ہمارا میڈیا بھی ان غیر ذمہ دار دیہاتی عورتوں جیسا ہو چلا ہے جو بچے کا کان نہیں سنبھالتیں اور ڈنڈا لیکرکُتے کے پیچھے دوڑ پڑتی ہیں۔جانے کس نے یہ بے پر کی اڑائی کہ عمران خان نے اپنے محبوب کتے ’’شیرو‘‘ کو نئی نویلی بیوی کی فرمائش پر گھر سے نکال دیا ہے ۔بس پھر کیا تھا ،میڈیا نے دی دُہائی ،سیاسی مخالفین نے خوب بھد اڑائی اورسگ شناسوں نے صفِ ماتم بِچھائی ۔کسی کو یہ عقل نہ آئی کہ جس ’’شیرو ‘‘ کو نکالے جانے پر ہنگامہ ہو رہا ہے وہ تو ’’کتا اول(فرسٹ ڈاگ) ‘‘ بننے کی حسرت دل میںلئے 4سال پہلے فوت ہوچکا ہے۔اس کا خیال تھا کہ جس طرح امریکی صدور کی بیگمات کی طرح کتوں کو بھی وائٹ ہائوس میں فرسٹ ڈاگ کا درجہ حاصل ہوتا ہے اسی طرح جب عمران خان وزیراعظم بنیں گے تو وہ بھی ایوان ِوزیر اعظم کی راہداریوں میں اِتراتا پھرے گا۔ ریحام خان کپتان کی زندگی میں آئیں تو انہوں نے اس وفادار کتے کو گھر سے نکالنے کی ناکام کوشش ضرور کی لیکن جب علیحدگی کے بعد ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا اختلافات کا آغاز اسلئے ہوا کہ آپ نے ان کے ایک کتے کو گھر سے نکال دیا تھا تو ریحام خان نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کتے جیسے پہلے گھر میں تھے ویسے ہی رہے ،کسی کو میں نکال نہیں سکی ‘‘۔پھر یوں ہوا کہ ’’شیرو‘‘ اور ریحام خان دونوں بنی گالہ سے رخصت ہوگئے۔ امریکی وائٹ ہائوس میں ’’فرسٹ ڈاگ ‘‘ کی روایت کم وبیش ڈیڑھ سوسال پرانی ہے ۔ہر امریکی صدر اپنے شوق ،ذوق اور حالات کے عین مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کو کتنے کُتے گود لینے ہیں ۔جے ایف کینیڈی نے تو سرد جنگ کے پیش نظر پالتوکتوں کی پوری ٹیم گود لی اور سرکاری دستاویزات کے مطابق ان کے پالتو کتوں کی تعداد 10تھی مگر ــ’’فرسٹ ڈاگ ‘‘ کا درجہ ایک ویلئش ٹیریئر ’’چارلی ‘‘ کو حاصل تھا ۔تھیوڈر روزویلٹ نے بُل ٹیریئر پالا جس کا نام ’’پیٹی ‘‘ رکھا گیا ۔ہیری ٹرومین نے آئرش کتے ’’مائیک ‘‘ کو فرسٹ ڈاگ کا درجہ دیا ۔ بی جانسن بھی کتوں کا دلدادہ تھا اور اس نے اپنے دور صدارت میں 6کتے پال رکھے تھے ،اس کے سب سے فیورٹ کتے کا نام ’’بیگل ‘‘ تھا۔فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جرمن شیفرڈ رکھا ہوا تھا جس کا نام ’’میجر ‘‘ تھا ۔رچرڈ نکسن نے بھی کئی کتے پالے مگر سب سے زیادہ شہرت ’’پاشا‘‘ اور ’’شاہ ٹموتھی ‘‘ نامی کتوں کوحاصل ہوئی رونالڈ ریگن کے دور میں ’’ریکس ‘‘ اور ’’لکی ‘‘ کے چرچے ہوا کرتے تھے ۔جب بل کلنٹن قصر سفید کے مکین تھے تو ان کا ہر دلعزیز کتا ’’بڈی ‘‘ مرگیا تو اسے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا اور لگاتار کئی دنوں تک وائٹ ہائوس میں پرسہ دینے والوں کا تانتا بندھا رہا ۔جارج بش جونیئر نے ’’مِلی ‘‘ نام کی کتیا پالی جس نے ’’رینجر‘‘ کو جنم دیا باراک اوباما نے بھی ’’بو‘‘ اور ’’سنی ‘‘ پال رکھے تھے ۔ہاں البتہ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکتوں سے ’’اِٹ کتے دا ویر‘‘ والا تعلق ہے اور انہوں نے وائٹ ہائوس میں کتے پالنے کی صدیوں پرانی روایت توڑ ڈالی ہے ۔البتہ ایک امریکی جریدے کی تحقیق بتاتی ہے کہ کتوں سے ٹرمپ کی اس نفرت کے پیچھے کوئی انتہائی ذاتی نوعیت کی مخاصمت کارفرما ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ انہیں کتے پالنے کا شوق نہیں مگر وہ روزمرہ کی بات چیت کے دوران ’’کتے ‘‘ کا لفظ بے دریغ استعمال کرتے ہیں انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اوباما کے مشیر ڈیوڈ ایکسلراڈ کو کتا قرار دیا اور صدر منتخب ہونے کے بعد بھی اپنے کئی مخالفین کو کتے سے تشبیہ دے چکے ہیں ۔امریکہ کے مشہور اینکرز ڈیوڈ گریگوری اور گلین بیک جو ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کیا کرتے تھے جب انہیں نوکری سے نکالا گیا تو ٹرمپ نے کہا ،ان دونوں کو کتوں کی طرح نکال باہر کیا گیا ۔اگر وہ کتے پال لیتے تو کم از کم دنیا بھر میں اپنی بدزبانی کے سبب بدنام نہ ہوتے ۔امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی سگ شناسی عروج پر ہے۔ جب سے ’’کتا پال اسکیم ‘‘ شروع ہوئی ہے ،آوارہ کتے جنہیں انسان نے اپنے مزاج کے عین مطابق چھوت چھات اور ذات پات کے خانوں میں بانٹ رکھا تھا ،ان کی بھی چاندی ہو گئی ہے ۔گلی محلے کے آوارہ کتے جو بیچارے شودر،دَلت اور کمی کمین بن کر رہ گئے تھے اب گریبان کھولے گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اصلی اور نسلی کتے کی ایک ہی پہچان ہے کہ مالک کہے تو بھونکے ،مالک کہے تو کاٹے ۔جب جس کی طرف اشارہ کیا جائے پلک جھپکنے میں جھپٹ پڑے اور جونہی جنگ بندی کا حکم ملے فوراً سرنڈر کر دے۔لیکن اب تو کھرے کھوٹے کی پہچان ہی نہیں رہی۔بھلا ہوپرویز مشرف کا جنہوں نے کتے پالنے کا کلچر متعارف کروایااور کتوں کے بازار حصص تاریخ کی بلندترین سطح تک جا پہنچے۔عمران خان کے جس وفادار کتے ’’شیرو ‘‘ کے چرچے بعد از مرگ جاری ہیں اس کے تانے بانے بھی پرویز مشرف سے جا کر ملتے ہیں ۔سابق جرمن چانسلر نے ایک جرمن شیفرڈ پرویز مشرف کو تحفے کے طور پر پیش کیا جس کی میٹنگ ہمایوں گوہر کے ہاں موجود ایک فیمیل جرمن شیفرڈ سے کروائی گئی اور پھر ہمایوں گوہر نے یہ ’’شیرو ‘‘ عمران خان کو تحفتاً پیش کر دیا ۔پرویز مشرف نے ایک دور میں ’’وہسکی‘‘ نام کا ترکی کا کتا پال رکھا تھا ۔جلاوطنی کے دور میںاب بھی ایک چائنیز بریڈ کا کتا ان کے پاس موجود ہے جبکہ چک شہزاد میںانکا فیورٹ ڈاگ جرمن شیفرڈ موجود ہے جس کا نام چی گویرا کی مناسبت سے ’’چے ‘‘ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے شاید اور بھی بہت سے کُتے پال رکھے ہوں مگر وہ اپنے ’’زورو‘‘ کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے رہتے ہیں ۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ’’شیرو ‘‘ کی مرگ ناگہانی پر افسردہ تو ہوئے مگر انہوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کتے پالنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا ۔چند روز قبل انہوں نے حیدرآباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خود ہی انکشاف کیا کہ بنی گالا میں رہائش پذیر ان کے ایک کتے کا نام ’’موٹو ‘‘ ہے اور اس کے علاوہ بھی انہوں نے چار کتے پال رکھے ہیں ۔ویسے عمران خان کے یہ پالتو کتے تو بہت ہی بدلحاظ،بے مروت اور بھونکے ہیں ،ان کے جن قریبی ساتھیوں نے ’’شیرو ‘‘ کا دور دیکھا ہے وہ میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ پرانا زمانہ موجودہ حالات کی نسبت بہت اچھا تھا۔
امریکی افسانہ نگار اور ادیب ٹیری پراشیٹ نے کہا تھا ’’ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر کسی نہ کسی کا کتا ہوتاہے ‘‘اس لئے کبھی کسی کو اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہئے ۔میں خود کتوں سے پیار کرنیوالا انسان ہوں اور ذاتی تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کتے پالنے کا فیصلہ بھی حسب نسب دیکھ کر بہت احتیاط سے کرنا چاہئے ۔ آوارہ کتوں کو گود لیکر کتنا ہی سدھا لیا جائے ،یہ وفادار کتوں کی خصلت حاصل نہیں کر پاتے اور نہ صرف ہڈی کی تلاش میں’’ شریکوں‘‘ کے در پر چلے جاتے ہیں بلکہ وہاں جاتے ہی سب احسانات بھول جاتے ہیں اوراپنے پرانے مالک پر ہی بھونکنے لگتے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ آوارہ کتے اپنی عِلت اور جبلت کے پیش نظر کسی روز سرکشی پر اتر آئیں اور اپنے آقائوں پر ہی غراتے نظر آئیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)