سوال:آج کل ہمارے ہاں منگنی کرنے کا رواج عام ہے جس میں دو خاندانوں(بشمول بالغ لڑکا و لڑکی )کی رضا شامل ہوتی ہے ،کیا یہ ایجاب و قبول کی شرائط پر پورا اترتی ہے، کیا اسے نکاح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اخبار میں لکھا ہوا پڑھا :’’باہمی رضامندی سے نکاح ہو جاتا ہے‘‘،کیا لڑکا لڑکی اس دوران ایک دوسرے سے بلاتکلف مل سکتے ہیںاور مکمل نکاح کے لئے کن شرائط کا ہونا لازم ہے؟(عمران مغل )
جواب: منگنی وعدۂ نکاح ہے ،نکاح نہیں ہے ۔نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب وقبول سے منعقد ہوتا ہے۔ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’ ایک شخص نے دوسرے سے کہا : ’’تونے اپنی بیٹی مجھے دی ‘‘(دوسرے نے کہا :میں نے دی )اگر یہ مجلس ِنکاح ہو تو نکاح ہوگا اور اگر منگنی کی مجلس ہو تو منگنی ہوگی ،(جلد4، ص: 62 ، 63 ، بیروت)‘‘۔
امام احمد رضا قادریؒ لکھتے ہیں: ’’زید نے کہا :تونے اپنی بیٹی مجھے دی ،عمرو نے کہا :دی ،اگر مجلس منگنی کی تھی ،منگنی ہوئی اور نکاح کی تھی تو نکاح ہوگیا ،درمختار میں ہے :ترجمہ:’’ یوں ہی الفاظِ ایجاب میں سے یہ بھی ہیں: ’’میں تجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ‘‘ یا ’’ میں پیغامِ نکاح دینے کے لئے آیا ہوں ‘‘ یا ’’ کیاتونے مجھے لڑکی دی ‘‘ ،ان صورتوں میں اگر نکاح کی مجلس ہے، تو نکاح قرارپائے گا اوراگر یہ منگنی کی مجلس ہے تو منگنی قرارپائے گی ،کیونکہ نکاح میں بھاؤ جاری نہیں ہوتا (صرف منگنی یا نکاح ہوتا ہے ) ۔شرح مختصر الطحاوی للاسبیجابی پھر شرح قدوری للزاہدی پھرواقعات المفتیین میں ہے : ترجمہ:’’ا یک نے دوسرے کو کہا :تونے اپنی لڑکی مجھے دی ہے، تودوسرے نے کہا :میں نے دی ،تواگر یہ مجلس ِنکاح ہو تو نکاح ہوگا اور اگر مجلسِ منگنی ہو تو منگنی ہوگی ،(فتاویٰ رضویہ ،جلد11،ص:159،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور )‘‘۔منگنی سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے لیے محرم نہیں بنتے اور اُن کے درمیان خَلوت ، بلاتکلف اور بلاحجاب ملاقات ، بوس وکنار وغیرہ قطعاً جائز نہیں ہیں،وہ بدستور ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہیں گے ۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk