر خبر تیار کر دیتا ہوں۔‘‘

چیف جھلا کر بولا۔ ’’ایک تو تم بات سنے بغیر بیچ میں ٹوک دیتے ہو۔ سنو! یہ ریاض بسرا قسم کا مجرم نہیں، عام سا مجرم ہے۔ روٹین کا قاتل، شاید اٹھارہ بیس برس کی خوبصورت بہن کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو قتل کر دیا، کوئی ایسی اہم بات نہیں۔ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے، یہاں عزت کے نام پر قتل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی بیٹیاں قتل، کبھی ان سے بیاہ کرنے والے قتل، کبھی آشنا قتل ہوتا ہے تو کبھی اسے بے عزت کرنے والا۔ یہ روٹین کے قتل ہیں اور اب ان کی خبر میں کوئی سنسنی نہیں رہی لیکن…‘‘

چیف ایک لمحہ کو خاموش ہوا، پُرجوش سانسیں مرتب کرنے کو، جب بولا تو آواز پہلے سے بھی زیادہ پُرجوش تھی۔

’’سنو! ایک آئیڈیا ہے، تم اور فوٹوگرافر جائو اور اس کی پھانسی کی اسٹوری تیار کرو، فوٹوگرافر پل پل کی تصویریں بنائے گا۔‘‘

’’پھانسی دیتے ہوئے۔‘‘

’’ہاں ہاں۔‘‘

’’مگر سر! اخبارات میں پھانسی کی تصویریں نہیں چھپتیں، لوگ برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

’’لوگ قتل کر سکتے ہیں، پھانسی پر لٹکے قاتل کی تصویر برداشت نہیں کر سکتے؟‘‘

قدرے توقف کے بعد پھر بولا۔

’’سنو! میں اسے فُل پیج دوں گا، میں ابھی کہہ کر آخری صفحہ خالی کرا رہا ہوں۔ آخری صفحہ کے تمام اشتہارات بھی رکوا رہا ہوں۔ صبح اخبار ذرا لیٹ تو ہو جائے گا، مگر پھانسی کی تصاویر اور تمہارا رائٹ اپ مشہور ہوگا، تمہارے اور فوٹوگرافر کے ناموں کے ساتھ، میں پچاس ہزار اخبار زیادہ چھپوا رہا ہوں، تم سمجھ رہے ہو نا اس کی اہمیت؟‘‘

’’جی! سمجھ گیا۔‘‘

وہ پھر پُرجوش لہجے میں بول رہا تھا۔

’’تم پھانسی والے کا انٹرویو کرو گے اور خاور تصویریں بناتا رہے گا۔ مسلسل تصویریں، گویا فلم ہو، یوں سمجھ لو کہ یہ پھانسی والے کی بالتصویر مشہوری ہو گی، تصویری خبرنامہ۔‘‘

اپنی اس بات پر خوش ہو کر خود ہی زور سے قہقہہ لگایا۔

’’پھانسی پانے والے کے آنے سے لے کر رسے پر اس کی جھولتی لاش تک… گلے میں پھانسی کا پھندا منہ پر سیاہ…‘‘ مناسب لفظ کے لئے کچھ دیر تک وہ سوچتا رہا پھر بولا۔ ’’سیاہ ماسک، ہاں ہاں بلیک ماسک والی لاش، جلاد کا لیور کھینچنا، دم گھٹنے سے اس کا تڑپنا اور رسے پر جسم کا پھریریاں لینا اور پھر آخر میں گردن کا منکا ٹوٹنے سے ایک جانب کو لٹکتے چہرے کا کلوزاپ۔‘‘

پھر سانس لینے کو چیف رکا پھر بولا۔

’’سمجھ گئے، ناں۔’’

’’جی سر۔‘‘

’’تو فوراً چلے جائو، میں نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے بات کر لی ہے، تمہیں کوئی دقت نہ ہوگی۔‘‘

’’جی سر۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ میں اس اسائنمنٹ سے خوش نہ تھا، لیکن کیا کرتا، جو کہا جائے وہ تو کرنا ہوتا ہی ہے۔ دن کو پُرہجوم رہنے والی سڑکیں، رات کو اجڑی اجڑی سی تھیں… گاڑی تیزی سے رواں تھی۔

’’چیف کو بھی انوکھی ہی سوجھتی ہے۔‘‘ خاور بیزاری سے بولا۔

’’اخبار بھی تو بیچنا ہے، اتنا سخت کمپیٹیشن ہے۔‘‘

ہم دونوں خاموش ہو گئے۔

میں ذہن میں پھانسی پانے والے سے کئے جانے والے سوالات سوچ رہا تھا، لیکن ذہن کام نہیں کر رہا تھا۔ پھانسی پانے والے کو اپنے انٹرویو اور تصویروں سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، وہ تو صبح کا اخبار بھی نہ دیکھ سکے گا۔

رات کو اندھیرے میں جیل کی عمارت خوابیدہ سی نظر آ رہی تھی۔ گیٹ پر کھڑا سنتری ہماری طرف یوں بڑھا، گویا کسی قیدی کو فرار کرانے آیا ہوں۔

ہم نے اپنا تعارف کرایا۔

’’آیئے سر۔‘‘

اس نے مین گیٹ کا تالا کھولا، جو چیں کی آواز سے گویا احتجاج کرتا کھلا۔ ہم سنسان راہداریوں میں کھڑے تھے۔ سنتری نے پلٹ کر دروازہ اندر سے بند کیا اور ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ ہم خاموش تھے۔ صرف فرش پر جوتوں کی آواز تھی۔ برآمدے میں سے برآمدہ یوں محسوس ہوتا تھا، گویا برآمدے ختم نہ ہوں گے۔ ماحول پر خاموشی کا پہرہ، نہ جانے قیدی کہاں تھے اور کس حال میں تھے۔

اچانک ہم نے خود کو پھانسی گھاٹ کے سامنے پایا۔ بلب کی ملگجی روشنی، روشنی سے زیادہ پُراسرار اندھیرا محسوس ہو رہی تھی۔

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے گرم جوشی سے ہمارا خیرمقدم کیا۔ ہم نے اپنا تعارف کرایا۔

میری نظریں پھانسی گھاٹ پر ٹک جاتی ہیں۔ کنواں جس چوبی تختہ سے ڈھکا تھا، اس کے دونوں پاٹوں کے بیچ کچھ فاصلہ تھا۔ اوپر چول، جس پر رسہ کس کر پھانسی دی جاتی تھی، کنویں کے کنارے پر سیاہ رنگ والا ایک شخص لاتعلقی سے کھڑا تھا۔

’’یہ کون ہے؟‘‘

’’یہ پھانسی دے گا۔‘‘ پھر اس نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ ’’یہ اور دوسری جیلوں میں پھانسی دینے والے سب ہی تارا مسیح کے خاندان سے ہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’معلوم نہیں، مگر اسی خاندان کے لوگوں کا یہ پیشہ ہے۔ یہ تارا مسیح کا کزن ہے۔‘‘ پھر مجھ سے پوچھا۔

’’تارا مسیح کا نام تو سنا ہوگا؟‘‘

’’ہاں ہاں کیوں نہیں، مشہور آدمی ہے۔‘‘

’’اس نے بھٹو کو پھانسی دی تھی۔‘‘

’’بالکل، تاریخ میں ضیاء الحق کے ساتھ تارا مسیح کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔‘‘

’’درست۔‘‘

اس نے پھر ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ ڈاکٹر ہے، یہ تصدیق کرے گا کہ پھانسی پانے والا واقعی مر چکا ہے، اس کے بعد لاش نیچے اتاری جائے گی۔‘‘

فوٹوگرافر نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔

میں نے سرخ رنگ کا فون رکھا دیکھا تو پوچھا۔

’’یہ فون کس لیے ہے؟‘‘

’’یہ ہاٹ لائن ہے۔‘‘

’’ہاٹ لائن؟ کیا مطلب؟ کیا گھر والوں سے بات کروانے کے لیے؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ وہ ہنسا۔ ’’پھانسی پانے والے کی آخری ملاقاتیں تو ایک دن پہلے ہی ہو جاتی ہیں۔ دراصل یہ فون اس لئے ہے کہ صدر سے رحم کی اپیل کی جاتی ہے، وہ اپیل منظور ہو جائے اور مجرم کی جاں بخشی ہو جائے تو آخری لمحہ میں بھی پھانسی روکی جا سکے۔‘‘

’’کیا آخری وقت میں کسی کی جان بچی؟‘‘

’’جی ہاں بلکہ میں تو اس کا چشم دید گواہ ہوں، مجرم کے گلے میں پھندا کسا جا چکا تھا کہ اچانک فون بجا، اسی وقت ہاتھ روک لیا گیا اور اس کی جان بچ گئی۔‘‘

’’وہ تو بہت خوش ہوا ہوگا۔‘‘

’’خوش؟ وہ تو خوشی سے پاگل ہو گیا‘‘

’’پاگل، سچ مچ کا۔‘‘

’’جی بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ وہ اس وقت پاگل خانے میں ہے۔‘‘

’’زندگی کسی کام نہ آئی۔‘‘

’’بس جی! کھیل مقدراں دا۔‘‘

اچانک دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

دو سنتری پھانسی پانے والے کو سہارا دیئے لا رہے تھے۔ لا کیا رہے تھے یوں محسوس ہوا کہ اس کا بے جان جسم گھسیٹتے لا رہے تھے، اس کی بے حس ٹانگیں گھسٹتی آ رہی تھیں۔

فوٹوگرافر مسلسل تصویریں بنا رہا تھا۔

میرے اعصاب کشیدہ، ٹھنڈے پسینے، چہرہ گرم، نوٹ بُک کھولی، بال پوائنٹ ہاتھ میں لیا اور اس کی جانب بڑھا، جن آنکھوں سے اس نے مجھے دیکھا ان میں چمک نہ تھی، گدلائی، بے نور۔‘‘

’’کیا محسوس کر رہے ہو؟ کپکپاتی آواز، آواز نہ تھی سرگوشی تھی۔‘‘

اس نے گویا میرا سوال نہ سنا۔ میں نے تھوک نگل کر حلق تر کیا۔ دوبارہ سوال دہرایا۔

’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘

اپنا سوال مجھے احمقانہ لگا۔

ڈپٹی نے بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

’’سر یہ وقت سوال جواب کا نہیں، موت سامنے ہو تو سب سوال جواب بھول جاتے ہیں۔‘‘

’’دراصل میں اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا کہ کن حالات میں اس نے قتل کیا‘‘

’’میں آپ کو بتاتا ہوں، پہلے دن سے ہی وہ کہہ رہا ہے کہ وہ بے گناہ ہے، جن لوگوں نے اس کی بہن سے زیادتی کی، اُن ہی لوگوں نے اسے پھنسوایا۔‘‘

پھر ہنس کر بولا۔ ’’ہر مجرم یہی کہتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے… ہے ناں!‘‘

’’ہوں۔‘‘

ایک شخص بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘

’’مجسٹریٹ، صبح وقت پر پھانسی دلوانا اسی کی ذمے داری ہے۔‘‘

’’اوہ!‘‘

میں پھانسی پانے والے کو دوبارہ دیکھتا ہوں، کمزور، ناتواں، کئی دن کی بڑھی ہوئی داڑھی، میں پھر اس کی طرف بڑھا، مگر مجھے دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھ رہا تھا۔ جسم لرز رہا تھا۔ سنتریوں نے اسے چھوڑا تو وہ لڑکھڑا گیا۔ گرنے کو تھا کہ انہوں نے دوبارہ تھام لیا۔

’’بعض تو اتنے خوفزدہ اور کمزور ہوتے ہیں کہ انہیں اسٹریچر پر لانا پڑتا ہے۔‘‘ وہ مجھے بتا رہا تھا۔

ڈاکٹر سٹیتھو سکوپ سے اس کی جانچ کر رہا تھا۔ وہ بتا رہا تھا۔

’’ڈاکٹر چیک کر رہا ہے کہ پھانسی پانے کے قابل ہے؟‘‘

’’جب پھانسی دینی ہی ٹھہری تو صحت مند ہونے یا بیمار ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔‘‘

’’یہ تو ضابطے کی بات ہے۔‘‘

’’کمال ہے، جو شخص مر رہا ہے، اس کی صحت چیک کی جا رہی ہے۔‘‘

وہ ہنس کر بولا۔ ’’وہی قربانی کے جانور والی بات، بکرا تندرست اور چست و چالاک ہونا چاہئے۔‘‘

میں گھڑی اور پھر اس فون کو دیکھتا ہوں، جو ہنوز خاموش ہے، پھانسی پانے والے کا جسم یوں ہل رہا ہے، جیسے تیز بہائو پر ہلکورے لے رہا ہو۔‘‘

میں پھانسی دینے والے کے پاس جا کر کھڑا ہوتا ہوں، جس میں اور کوئی خصوصیت نہیں کہ وہ پھانسی دینے والا ہے۔

’’تم کب سے یہ کام کر رہے ہو؟‘‘

’’سر جی! ہمارا تو یہ خاندانی پیشہ ہے۔ ہم بچے تھے تو اس وقت بھی گھر میں پھانسی پھانسی کھیلا کرتے تھے۔‘‘

’’تمہیں ڈر نہیں لگتا؟‘‘

’’سر جی!! سپیروں کے بچے سانپوں سے نہ کھیلیں تو اور کس سے کھیلیں گے۔‘‘

’’کب سے یہ کام کر رہے ہو؟‘‘

’’دس سال سے۔‘‘

’’کتنے لوگوں کو پھانسیاں دیں؟‘‘

’’یاد نہیں۔‘‘

’’اتنی پھانسیاں؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’تمہاری تنخواہ کتنی ہے؟‘‘

’’اسکیل تو چھوٹا ہے، لیکن بونس ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘

’’بونس؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

’’جی سر!‘‘

’’یعنی ہر پھانسی پر بونس… یہی مطلب ہے تمہارا۔‘‘

’’جی ۔‘‘

’’تو پھر کتنے کما لیتے ہو؟‘‘

’’اللہ کا فضل ہے جی۔‘‘

’’ایک مہینے میں کتنی پھانسیاں دے دیتے ہو؟‘‘

’’دس بارہ تو یقیناً، اس وقت اس جیل اور ملک کی دوسری جیلوں جیسے ساہیوال وغیرہ میں ہزاروں قیدی پھانسی کے منتظر ہیں۔‘‘

اس نے پھانسی گھاٹ کو نظر بھر کر دیکھا اور پھر بولا۔

’’ایک بات بتائوں؟‘‘

’’ضرور۔‘‘

’’ضیاء کے زمانے میں موج تھی۔‘‘

’’اچھا۔‘‘

’’پھانسیاں ہی پھانسیاں، میرے بھائی تارا مسیح نے ان دنوں بڑا مال بنایا۔‘‘

’’اچھا؟‘‘

مجسٹریٹ نے گھڑی دیکھ کر اسے اشارہ کیا۔ وہ اٹھا اور بالشتوں سے پھانسی پانے والے کو ناپنے لگا۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’سر! پھانسی دینا بھی ایک فن ہے اور اس کا اپنا خاص طریقہ ہے، یوں ہی گلے میں پھندا نہیں ڈال دیا جاتا۔‘‘ پھر ہنس کر بولا۔ ’’ظاہر ہے آپ کو اس کا کیسے پتہ ہو سکتا ہے۔‘‘

’’یہ تو درست ہے۔‘‘

’’سنیے!‘‘ وہ مجھے استاد کی طرح سمجھا رہا تھا۔ ’’جسے پھانسی دینی ہو اس کے قد کی لمبائی، جسم اور وزن کے حساب سے رسے کی لمبائی رکھی جاتی ہے۔ رسے کی لمبائی درست نہ ہو تو پھانسی غلط ہو جاتی ہے۔‘‘

’’یعنی؟‘‘

’’وہ لٹکا رہے گا، مگر مرے گا نہیں، پھانسی پانے والا اپنے جسم کے وزن سے گویا خود کو پھانسی دیتا ہے۔ ہمارا کام تو صرف درست لمبائی کے رسے کو درست طریقے سے گلے میں پھندا بنانا ہے۔‘‘

’’تو کیا پھانسی اتنی آسانی سے ہو جاتی ہے۔‘‘

’’جی نہیں ہر طرح کا شخص ہوتا ہے، بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ مارے ڈر کے پیشاب نکل جاتا ہے۔‘‘

’’ہاں؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘ بعض اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ مرتے ہی نہیں۔ مجھے ایک قاتل یاد آ رہا ہے، وہ جن کا جن تھا، لٹکا رہا، مگر مرا نہیں۔‘‘

’’پھر… ایسے میں تم کیا کرتے ہو؟‘‘

’’میں نیچے کنوئیں میں گیا اور اس کی ٹانگیں پکڑ کر زور سے کھینچیں تب کہیں اس کی موٹی گردن کا منکا ٹوٹا۔‘‘

’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘

’’جی سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’اور یہ…‘‘

اس نے نیم مردہ نوجوان کو نظر بھر کر دیکھا، یہ تو مر چکا ہے، چند سیکنڈ ہی لے گا۔‘‘

مجسٹریٹ نے اشارہ کیا۔

دونوں سنتریوں نے بازو سے پکڑ کر پھانسی پانے والے کو سیڑھیوں پر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ اس کے لٹکتے بے جان پائوں فرش کی گرد پر لکیریں بنا رہے تھے۔ تختے پر بمشکل کھڑا کر کے اس کے ہاتھ اور پائوں ڈوری سے کس کر باندھ دیئے گئے۔ گلے میں رسہ ڈال کر پھندا کس دیا گیا، چہرہ سیاہ غلاف میں۔

فوٹوگرافر کا کیمرہ مصروف۔

مجسٹریٹ نے گھڑی دیکھی اور اشارہ کر دیا۔

لیور کھینچا گیا، جھٹکے سے جسم نیچے لٹک گیا۔ چند ثانیوں کے لئے جسم تڑپا پھر ساکت، مردہ بوجھ۔

میری ٹانگیں گویا جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر رہی تھیں۔ فوٹوگرافر کانپ رہا تھا۔ سب کی نظریں ساکت جسم پر۔

ڈاکٹر اپنی گھڑی دیکھ کر ساکت جسم کی جانب بڑھا۔ سٹیتھو سکوپ سے دل کی دھڑکن دیکھی، نبص دیکھی اور پھر بولا۔

’’ہی از ڈیڈ۔‘‘

دونوں سنتری لاش اتارنے کو سیڑھیاں چڑھنے لگے اور عین اسی لمحے زندگی کی نوید دینے والے فون کی گھنٹی خاموشی کے کانچ کو چکنا چور کرتی ہمارے تنے اعصاب میں گرم سلاخ کی مانند چبھ گئی۔

تازہ ترین