• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمینی آلودگی

پوری دنیا آلودگی کے مسائل سے دوچار ہے چاہے وہ فضائی آلودگی ہو،آبی ،ما حو لیا تی ، مو سمیاتی یا زمینی ہو ۔غر ض یہ کہ ہر جگہ آلودگی نے اپنا ڈیرا جمایا ہوا ہے۔ پاکستان میں دیگر آلودگیوں کے ساتھ ساتھ زمینی آلودگی کا مسئلہ بھی پیش پیش ہے ۔ اس کی سب سے اہم وجہ انسانی سر گرمیاں ہیں جو براہ را ست یا غیر مستقیم طر یقے سے زمین کی سطح اور مٹی کو تباہ وبر باد کررہی ہیں ۔انتھراگونی سر گرمیوں (anthropogenic activity) کا جاری سلسلہ زمین پر کافی منفی اثرات مرتب کرتاہے ۔

زمینی آلودگی زمین کی پیداواری صلاحیتوں کو نا کارہ بنا دیتی ہے ۔علاوہ ازیں آبادی میں اضافے کے سبب شہروں اور علاقوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہریالی کی کمی اور زمین کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے بھی آلو دگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ 

آج کل بہت سے مضر کیمیکلز ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں ،مثال کے طور پر پلاسٹک ،ٹھوس فالتو مادے ،صنعتی زہریلےمادے اور ا خراج ،حشرات کش ادویات ،مصنوعی کیمیائی کھادیں ،قد ر تی آفات ( آتش فشاں پہاڑ اور زلزلے ) سیم وتھور ، صنعتی وبارودی حادثات ،جوہری اخراج ،زمین کی کٹائی،فصلوں میں کیڑے مار اسپرے کا بے دریغ استعمال اور دیگر آلائشیں زمین کو آلودہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ 

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کیڑے مار ادویہ کا فصلوں میں استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ،جس سے زمین کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی بھی متاثر ہورہی ہے ۔علاوہ ازیں مختلف اقسام کے قدرتی ومصنوعی ذرائع بھی زمینی آلودگی کا سبب بنتے ہیں ۔

اس میں انسانی وحیوانی ٹھوس فصلہ (اجابتیں ) بھی شامل ہیں ،تاہم بڑھتی ہوئی آبادی اور طرز زندگی میں ضروریات کے پھیلائو کے بعد سے ٹھوس فضلے کی پیداوار میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ،مزید براں اسے ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی موثر انتظام بھی نہیں ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ گھر یلو و صنعتی کوڑا کرکٹ بلدیاتی اداروں کے عملے کے ذریعے لینڈ فل سائٹ (ایسا بڑا اور گہرا گڑھا جہاں فضلہ سائنسی طر یقے سے دفن کرنے پر زمین کو کم سے کم نقصان ہو )میں منتقل کیا جائے اور صنعتی ودیگر ضرر رساں فضلے کو حفاظتی تدابیر کے ساتھ مشینوں کے ذریعے تلف کیا جائے ۔

زمینی آلودگی کوکم کرنے کے لیے درخت اور جنگلات لگانا ایک موثر قدم ہے ۔ان کی کمی سے زمین بر دگی (کٹا ئو ) کا شکار ہوجاتی ہے ۔بردگی کی شرح میں اضافے سے قابل کاشت اراضی میں کمی آتی ہے اور آبی ذخائر میں تلچھٹ کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ماحولیات سے متعلق وزارت کو چاہیے کہ شجر کاری کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرے ،تا کہ جلد ازجلد اس اہم مسئلے کا سدباب کیا جاسکے ۔

اس مقصد کے حصول کے لیے تر غیبات کے ذریعے بھی عوام کو غیر آباد اور بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے ۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان کو 10 سالوں میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں 30فی صد تک لازمی کمی لانی ہوگی ۔ 

فرور ی 2005 ء میں چین میں 160سے زائد ممالک کے ما بین طے پانے والے ’’کیوٹو پروٹوکول‘‘ کے تحت 2012ء تک صنعتی ملکوں کو گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں5.2 فی صد تک کم کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے یہ ہدف پورا نہیں ہوسکا ، بعدازاں دسمبر میں 2015 ء میں پیرس میں منعقد ہونے والی کانفرس میں پاکستان سمیت کئی مما لک نے آئندہ بر سوں میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ 

پاکستانی ماحولیاتی ماہرین کا اس موقع پر کہنا تھا کہ، وہ 2025 ء تک گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں 30 فی صد تک کمی لانے کے لیے بھر پور کوششیں اور اقدامات کریں گے ۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق تیزی سے بڑھتی ہوئی زمینی آلودگی کے نتیجے میں ہونے والی غذائی کمی کے سبب 2050 ء میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن جائیں گے ۔ان میں سے تین چوتھائی افراد کا تعلق چین اور بھارت سے ہوگا ،جب کہ کوریا ،ماڈا گا سکر ،یونان ،ویت نام ،اٹلی ،روما نیہ ،البانیہ اور میانمار بھی سر فہرست ہیں ۔ماہرین کے مطابق اگر مسلسل بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو 2050 تک فی شخص کی خوراک میں 3.2 فی صد کمی آسکتی ہے ۔

زمینی آلودگی انسانی صحت کو بری طرح متاثر کررہی ہے، اس کے باعث سانس ،جلد ،پیٹ کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اجناس کی پیداوار اوران کی غذائیت بھی کم ہورہی ہے ،اس وجہ سے بارشیں بھی نہیں ہوتیں، لہٰذا حکام کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ماضی میں زمینی تبدیلیو ںکی وجہ سے درجہ حرارت میں تبدیلی بہت تیزی سے رونما ہورہی ہے ۔ماہرین کو اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی اس برق رفتار تبدیلی سے مستقبل میں موسم کے زمین پر شدید اثرات مرتب ہوں گے ۔

ماحول، انسانوں اور قوموں کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔جہاں ماحول انسان سے متاثر ہوتا ہے۔وہاں انسان بھی اپنے ماحول سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،کیوں کہ انسان اپنے ماحول کی نمائندگی کرتا ہے، گویا دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں۔

زمینی آلودگی کے اثرات

اس آلودگی کے اثرات بے شمار چیزوںپر ہوتے ہیں ،جن میں سے چند کے بارے میں ذیل میں ملا حظہ کریں۔

مٹی کی آلودگی

یہ آلودگی زمینی آلودگی کی ایک قسم ہے ،جو کیمیائی کھاد،زمین کی کٹائی اور کیڑے مار اسپرے کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے،یہ کھیتی باڑی کے لیے زرخیز زمین کو خراب کرنے اور جنگل کا احاطہ کم کرنے کا سبب بنتی ہے ،اس کے علاوہ یہ ماحولیاتی نظام کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے ۔

ماحول پر پڑنے والے اثرات

جنگلات کی بے تحاشا کٹائی کے سبب بارش کی سائیکل (rain cycle) بھی اثر انداز ہوتی ہے ،کیوں کہ درخت اور جنگلات دونوں ماحول کے لیے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ۔اس کی کمی کے باعث گلوبل وارمنگ ،گرین ہائوس افیکٹ ،بے موسم بارش ،سیلاب اور طوفان جیسے مسائل جنم لیتے ہیں ۔لہٰذا ہمیں ماحول کا آلودگی سے بچانے کے لیےشجرکاری پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انسانی صحت

جب زمین میں زہریلے کیمیکلز ، کیڑے مار ادویات اور اسپرے کااستعمال بہت زیادہ ہونے لگے تواسکن کینسر اور سانس کی بیماریاں پید اہوتی ہیں ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ زہریلے کیمیکلز ہمارے جسم میں آلودہ کھاد میں اُگائی گئیں سبزیوں اور مختلف کھانوں کی وجہ سے داخل ہوتے ہیں ۔

ہوائی آلودگی

اس کی سب سے اہم وجہ کرۂ ارض کے اردگر موجوددگیسوں کا ایک غلاف ہے ، یہ تمام مضر گیسیں ہوائی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں ۔اس کے علاوہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور کارخانوں سے خارج ہونے والی مضر صحت گیسیں ہوا میں شامل ہوکر اسے آلودہ کررہی ہیں ۔ایندھن کے بے جا استعمال سےہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بھی بڑھنے کے ساتھ ہوا کادرجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے ، علاوہ ازیںہوائی آلودگی زمین پر روزبہ روز بڑھتے ہوئے کچرے اور اس کو جلانے کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے۔

چند تجاویز

زمینی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ذیل میں چندتجاویز موجود ہیں ،جن پر عمل کرکے اسے بآسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔

٭سب سے پہلے لوگوں کو مضر چیزوں کا استعمال کم کرنے ، پلاسٹک اور دیگر چیزوں کو ری سائیکل کرنے اور دوبارہ استعمال کرنے کے حوالے سے شعور وآگہی دی جائے ۔

٭کیڑے مار اسپرے اور ادویات کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔

٭پلاسٹک کی تھیلیوں میں موجود اشیاء خریدنے سے گزیز کریں، کیوں کہ یہ استعمال کرنے کے بعد کوڑے میں چلی جاتی ہیں اور زمین پر پھینکنے کی وجہ سے یہ زمینی آلودگی کا سبب بنتی ہیں ۔

٭ کچرے کو زمین پر نہ پھینکیں بلکہ صحیح طریقے سے اس کو ٹھکانے لگایا جائے ۔

٭ زیادہ سے زیادہ بائیوڈی گریڈ ایبل اشیاء (Biodegradable product ) خریدیں ،تا کہ آلودگی بڑھنے کی شرح میں کمی واقع ہو۔

٭کسانوں کو چاہیے کہ فصلوں میں نامیاتی کھاد کا استعمال زیادہ سے زیادہ اور کیمیائی کیمکلز اور اسپرے کا استعمال کم سے کم کریں ۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہروں لاہور ، کوئٹہ اور پشاور کا شمار دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے ،جہاں ہر روز کارخانوں سے ہزاروں ٹن زہریلا پانی اور مواد نکل کر ندی نالوں کی صورت میں سمندر میں شامل ہو جاتاہے ،جو آبی حیات کے لیے سنگین خطرہ بنتا ہے۔

یہی حال باقی شہروں کا بھی ہے ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے صنعتی فضلے کو محفوظ اور ماحول دوست انداز میں تلف کرنے یا ٹھکانے لگانے کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ۔یہ ہمارا المیہ ہے کہ آلودگی کا مسئلہ اس قدر سنگین صورت حال اختیار کرتاجارہا ہے لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی اداروں کی جانب سے اس پر کوئی خاص ایکشن نہیں لیا جا رہا ۔

تازہ ترین