حیات رضوی
تہذیب کی جڑیں جغرافیے میں اور ثقافت کی جڑیں تاریخ میں ہوتی ہیں ،کسی بھی علاقے کا محلِ وقوع وہاں کی قوم پر اثر انداز ہوتا ہے ،خواہ وہ رہن سہن کے طریقے ہوں،ملبوس ہوں ، غذا ہو یا وہاں کی عمارات ،موسم کے سرد وگرم کا اثر عمارات یا شہر کی منصوبہ بندی اور عمارات کی ساخت پر ہوگا،بارش یا دھوپ کی تپش زیادہ ہے تو چھجّوں کی پیمائش میں واضح فرق نظر آئے گا، مگر یہ انداز واطوار وہاں کی رہنے والی تمام اقوام میں یکساں ہو گا، لیکن رہن سہن کے طریقوں ،لباس ، غذا ، یا عمارات میں وہاں کی تاریخ ایک واضح فرق پیدا کردے گی۔
سندھ کی وادی بھی دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح دریا کے ارد گرد پھیلی،ہوئی ہے۔ کراچی سے جیکب آباد تک کے زیادہ تر شہر سندھو دریا کے کنارے آباد ہوئے ،مگر چوں کہ یہ علاقہ بنیادی طور پر ایک ریگستانی علاقہ تھا اس لیے یہاں کی تہذیب پر اُس نے بڑے گہرے نشانات چھوڑے۔
مٹّی اور کچّی ا ینٹوں کے گھر ،جن کی دیواریں بہت موٹی رکھی جاتی تھیں جو گرمی کی تپش کو کم کردینے والی تھیں،مٹّی ور سستی لکڑی کو ملا کر دیواریں اٹھانا (ٹھٹّھہ) ، چھتوں پر روشندان بنانا (حیدر آباد) ، مکانوں کے درمیانی حصّے میں صحن رکھنا ، انہی ریگستانی اور گرم موسم کے عوامل کی وجہ سے یہاں کی عمارتوں میں پایا جاتا ہے۔ دوسرے میدانی یا زرخیز علاقوں کی طرح یہاں لہلہاتے باغات ،خوشنما اشجار اور رنگین پھولوں کی کمی تھی اس لیے ان کے لباساور عمارات میں بیل بوٹے اور پھول پتیّوں کی بہتات نظر آتی ہے اور ہالہ ٹائلز کا عمارتوں پر استعمال رنگینی پیدا کرنے کی خواہش کا کھلا ثبوت ہے۔
یہاں کی قدیم ترین تہذیب سند ھ کے شمال مغربی علاقے ’’ مہر گڑھ‘‘ اور وسطی سندھ کے ’’ موہن جودڑو‘‘ کا توسیعی عمل ہے ، مہر گڑھ کا زیادہ حصّہ بلوچستان کے شمال مشرقی علاقے میں واقع ہے، مگر سندھ کا قدیم تعلق نہ صرف مہر گڑھ بلکہ آج کے پنجاب میں واقع ہڑپّہ سے بھی رہا ہے ۔ان تہذیبوں کا تعلق گندھارا تہذیب سے بھی بڑا گہرا رہا ہے جو دریائے کابل اور دریائے سندھ کے بیچ کا علاقہ ہے۔یہ علاقے جس زمانے میں اپنے عروج پر تھے تو قندھار اور میسو پو ٹیمیا سے ان کے بڑے تجارتی تعلقات تھے۔
یہاں سے بر آمد ہونے والی اشیاء میں ہتھیاروں کی ساخت ،زیورات کے نمونے ، بچوں کے کھلونے اور بعض قیمتی پتھروں کی موجودگی یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ تہذیبیں اور ان کے شہر آپس میں گہرا ربط رکھتے تھے ۔ موہن جو دڑو، ہڑپّہ ،ٹیکسلا وغیرہ شہروں کی منصوبہ بندی اور عمارات کی ساخت میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ موہن جودڑو کی تہذیب ٹیکسلا کی طرح بڑی گٹھی ہوئی تہذیب تھی ۔موہن جودڑو کی تہذیب اور اس کی عمارات بڑی تفصیل طلب ہیں ،عام طور پر بھنبورکو محمد بن قاسم کے زمانے کی بنائی ہوئی مسجد ہی کی معرفت پہچانا جاتا ہے لیکن یہ بڑا قدیم شہر ہے ،یہاں کے آثارِ قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سکندرِ اعظم کے زمانے سے بھی پہلے کی آبادی رہی ہے،یہی محمد بن قاسم والی مسجد اور اس کے اطراف بنائی گئی عمارتوں کی بنیادیں اُس زمانے کے طرزِ تعمیر پر روشنی ڈالتی ہیں ،جو مستطیل شکل کی ہیں۔ سسی پنّوں کی داستانِ عشق اسی علاقے سے وابستہ ہے۔
سندھ کے مختلف نام ہیں ،اسے مہران بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے شمال مغربی حصے میں مہر گڑھ کی سات ہزار قبل مسیح کی تہذیب آباد تھی ،سنسکرت میں اسے سندھو کہا گیا، عاشوری میں سندا ایرانی اسے ابِ سند، یا ابا سیند یا پھر اباسین کہنے لگے ،عربوں نے السند ، کہا۔ وہ اسے باب الاسلام بھی کہتے ہیں ،یونانی اسے اندو ، اور لاطینی رومن نیز انگریزی میں انڈس کہتے ہیں ،ایرانی اور عربوں نے ھند یا الھند بھی کہا ۔
یہ ایک بڑی پرانی تہذیب کی آماجگاہ رہا ہے ۔اس علاقے میں ایرانیوں نے حکومت کی اور ان کے اثرات اُس وقت تک جاری رہے ،جب تک سکندرِ اعظم نے یہاں قبضہ نہ کرلیا ۔محمد بن قاسم کے بعد عربوں نے تین سو سال تک یہاں کے مقامی حاکموں کے ذریعے حکومت کی ،یہاں تک کہ محمود غزنوی نےیہ علاقے اپنی حکومت میں شامل کر لیے ۔جلال الدین محمد اکبر سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں پیدا ہوا تھا۔اکبر اعظم سے قبل صرف ایک عمارت کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے جو قلعہ رَنی کوٹ ہے۔
قلعہ رَنی کوٹ: اس کا شمار دنیا کے بڑے قلعوں میں ہوتا ہے۔یہ 26کلومیٹر پر محیط ہے ،اس کی مضبوط دیواریں چھ میٹر اونچی ہیں، جو پانچ کلو میٹر سے نظر آتی ہیں ،یہ کیرتھر ، لکھی سلسلہ پر واقع جامشورو ڈسٹرکٹ میں حیدر آباد سے 90کلومیٹر اور سن سے جنوب مغرب میں 30 کلومیٹر دور ہے ،اس کے دورِ تعمیر میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں ، اسلام سے قبل ساسانیوں نے بنایا ۔میر کرم علی تالپور نے اسے دوسری مرتبہ تعمیر کیا ۔
غزنی کی حکومت یہاںکئی برس رہی،اس کے بعد سومرہ جو مقامی ہندو نو مسلم قبیلہ تھا حکمراں رہا، اس دور میں حضرت لال شہباز قلندر ؒ مشہورِ زمانہ صوفی گزرے ہیں ، حضرت لال شباز قلندر سیہون میںان کا مزار ہے۔یہ بہاء الدین زکریا ملتانی ،بابا فرید گنج شکرؒ ،مخدوم جہانیاں کے ہم عصر تھے ۔ تصوف کی کئی کتابوں کے مصنف تھے ۔ پھر سمّہ راجپوت ، ا ن کے زمانے میں لیلیٰ چنیسر ، عمر ماروی ،مومل رانو وغیرہ کی عشقیہ داستانیں زبان زدِ عام رہیں۔ نوری جام تماچی کی داستانِ عشق بھی اسی دور سے تعلق رکھتی ہے، نوری کی قبر کلری جھیل کے درمیان واقع ہے ۔
اسی عرصے میں دہلی کے سلطان قباچہ وغیرہ کا غلبہ بھی رہا ۔ ارغون ترخان بر سرِ اقتدار رہے، اس دور کی یک اہم تعمیر کا ہم ذکر کریں گے جس میں بنیادی طور پر چار مختلف قبیلوں نے حصّہ لیا وہ ہیں ، سمّہ ، ارغون ، ترخان اور مغل ۔ یہ اہم تعمیرات مکلی کے قبرستان سے یاد کی جاتی ہیں ۔
مکلی کا قبرستان:ٹھٹھہ کے قریب کراچی سے 98کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر واقع ہے جو آٹھ کلومیٹر کے دائرے میں ہے ،اس کی ابتدا سمّہ قبیلے کے دور میں ہو گئی تھی ،اس میں تقریباً سوا لاکھ قبور ہیں ،چند مشہور افراد کے نام یہاں لکھے جاتے ہیں ۔ مقبرہ جام نظام الدین ثانی ، یہ سینڈا سٹون کی چوکور عمارت ہے، مقبرہ عیسیٰ خان حسین ثانی، یہ دو منزلہ عمارت ہے جس میں بالکونیاں ہیں ، ، مقبرہ جان بیگ ترخان یہ ہشت پہلو عمارت ہے جو اینٹوں سے بنائی گئی ہے اور اس کے قبّے پر نیلے چکنے ٹائلز کی کاشی کاری خوبصورتی سے کی گئی ہے ، اسے چھتری مقبرہ بھی کہا جاتا ہے ۔
مقبرہ مرزا جانی اور مرزا غازی بیگ، مقبرہ مرزا باقی بیگ ازبک، مرزا جان بابا،مقبرہ نواب عیسیٰ خان ترخان ۔1981 اس قبرستان کو عالمی ورثہ قرار دیا گیا ۔ چوکنڈی کی طرز کی تراشیدہ پتھروں سے بنائی گئی قبور یہاں بھی پائی جاتی ہیں ، جو ایک خاص طرز تعمیر ہے، مغل طرزِ تعمیر بھی خوب استعمال کیا گیا ہے۔اسی دور میں تھر پار کر کے ریگستانی علاقے میں بہت سے مندر بھی بنائے گئے جن کو تراشیدہ پتھر وں سے بڑی خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ،ان میں سے بہت سے اب تک موجود ہیں۔
مغلیہ دورمیں کلہوڑا قبیلہ برسرِ اقتدار رہا ، اس مغلیہ دور کی ایک عظیم الشان عمارت شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ ہے، اسی دور میں سکھر کے میر معصوم کے مینار کا تذکرہ اور آخر میں کلہوڑوں کی تعمیر کردہ مسجد خدا ٓباد کا بھی ذکر کرنا ضروری ہے۔
شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ: دو ایکٹر رقبے پر پھیلی ہوئی یہ مسجد شاہجہاں کے حکم پر ٹھٹھہ کے گورنر میر ابوالبقانے تعمیر کی ، سرخ اینٹوں ،چونے اور نیلے خصوصی چمکدار ٹائلوں کا کاشی کاری سے مزین یہ مسجد مغل طرزِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے، مغرب اور مشرق دونوں جانب گنبد ہیں ،درمیانی گنبد بڑا ہے ، شمالاً جنوباً راہداریاں ہیں جن کو محراب نما دروازوں سے ملا دیا گیا ہے،فرش سنگِ مر مر کا ہے۔
ان محرابوں پر 93گنبد بنائے گئے ہیں ،مسجد کے درمیانی حصّے میں مستطیل صحن ہے ،گنبدوں کو اس طرح زاویوں کے عمودوں سے بنایا گیا ہے کہ صدر محراب کی آواز کوصحن کے آخری کونے تک سنا جا سکتا ہے۔
میر معصوم شاہ کا مینار: سید نظام الدین میر محمد معصوم شاہ مغل شہنشاہ اکبر کے گورنر تھے ،انہیں نواب کا خطاب دیا گیا تھا، میر معصوم نے یہ مینار ’’ واچ ٹاور‘‘ کی طرز پر سرخ انٹوں سے تعمیر کیا،مینار کی اونچائی 31میٹر ، اور اس کا محیط 26میٹر ہے ، مینار کی اندرونی سیڑھیاں پتھر سے بنی ہوئی ہیںجو 84ہیں۔
مسجد خدا آباد: یہ مسجد سیہون سے لاڑکانہ جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہے ،مسجد کی تعمیر ہالہ ٹائلز کی کاشی کاری کی وجہ سے بہت مشہور ہے،یہ مسجد میاں یار محمد کلہوڑو نے تعمیر کی۔آٹھ سال کے لیے احمد شاہ درانی اس علاقے میں رہا، مگر کلہوڑوں نے اُس سے حکومت حاصل کر لی اور وہ برسرِ اقتدار آگئے ،انہوں نے اپنے قبیلے کو حکمراں رکھا، حیدر آباد شہر کے انہی کلہوڑوں نے غلام شاہ کلہوڑا کے ہاتھوںبنیاد رکھی ۔
سندھ میں کلہوڑوں کے بعد تالپور قبیلے کی حکمرانی حکومتِ برطانیہ کی آمد تک رہی ،چارلس نیپئر نے تالپوروں کے ساتھ جو معاہدہ کرنا چاہا وہ خیر پور اور حیدر آباد کے کلہوڑوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھا،انگریزوں نے اُن کی مراعات میں ویسے ہی کمی کردی تھی ،اب تعلقات بالکل ہی کشیدہ ہو گئے اور اس طرح یہ قبیلہ حکومت سے محروم کردیا گیا۔تالپور وںنے حیدر آباد کو اپنی حکومت کا مرکز بنالیا تھا۔
کچا قلعہ اور پکا قلعہ حیدر آباد: جب میاں غلام شاہ کلہوڑا نے حیدر آباد کا شہر بسایا تو یہ قلعے بھی تعمیر کیے ،پہلے کچا قلعہ بنایا گیا جو کچی اینٹوں سے بنا،اس کے بعد ’’ گنجی‘‘ پہاڑی پر دوسرا ’’ پکا قلعہ ‘‘ تعمیر کیا گیا جو لمبوتری شکل میں 30کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی فصیل پہاڑی کے ساتھ ساتھ اونچی نیچی سطح پر ہی بنا دی گئی ہے ، یہ بھٹّے میں پکی ہوئی اینٹوں سے بنایا گیا ہے،اس قلعے کو حکمراں طبقہ اپنے خاندان کے لوگوں کی رہائش کے لیے استعمال کرتا تھا،اس میں نہ صرف ایک دروازہ تھا جو شاہی بازار کی طرف کھلتا تھا ۔اب اسکے اندر کی تمام زمین کچی پکی رہائشی عمارات نے گھیر لی ہے اور ناگفتہ بہہ حالت میں ہے ، یہی حال کچے قلعے کا ہے۔
کوٹ ڈیجی قلعہ ، خیر پور:میر سہراب خان تالپور نے شمالی سندھ کی حکومت قائم کی تھی ،انہوں نے دریائے سندھ سے 25میل مشرق میں نارا راجستھان کے علاقے میں کوٹ ڈیجی کے مقام پر یہ قلعہ تعمیر کیا ،نصف کلومیٹر طویل اس قلعہ کی دیواریں 30فٹ اونچی ہیں ،قلعے کا محیط تقریباً دو کلومیٹر ہے، جس میں پچاس فٹ اونچے تین نگہداری کے مینار بنائے گئے ہیں ،یہ امیروں کی رہائش گاہ کے لیے بنایا گیا تھا جہاں لڑائی کے موقعے پر خواتین کو منتقل کیا جاتا تھا،مگر اس قلعے پر کبھی حملہ نہیں کیا گیا۔شہر کی فصیل 12فٹ مٹی کی دیواروں سے بنائی گئی تھی جو پانچ کلو میٹر طویل تھی ، فصیل میں صرف ایک لوہے کا صدر دروازہ رکھا گیا تھا۔
موہن جو دڑو:لاڑکانہ شہر سے 28کلومیٹر دور اس علاقے کو ’’موئنجو داڑو‘‘بھی کہا جاتا ہے، جس کے معنی ’’ مُردوں کا ٹیلہ‘‘ ہے۔اس کی تباہی کے اسباب بہت سے بیان کیے جاتے ہیں ،جیسے دریا نے اپنا رُخ تبدیل کرلیا جس کی وجہ سے زراعت اور معیشت تباہ ہو گئی اور یہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کر لی ، کوئی ایسی بڑی لڑائی ہوئی جس میں کوئی دوسری قوم غالب آگئی وغیرہ ، مگر یہ سب قیاس آرائیاں ہیں ، کوئی حتمی رائے یا نظریہ طے شدہ سامنے نہیں آسکا،یہ ایک انتہائی ترقی یافتہ تہذیب تھی ۔بعض تجارتی اشیاء جیسے قیمتی پتھر وغیرہ بدخشاں ایران یا دور دراز عراق کے علاقوں سے بھی در آمد کیے جاتے تھے ۔
1922 میں برطانوی حکومت کے تحت اس کی کھدائی ہوئی اور اس کے آثار منظرِ عام پر آئے۔ اس کے مکانات او ر دیگر عمارات مربع یا مستطیل شکل کی تھی ،سڑکیں باقاعدہ ہیں اور پکی ا ینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں،بعض اہم سڑکیں چوڑی ہیں۔بڑی سڑکوں کے کناروں پرنکاسی آب کے لیے ڈھکی ہوئی نالیاں پائی جاتی ہیں،مکان عام طور پر درمیانی حصّہ صحن پر مشتمل تھے،مکانوں کے دروازے گلی میں کھلتے ہیں ۔ کچھ مکان دومنزلہ بھی تھے ۔گندم یا پیداوار کو ذخیرہ کرنے کے لیے روشندانوں کے ساتھ اونچے مخزن بھی تعمیر کیے جاتے تھے ۔ایک بڑے ہال میں 78کمرے تھے،یہ شاید کوئی مذہبی نوعیت کی عمارت ہوگی، جس میں مراقبہ کیا جاتا ہوگا۔
شہر کے گرد کوئی فصیل نہیں پائی گئی مگر حفاظتی ٹاور تھوڑی تھوڑی دور بنائے گئے تھے ،ایسے ہی ٹاور ہڑپّہ میں بھی پائے گئے ہیں ۔یہ شہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کئی بار اُجڑا اور بسایا گیا ہے، کیوں کہ کھدائی میں اُوپر تلے بنیادوں کا پایا جانا یہی ظاہر کرتا ہے،جو چیزیں کھدائی میں حاصل ہوئی ہیں ان میں مجسمے، تانبے اور پتھروں کے اوزار ، ترازو اور بانٹ ،سونے اور قیمتی پتھروں کے زیورات اور بچوں کے کھلونے بر آمد ہوئے ہیں ۔ انہی آثار میں ایک ساڑھے چار ہزار سال پُرانا کانسی کارقاصہ کا مجسمہ بھی دریافت ہوا ہے ۔
یہ 1926کی کھدائی میں ملا۔ایک بیٹھی ہوئی صورت میں شاہی مہنت کا پتھر کا مجسمہ بھی دریا فت ہو ا،ایسی مہریں بھی ملی ہیں جن پر بہت سے جانور کھدے ہوئے ہیں۔