• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بایورِسک: جدید دَور کا شاخسانہ

یہ یکم فروری 2017کی بات ہے۔لاس اینجلس کاونٹی کے محکمہ صحت کے حکام نے ملک گیر سطح کا حیاتیاتی خطرے کا انتباہی پیغام جاری کیا تھا۔وہاں ایک شخص کے جسم میں بیماری پھیلانے والا ایسا بیکٹیریا پایا گیا تھا جو ادویہ کے خلاف سو فی صد مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اور اسے تیکنیکی طور پر ایم سی آر۔ون کا نام دیا گیا تھا ۔

لیکن اس سے قبل بھی ایسا ہی ایک مریض نومبر 2015 میں امریکی ریاست پنسلوانیا میںسامنے آیا تھا۔اس و قت عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے دنیا بھر کے سائنس دانوں سے اپنے ذخائر میں موجود جراثیم میں ایسی جینیاتی خصوصیات والے جراثیم تلاش کرنے کی درخواست کی تھی۔اس کے نتیجے میں ماہرین بایو رِسک جین والے سو جرثوموں کی نشان دہی کرچکے ہیں جن میں سے بعض منجمد حالت میں سائنس دانوں کے ذخائر میں موجود ہیں۔

یہ ہے جدید دور کا شاخسانہ۔

اب اپنے خِطّے کا رخ کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ملکی ذرایع ابلاغ نے عام آدمی کے لیے بہ ظاہر غیر اہم خبر دی کہ شعبہ پلانٹ پر و ٹیکشن (ڈی پی پی )نے پاکستان کسٹم کو 14 مارچ 2018 کو ایک خط لکھا تھا جس میں بتایاگیا تھا کہ پا کستا ن میں ایل او سی کے ذریعے بھارت سے ہونے والی تجا رت کے ذریعے لائے جانے والے پھلوں اور سبزیوں میں بایوسکیو رٹی رسک موجود ہے۔

خبر میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی کے ذریعے سرحدی تجارتی معاہدے کی آڑ میں پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ دیگر سامان کی اسمگلنگ کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی کے ذریعے سرحد پار تجارت کی آڑ میں کشمیر سے اربوں روپے کے پھل ،سبزیاں اور کئی دیگر اشیا ملک کے تمام بازاروں میں ٹیکس اور ڈیوٹی کے بغیر غیر قانونی طریقے سے پہنچائی جا ر ہی ہیں۔حال ہی میں پاکستانی بازاروں میں بھارتی کیلا وافرتعداد میں آیا۔ لیکن اس کے بارے میں چھ ایسے نکات سامنے آئے جن سے پتا چلا کہ ان کیلوں میں کچھ نقصانات پوشیدہ ہیں لہذا ان پر پاکستان میں پابندی ہو نی چاہیے ۔

اطلاعات کے مطابق بھارتی کپڑے ،بعض ا د ویہ اور کئی دیگر اشیا بھی ایل او سی کے راستے پاکستان میں آرہی ہیں۔اس لیے یہ سچ نہیں کہ صرف پھل اور سبز یاں اس راستے سے ملک میں لائی جارہی ہیں ۔اس معاملے کی تفصیلی تحقیقا ت ہونی چا ہیے کیوں کہ یہ صرف مالی معاملہ نہیں بلکہ حساّس نوعیت کا قومی معاملہ ہے۔

ایسے ہی خطرات کے پیشِ نظر گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں پاکستان نے بھارت سے روئی کی درآمدکے لیے نئی شرائط کا اعلان کیاتھااور اس کے لیے وزارت تحفظ خوراک کے ذیلی ادارے ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پرو ٹیکشن سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی شرط عاید کی گئی تھی۔نئی شرائط کے مطابق بھارت سے روئی کی درآمد صرف ڈی پی پی کی جانب سے درآمدی پرمٹ جاری ہو نے کے بعد ہی کی جاسکے گی،ملک میں روئی کی شپمنٹ سے قبل درآمدی پرمٹ کے مطابق بھارت کےمتعلقہ ا د ا رے، نیشنل پلانٹ پروٹیکشن آرگنائزیشن کی جانب سے مذکورہ روئی کی مخصوص کیمیکلز اور درجہ حرارت کے مطابق فیومی گیشن کرنے کے بعد فائیٹو سینٹری سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا جس پر درآمدی پرمٹ کے مطابق تمام شرایط تحریر ہوں گی۔

ڈی پی پی کی جانب سے شرایط کے مطابق فائیٹو سینٹری سرٹیفکیٹ اور درآمدی پرمٹ کے بغیر بھا ر ت سے پاکستان آنے والی روئی کو یا تو جلا دیا جائے گا یا پھر فوری طور پر ساری روئی واپس بھارت روانہ کر دی جائے گی ۔شرایط کے مطابق درآمد ی روئی ہر قسم کے بیکٹیریا،آلودگی،بایو سیفٹی رسک مٹیریل اور بنولے سے پا ک ہونی چا ہیے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں درآمدی روئی کے پاکستان میں مخصوص کیمیکلز اور درجہ حرارت پر دو بارہ ٹریٹمنٹ کے بعد اسے ڈی پی پی کی جانب سے منظور شدہ سیلڈ کنٹینرز میں بھیجا جائے گا اور سائٹ پر بھی ہر کنٹینر کو دوسرے کنٹینر سے علیحدہ رکھنا ہو گا،درآمدی پرمٹ کی کسی بھی سطح پر خلاف ورزی کی صورت میں اسے منسوخ کر دیا جائے گا،محکمے کا مجاز افسر بندرگاہ پر درآمدی روئی کا مکمل معائنہ کرے گا اور روئی میں کسی بھی قسم کے زندہ کیڑوں، سنڈیوں کی موجودگی یا کسی بھی قسم کی آلودگی کی صورت میں سخت ایکشن لیا جائےگا۔

یعنی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی بُو سونگھی بھی جارہی ہے۔

نظری طبیعیات کے بہت بڑے ماہر اسٹیفن ہاکنگ نے بھی ایسے ہی خطرات کی نشان دہی کی تھی۔انہوں نے جنوری 2016میں کہا تھا کہ انسان کو اپنے پیدا کردہ مسائل سے خطرات لاحق ہیں۔بنی نوع انسان کو اپنی بقاکے لیے اپنے ہاتھوں پیداکیے گئے ایٹمی جنگ ‘ عالمی حِدّت اور جینیاتی تبدیلیوں کے مراحل سے گزارے گئے وائرس سے شدید خطرات لاحق ہیں اور سائنس اور ٹیکنا لو جی کے شعبوں میں مزید ترقی فواید سے زیادہ نقصان کا سببب بن سکتی ہے۔انہوں نے خبر دار کیا تھاکہ زمین پر انسان کے ہاتھوں پیداکیے گئے خطرات سے تباہی اس بڑے پیمانے پر ہوگی کہ اس کی بقا زمین سے باہر خلامیں مختلف مقامات پر عارضی بستیاں بسا کر ہی ممکن ہوگی۔

کسی قدرتی آفت کی صورت میں زمین پر بڑے پیمانے پر تبا ہی کا آئندہ ہزار سال تک کوئی بڑا خطرہ نہیں، لیکن ایک سے دس ہزار سال کے دوران ایسے امکانات بہ ہر حال مو جود ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ اس عرصے میں انسانی آبادی زمین سے نکل کر خلامیں مختلف مقامات پر پھیل چکی ہوگی اس لیے زمین پرکوئی بڑی قدرتی آفت آنے سے نسل انسانی کے مکمل طور پر مٹ جانے کا امکان نہیں۔

دوسری جانب گزشتہ ماہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ما ہر ین پر مشتمل ایک پینل نے تمام دنیا کے حکم رانوں کو متنبہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انسانیت کے سر پر لٹکتی تین تلواریں کسی بھی وقت ہمارے سروں پر گر سکتی ہیں۔ان ماہرین کے مطابق اگر ساری دنیا مل کر وبائی امراض، موسمیاتی تبدیلی اور جوہری جنگ کے خطرات سے نمٹنے کی کوشش نہیں کرے گی تو اسے تباہ ہونا پڑے گا۔دنیا بھر کے ا نسا ن اس وقت تین خطرناک تلواروں وبائی امراض ، مو سمیا تی تبدیلی اور جوہری جنگ کی زد میں ہیں جن میں سے پہلی دو تلواروں کا حملہ اچانک اور کسی بھی وقت متوقع ہے۔ 

بایو سکیورٹی کے ماہر پیرز ملیٹ کہتے ہیں کہ زیکا اور ایبولا سے کئی گنا زیادہ خطرناک اور طاقت ور وائرس کسی بھی وقت حملہ آور ہو سکتے ہیں اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی انسانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ماہرین کے مطابق یہ تینوں عوامل ایسے ہیں جن سے بچائو کے لیے اس وقت کوئی بھی ملک یا اجتماعی طور پر دنیا تیار نہیں ہے۔

یہ اب سے آٹھ برس قبل کی بات ہے۔ 16جون 2010کو امریکاکی فلوریڈا یونیورسٹی میں منعقدہ ورک شاپ میں جراثیم پر مبنی دہشت گردی کے خدشات پر تفصیلی مذاکرہ ہواتھا۔بحث کا موضوع تھاپیتھو جین،ا نفیکٹیڈویکٹر اورایڈیزمچھروںکے ذریعے پھیلائی جا نے والی بایو دہشت گردی کامقابلہ کیا جاسکتا ہے؟ہوم لینڈ سیکورٹی کے حوالے سے منعقدہ اس مذاکرے میں ماہرین نے یہ تسلیم کیا تھاکہ وائرس سے انفیکٹیڈ مچھراگرچہ بہت و ا ئرس پھیلاچکے ہیں، لیکن جاپانی انسیفلائٹس اور چکن گنیا سے امریکااس طرح گھرا ہوا نہیں ہے، جس طرح بھارت اور پاکستان ۔ 

بایو دہشت گردی کے حساس مسئلے پر فلوریڈا یونیورسٹی میں منعقد مذکورہ سیمینار کا انعقاد یونیورسٹی کے ’پیتھوجنز انسٹی ٹیوٹ،فلوریڈا میڈیکل اینٹومولوجی لیباریٹری‘ اوریو ایس ڈی اے سینٹر فار میڈیکل ایگری کلچرل اینڈ ویٹرنری اینٹومولوجی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ مشہور کتاب ورلڈ ایٹ رسک کے مصنف،سابق گورنر اور سینٹر باب گراہم بھی اس سیمینار میں شریک تھے۔

دنیا بھر میں ظاہری دہشت گردی کے ساتھ حیاتیاتی دہشت گردی کا آسان راستہ اختیار کرنے کے لیے کئی ا ہم دہشت گرد تنظیمیں اس پر متواتر کام کر رہی ہیں اور مہارت حاصل کرتی جارہی ہیں۔ بعض ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ جراثیم کے بارے میں سطحی معلومات رکھنے والے دہشت گرد گروہ بعض ٹراپیکل کلائی میٹ والے مما لک میں اس کا آسانی سے استعمال کر رہے ہیں، لیکن ان کے بیان کی صداقت پوری طرح ثابت نہیں ہوسکی ہے۔

یو ایس کمیشن آن دی پری وینشن آف ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن پرولی فیریشن اینڈ ٹریرزم کی ورلڈ ایٹ رسک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ممالک حیاتیاتی اور جوہری دہشت گردی کے حملے کی زد میں ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی ڈیزیز یز سرویلنس کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ماہرین کو خدشہ ہے کہ بایوٹیررسٹ اٹیک عام سی دکھائی دینے والی متعدی بیماری یا وبا کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔حفاظتی امور کے بعض ماہرین کے مطابق اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں حیاتیاتی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ 

خفیہ ایجنسیوں کے افسران کے مطابق امریکا میں9/11 کے واقعے سے دو سال قبل القاعدہ ا فغا نستا ن میں ایجنٹ ایکس نامی خفیہ مشن میں مصروف تھی جو اینتھریکس سے وابستہ تھا۔قابل ذکربات یہ ہے کہ ا کتو بر 2001میں امریکا میں خطوط میں لگے اینتھریکس پائوڈر کی وجہ سے پانچ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے خلاف امریکی حکومت نے ڈارک ونٹرکے نام سے آپر یشن شروع کیاتھا۔2001میں امریکہ پر اینتھریکس کاحملہ بایو دہشت گردی کا نمایاں کیس ہے۔ امریکا کی و ز ارت دفاع ، وزارت صحت اور سماجی خدمت دونوں ہی بایو دہشت گردی کا سامنا کرنے کے طور طریقوں پر مسلسل کام کر رہی ہیں۔ 

امریکہ کی وزارت دفاع، پنٹاگون کی نگرانی میں چلنے والے بایو ڈیفنس پروگرام کے تحت جوائنٹ ویکسین ایکوزیشن پروگرام بھی چلایا جا رہا ہے،جوخاص طور پر حساس مقامات پر تعینات امریکی فوجیوں کے لیے ضروری ویکسین مہیاکرتا ہے۔ اس محکمے نے یلو فیور، جاپانیز انسیفلائٹس ،ٹی بی، کالرا،پلیگ، اینتھریکس اور اسمال پاکس کے ٹیکے تو بنالیے ہیں لیکن ماہرین دفاع کا ماننا ہے کہ بایو دہشت گردی کے کئی دیگر سرگرم ایجنٹس،مثلاً، ٹلاریمیا، رفٹ ویلی فیور، ایبولا، رسن،بوٹولزم اور اسٹے فیلوکوکول اینٹروٹاکسن جیسے خطرناک ایجنٹ کے مقابلے کے لیے ابھی کوئی طریقہ تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔

1977میں ہی اسمال پاکس کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا، اس کے لیے کارآمد ٹیکے بھی تیار کر لیے گئے تھے ، لیکن بایو دہشت گردی کے ذریعے کچھ اہم ممالک میں اس کے پھر سے پھیلنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ دفاعی اور ماہرین صحت کی معلومات کے مطابق اٹلانٹا کے سینٹر فار ڈیزیز یز کنٹرول اینڈ پری وینشن کے علاوہ سائبیریا کے نوبو سبسرک میںواقع اسٹیٹ ریسرچ سینٹر آف وائرولوجی اینڈ بایو ٹیکنالوجی میں اسمال پاکس کے جراثیم موجودہیں۔ قابل ذکربات یہ ہے کہ اس وقت سوویت یونین نے بایو ویپنز کی شکل میں ا سمال پاکس کے جراثیم بڑی تعداد میں تیارکیے تھے۔

جا ن لیوا جراثیم کی اقسام

قسم اے: اس قسم میں سب سے جان لیوا جراثیم آتے ہیں۔ یہ بہت آسانی سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیںاور شرح اموات بھی بڑھ جاتی ہے۔تیکنیکی اصطلاح میں اسے ٹولریمیا یا ریبٹ فیور کہتے ہیں۔اس کے جراثیم کو فرینسی سیلا ٹولے رینسس کہا جاتا ہے۔اس سے ہونے والی بیماری میں سانس لینے میں تکلیف، جان لیوا نمونیا اور موت تک ہو جانے والا سسٹم فیلیور ہوتا ہے۔

اینتھریکس بھی قسم اے کے زمرے میں آتا ہے، لیکن یہ کنٹیجیس بیماری نہیں ہوتی ۔ یہ پائوڈر کی شکل میں ہو تی ہے۔ 2001کے آخر میں امریکی سینیٹروں کے خلاف انیتھریکس کے جراثیم دہشت گردی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیے گئے تھے۔بھارت میں بھی اسے آزمایا گیا تھا۔ بایو دہشت گردی کے ہتھیار کی شکل میں بوٹولونم ٹاکسن کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 

یہ قسم اے کے زمرے میں رکھا جانے والا خطرناک جراثیم کلوٹریڈیم بوٹولونم ہے، جو سانس کے نظام کو متاثر کر تا ہے اور آخر میںآدمی کی موت ہو جاتی ہے۔بوبونک پلیگ بھی اسی زمرے میں بایو دہشت گردی میں شمار کیا جاتاہے۔اسے یرسینیا پیسٹس بیکٹریم سے پھیلایا جاتا ہے۔ ماربرگ ، ایبولا، لا سا فیور یا بولیویائی بخار کے نام سے جانا جانے والا بخار جا ن لیوا ہوتا ہے۔ خون کے رسنے سے مریض کی موت ہو جا تی ہے۔ اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔

قسم بی: وائرل انسیفلائٹس ، وینیجویلن ایکوائن ا نسیلفلائٹس ، ایسٹرن ایکوائن انسیفلائٹس، ویسٹرن ایکو ائن انسیفلائٹس ، وائبریو کالرا،ٹائفس ، رسن، کیو فیور ، پی -سٹاکوسس، میلی آئے ڈاسس ، گلینڈرس، ای کولائی، شگیلا، برو لاسس جیسی بیماریاں اور جراثیم قسم بی میں آتی ہیں، جو نہایت ہی خطرناک ہوتی ہیں۔ قسم سی میں آنے والے جراثیم سے وہ بیماریاں پھیلتی ہیں جو دیکھنے میں عام ہوتی ہیں، لیکن ان کا اثر بہت بڑی آبادی پر ہوتا ہے اور وہ ہول ناک تباہی مچاتی ہیں۔

سازش ممکن ہے؟

جون2009کی بات ہے۔سوائن فلو کے جراثیم کا چھڑکائو کرنے والے امریکی طیارے کو چین نے مار گرایا تھا۔ایسے ہی مشکوک اڑان بھرتے امریکی آپریٹیڈ طیارے کو ہندوستان اور نائیجیریا کی فضائیہ نے جبراً اتار تو لیا تھا، لیکن اس طیارے کو مار گرانے کی ان میں جرأت نہیں تھی۔ چین کا کہنا تھا اور بھارتی خفیہ ماہرین کا شک تھاکہ امریکی آپریٹیڈ یوکرینین طیارےسے بایولوجیکل ایجنٹس کا چھڑکائو کیا جا رہا تھا۔زمبابوے کے طیارے ایم ڈی-

11سے زہریلے وائرس کا چھڑکائو کرنے والے امریکی آپریٹیڈ طیارہ کو چین کے شنگھائی میںواقع پوڈانہ ایئر پورٹ پر مار گرایا گیا تھا۔ چین نے سرکاری طور پر بتایا تھا کہ وہ طیارہ سی آئی اے سے منسلک ایواینٹ ایوی ایشن کمپنی کا تھا۔ برطانوی فوج کے سابق افسر اینڈ ریو اس کمپنی کے مالک تھے اور طیارے کا رجسٹریشن انگلینڈ کا تھا۔ اس میں سی آئی اے کے تین ایجنٹ مارے گئے تھے اور چار زخمی ہوئے تھےجو امریکا،بیلجیم، انڈو نیشیا اور زمبابوے کے شہری تھے۔ علاج کے دوران انڈو نیشیائی شہری نے چین کی خفیہ پولس کے سامنے یہ قبول کیا تھا کہ وہ امریکی فوج کے انڈو نیشیامیں واقع اڈےپر نیو ل میڈیکل ریسرچ یونٹ نمبر 2میں کام کرتاہے۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ انڈو نیشیا کے اس امریکی فوجی اڈے کو و ہا ں سے ہٹانے کے بارے میں انڈنیشیا کے وزیر دفاع ز بونو سدرشنوں کئی مرتبہ مطالبہ کر چکے تھے۔یاد رہے کہ انڈو نیشیا میں واقع امریکی فوج کا بایو ویپن بیس، راک فیلر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ راک فیلر انسٹی ٹیوٹ وائرل بیماریوں پر ریسرچ اور تراکیب پر کام کرنے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔اس حادثے کے کچھ ہی دنوں بعد 26جون 2009کو اے این-124کو ممبئی میں فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑی تھی۔ 

بھارتی فضائیہ نے امریکی آپریٹیڈ طیارے کو ممبئی میں ا تر نے پر مجبور کر دیاتھا۔ ایسے ہی دوسرے طیارے کو نا ئیجیریاکی فضائیہ نے اترنے پر مجبور کر دیاتھا۔ نائیجیریا کی فضائیہ نے تو اس طیارے کے پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیاتھا۔ لیکن بھارت یہ ہمت نہیں دکھا پایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی فضائیہ نے بھارتی اور نائیجیریا کی فضائیہ کو ا س بارے میں پہلے ہی خبر کر دی تھی اور یہ بتا دیا تھا کہ ا مر یکی طیاروں سے سوائن فلو(ایچ -1،این -1)کے جراثیم کا چھڑکائو کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں تقریباً45ہزار کلو گرام خطرناک کچرا بھی دھویں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بکھیرا جا رہا تھا۔

اس بارے میں امریکا کا کہنا تھاکہ آپریشن اینڈ یو رنگ فریڈم کے تحت امریکی طیارہ افغانستان جا رہا تھا ، لیکن امریکی فضائیہ کو یو کرین کے طیارے کی ضرورت کیوں پڑی تھی، اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ممبئی ایئر پورٹ پر طیارے کو 24گھنٹے تک روکے رکھا گیا، لیکن بھارتی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی اور آخر کار طیارے کو جانے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔

تاریخ

ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کیمیائی ہتھیار کے طور پر کلورین گیس کا غلط استعمال جرمنی نے پہلی عالمی جنگ میں موثر طور پر کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ گیس آسانی سے کسی بھی فیکٹری میں عام نمک کی مدد سے بنائی جا سکتی ہے اور اس کے ضمنی اثرات بہ راہ راست پھیپھڑوں پر پڑتے ہیں۔ یہ گیس پھیپھڑوں کے ٹشوز کو جلا کر تباہ کردیتی ہے۔ 

جرمنی نے اس گیس کی کئی ٹن مقدار ماحول میں چھوڑ کر ایک قسم کا مصنوعی بادل بنانے میں کام یابی حاصل کی اور ہوا کے بہاوکے ساتھ اسے وہ دشمن کی طرف بھیجنے میں کام یاب ہوئے۔ اس گیس کی خوف ناک طاقت کو ذہن میں رکھ کر 1925 میں اس جیسے کسی بھی زہریلے کیمیکل اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم کے ہتھیار کے طور پر غلط استعمال کو محدود کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دنیاکے زیادہ تر مما لک نے دست خط کیے ۔ 

پھر بھی اس سلسلے میں چوری چھپے تحقیقی کام جاری رہا تاکہ ان کا استعمال اور بھی موثر اور منظّم طور پر کیا جا سکے۔ اس بابت تمام قوانین و قواعد کی دھجیاں اڑانے والے دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی میں ہٹلر کے بدنام زمانہ گیس چیمبرس سے بھلا کون ناواقف ہوگا؟

آج کل سائنس داں کیڑے مارنے والی ادویات میں پائے جانے والے بہت سے زہریلے کیمیکلز کو بھی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تجربات کر رہے ہیں ۔ ان کیمیکلز کے ضمنی اثرات کی شدت کا اندازہ ہم بھارت میں بھوپال گیس حادثے سے لگا سکتے ہیں ، جہاں ادویہ بنانے والی کاربائیڈ فیکٹری میں حادثے کی وجہ سے 2 دسمبر 1984 کے دن کچھ ہی لمحوں میں ہزاروں کی جانیں سوتے سوتے ہی چلی گئی تھیںاور لاکھوں افراد آج بھی اس کے ضمنی اثرات جھیل رہے ہیں ۔

اسی طرح چھوٹے پیمانے پر 1995 میں ’’مسنر و ‘‘نامی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں نے ٹوکیو شہر کے ریلوے اسٹیشن پر اعصابی نظام کو متاثر کرنے والی گیس چھوڑ کر ہزاروں لوگوں کو پل بھر میں زخمی کر دیا اور بارہ کو موت کی نیند سلا دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے سپہ سالاروں نے عراق میں کردوں کی بغاوت کو دبانے کے لیے شاید ایسے ہی کسی کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر کے ہزاروں بے گناہوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تھا۔

آج کا انسان بیکٹیریا کو ہتھیار کے طور استعمال کر کے ہزاروں،لاکھوں جان داروں کی جان لینے کی فکر میں الجھا ہوا ہے،اس بات سے سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ یہ صورت حال جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے ا ستعما ل سے زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔ 

جو ممالک دشمن کی دہائی کا رونا رو کر یا اپنی دادا گیری دکھا کراس کی افزایش میں مصروف ہیں اگر خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟کیوں کہ ایسے حملے کے لیے کسی جدیداسلحے کی ضر و ر ت نہیں ہوگی۔ انہیں تو بس چھوٹے موٹے جانوروں، پرندوں، ہوا، پانی، انسان وغیرہ، کسی بھی ذریعے سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ سارس کو پھیلانے میں انسانی دماغ کس طرح ذریعے کا کام کر رہا ہے، یہ اس عمل کی محض ایک مثال ہے۔

سائنس داں کھاد پر بھی تحقیق میں مصروف ہیں،حالاں کہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ اگر ہم انسانی یا حیوانی فضلے سے بنی کھاد کو کنویں، تالاب، پانی کی ٹنکی میں ملا دیں تو اس پانی کو ان جانے میں پینے والے طرح طرح کی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے کیوں کہ کھاد میں طرح طرح کے خطرناک اور جان لیوا جراثیم پلتے ہیں۔ 

نتیجے کے طور پر ان کا استعمال کسی دشمن ملک نے کب کیا، یہی معلوم کرنا مشکل ہوگا تو بھلا ہم ان سے لڑیں گے کس طرح۔ اور اگر کسی طرح ان کے بارے میں پتا کر لیں تو بھی کوئی فائدہ نہیںہو گا۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا حادثہ ہوگا کیوں کہ یہ کوئی بیماری پھیلانے والے عام بیکٹیریا تو ہیں نہیں، بلکہ جینیاتی طور پرتباہ کر نے والے ہیں، جن کے خلاف عام اینٹی بایوٹک بھی کام نہیں کر پائیں گی کیوں کہ یہ پورے ماحول کو خراب کر نے والے ہوں گے اور اس کی وجہ سے جو سانس ہم لیتے ہیں، جو کھانا ہم کھاتے ہیں اور جو پانی ہم پیتے ہیں سب آلودہ ہو چکا ہوگا۔

جب تک ہم ان کے خلاف کارگر دوا کی تلاش کریں گے تب تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی اور شاید پوری انسانیت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہوگی۔پھر ہم میں سے بچ جانے والا شاید کوئی فرد اسٹیفن ہاکنگ کو یاد کرےگا۔

تازہ ترین