• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کام یابیوں کے اُفق پر چمکنا ہے تو۔۔۔۔۔

عابد محمود عزام

ہرنوجوان کام یاب ہونا چاہتا ہے ، اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ ہر اس راستے کا انتخاب کرتا ہے، جو اسے منزل سے قریب تر کر دے ،جس سے کامیابی کی راہ ہموار ہو ، لیکن پھر بھی انسان کو متعدد بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال میں گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ناکامی کام یابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے، وہ کامیابی کے ہنر سکھاتی ہے،جب کبھی ایسا کوئی موقع آئے کہ ناکامیوں سے خوف زدہ ہو کر اپنی راہ ترک کرنے کا سوچ رہے ہوں، تو کسی کامیاب شخص کی زندگی کا مطالعہ کرلینا چاہیے۔

تاریخ میںایسے بڑے بڑے نام ملیں گے، جو کام یاب ہونے سے پہلے کئی بار ناکام ہوئے، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، کوشش جاری رکھی اور کامیابی کی اوج ثریا پر جا پہنچے۔ ابراہم لنکن، نیلسن منڈیلا اور بل گیٹس جیسی کامیاب شخصیات کی ہمیں صرف کامیابی ہی نظر آتی ہے، لیکن اگر ہم ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان سب نے ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد ہی اپنی منزل حاصل کی۔ بل گیٹس اپنی دولت کی وجہ سے آج پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ 

یہ امیر ترین شخص 1955میں امریکا کے شہر واشنگٹن کے نواحی علاقہ نیسل کے ایک عام گھرانہ میں پیدا ہوا۔ بل گیٹس ہاروڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور اس کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا، کیونکہ وہ تعلیمی اعتبار سے پست درجہ کو چھو رہا تھا۔ بل گیٹس نے یونیورسٹی سے نکال دیے جانے کے بعد کمپیوٹر کی دنیا میں دن رات محنت کی اور کامیابیاں حاصل کیں۔ آج بل گیٹس دنیا کا امیر ترین انسان ہے۔ امریکی بزنس مین شیلڈن بھی دولت کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔جولائی 2014ء فوربس میگزین کے مطابق اس کے اثاثہ جات 36.4 ارب ڈالرز پر مشتمل تھے، جو کہ اس مالیت کے ساتھ دنیا کا دسواں امیر ترین شخص بنتا ہے۔ 

شیلڈن ایک غریب خاندان میں پیدا ہواتھا۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ کوئی کاروبار کر سکتا۔12 سال کی عمر میں شیلڈن نے اپنا بزنس کیرئیر شروع کیا اور اپنے چچا سے دو سو ڈالر قرض لیے اور اس سے اخبار فروشی کا لائسنس خریدا، وہ صبح سویرے اٹھتا اور سائیکل پر اخبار لاد کر مختلف گھروں تک پہنچاتا اور پھر اسکول جاتا۔ یہ کام چار سال باقاعدگی سے چلتا رہا،لیکن اس کام میں ترقی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اس وجہ سے ٹافیاں بنانے والی مشین کی خرید و فروخت کا بزنس شروع کر لیا۔ اس دوران شیلڈن ایک اسکول میں بزنس کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ 

ابھی تعلیم مکمل نہیں ہو پائی تھی کہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ کسی وجہ سے یہ فوج سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ یہ تعلیم کے ساتھ پرس اور بیگ وغیرہ فروخت کرنے لگا۔ اس کے بعد یہ کیمیکل اسپرے فروخت کرنے لگا۔ 1960 ء میں اس نے ایک چارٹر ٹورز بزنس شروع کیا۔ بہت سے خیر خواہوں اور دوستوں نے اسے یہ بزنس کرنے سے منع کیا، لیکن یہ ہمیشہ رسک لیتا اور روکنے کے باوجود رکا نہیں کرتا تھا۔ سیاحت کے بزنس سے پہلے ہر کام میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن شیلڈن اس کو ناکامی نہیں کہتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ ایک رکاوٹ ہے، جو اس کے راستے میں آئی اور ہٹ گئی۔ یہ بزنس اس کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اب اس کی کاروباری زندگی ایک نئے ڈگر پر چل پڑی۔ یہ جلد ہی لاکھوں مالیت کا مالک بن گیا۔ اگر شیلڈن کی 30 سالہ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بے شمار اتار چڑھائو دکھائی دیتے ہیں۔ 

قدم قدم پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ شیلڈن نے اپنی زندگی میں 50 بزنس کیے اور 51ویں بزنس میں کامیاب ہوکر بڑا بزنس مین بن گیا۔ اگر ہم کامیاب لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ایک بات سب میں مشترک نظر آئے گی کہ کوئی بھی ناکامی سے خوفزدہ نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے ہمیشہ ناکامی کو کامیابی کی پہلی سیڑھی ہی سمجھا ہے۔ زندگی میں کچھ پانے کے لیے کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اگر زندگی میں چند ناکامیوں کا ذکر نہیں تو اس کا مطلب ہے ، ہم ضرورت سے زیادہ محتاط ہیں اور ہم نے خود کو پوری طرح ایکسپلور نہیں کیا۔ 

بہت ہی محتاط زندگی توانائی، جوش اور ولولے سے محروم ہوتی ہے،جونوجوان زندگی کو ایک شاہراہ پر رواں رکھتے ہیں،و ہ اس کی رونقوں اور رعنائیوں سے محروم ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ لگے بندھے انداز میں زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں، جب کہ کچھ کرگزرنے والے لوگ اس فریکیونسی سے نکل کر اس حصار کو توڑ کر بلندیوں کو چھوتے ہیں۔ ٹھوکر کھانے کے ڈر سے پیدل چلنا تو نہیں چھوڑتے ناں، اسی طرح زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے خوف کے آگے ڈٹ جانا چاہیے ، تب ہی اپنی منزل حاصل کر سکیں گے۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر نوجوان کسی کام کے لیے ایک دو دفعہ کوشش کرتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں ہمت ہار جاتے ہیں۔ منزل مقصود حاصل کرنے کے لیے کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشکل حالات ایک امتحان کی طرح ہوتے ہیں، جو ان کا سامنا ڈٹ کر کرتا ہے، وہ کام یاب ٹھہرتا ہے، جن کے ارادوں میں پختگی نہیں ہوتی، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ 

کسی بھی کام یاب شخص کی زندگی کا مطالعہ کرلیں،اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ وہ کبھی اپنی کوتاہیوں کا ذمے دار دوسروں کو نہیں ٹھہراتے، ہر غلطی سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ اگرآپ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں،اپنی صلاحیتوں کو دنیا کا سامنے لانا چاہتے اور خوابوں کی تکمیل کے لیے سنجیدہ ہیں، تو جرات مندی اک ثبوت دیںاور گھبرائیں نہیں۔ کسی بھی ناکامی کو حتمی نہیں سمجھنا چاہیے ، بس آگے بڑھتے رہیں۔ ناکامی زندگی کا لازمی حصہ ہے ، جب کبھی اس سے سامنا ہو تو اسے حتمی سمجھنے کے بہ جائے ایک جز کے طور پر لیں اور بے خوف و خطر آگے بڑھتےجائیں۔ 

تازہ ترین