صبا نارعنایت
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر ہونے والے’’ خواتین مارچ‘‘ میں شہر کی نامی گرامی اور تعلیم یافتہ خواتین نے بھرپور شرکت کی ،ایسی کاوشیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور یقیناً خوش آئند ہیں تاہم اس حوالے سے پیش کیے جانے والے مطالبات نے بہت جلد ہی ہر عام و خاص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔
ان ہی مطالبات اور نعروں میں سے ایک مطالبہ ’’کھانا خود گرم کرلو‘‘تھا،جو مطالبہ کم حکم زیادہ محسوس ہوا،خاصا مقبول ہوا ہے،اس کے حق اور مخالفت میں رائے زنی کا سلسلہ جاری ہے۔ہمارے خیال میں ’کھانا خود گرم کرلو‘‘،یہ مرد ذات کے لیے کوئی معیوب بات نہیں،لیکن اس بات کو اس انداز میں پیش کرناجس سے مرد کی انا کو ٹھیس پہنچے،غلط ہے۔
موجودہ دور میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں،لیکن اس بات کو بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ مردوں کی نسبت آج بھی ہماری خواتین (میری رائے میں)80 فی صد پیچھے ہیں۔کیوں کہ اب بھی ایسے شعبہ جات ہیں جن میں خواتین چاہ کر بھی مردوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکتیں۔
مثال کے طور پر ویٹ لفٹنگ،گٹر کی صفائی،ٹرک چلانا،تنور لگانا ،بجلی کے کھمبوں پر چڑھنا،سخت گرمی میں بیلچہ اور کدال لے کر کھدائی کرناوغیرہ۔ہمارے معاشرے میں آج بھی50فی صد ہی سہی ایسے مرد موجود ہیں جوباہر کی بھاگ دوڑ کے ساتھ،گھرگھرستی میں بھی خواتین کا ساتھ دیتے ہیں،چاہےوہ کھانا گرم کرنا یا کپڑے دھونے تک کا عمل کیوں نہ ہو۔
بظاہر ہمارا معاشرہ خواتین کی آزادی کا قائل ہے،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے،خواتین کا یہ معمولی مارچ جس طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے اور اس پر آنے والا ردعمل دیکھ کر،اندازہ ہوتا ہے کہ ان جملوں نے کہیں نہ کہیں مرد کی انا کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔یوں تو خانہ پری کے لیے خواتین کا بل پاس کروا یا گیا ہے،لیکن اب بھی حقوق نسواں کے نام پر بڑی بڑی ’’بیٹھکیں ‘‘سجائی جاتی ہیں۔لیکن عملاًکوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔آج بھی ایسی کتنی ہی خواتین ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم دکھائی دیتی ہیں،پھر چاہے وہ گاؤں میں بسنے والی معمولی عورت ہو یاشہر میں آباد ماڈرن عورت،مرد کو ہمارے معاشرے نے ہمیشہ ہی برتری دی ہے۔
کہنے کو مردو عورت برابری کی سطح پر کھڑے ہیں،لیکن عملی میدان پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ آج بھی خواتین مردوں سے کوسوں دور ہیں ۔’’ہینڈی کرافٹ‘‘ کے نام پردیہی خواتین سے سستے داموں کام کرایا جاتا ہے،جسے شہر لاکر دگنے داموں فروخت کیا جاتا ہے اور یہ منافع مرد ہی کو ہوتا ہے۔ ہم بڑے بڑے پلیٹ فارم پر خواتین کے حقوق کی باتیں تو کرتے ہیں،لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہناتے،لیکن کیاصرف مرد ہی ہیں جو خواتین کو ان کے حقوق نہیں دیتے؟ایسا سوچنا بجا نہ ہوگا۔
عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت خود ہے،اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔زندگی کے کسی بھی معاملے پر نظردوڑائیں،ایک عورت ہی دوسری عورت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا ذور لگا دیتی ہے،چاہے وہ گھریلو خواتین ہوں یا پروفیشنل خواتین،وہ کسی نہ کسی صورت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچے بنا چین سے نہیں بیٹھیں گی۔ظاہری رنگت کا معاملہ ہو یا مہنگے ملبوسات زیب تن کرنے کا،رشتہ لگانے کی بات ہو یا توڑنے کی،تعلیم میں آگے بڑھنا ہو یا عملی میدان میں،عورت ہمیشہ سے ہی دوسری عورت کو نیچا دکھانے کی دھن میں لگی رہتی ہے۔ایسے میں مردوں سے شکایت کرنا کہ وہ خواتین کو حقوق نہیں دیتے،سراسر غلط ہے۔
یوں تو ہماری عورت نے خود کو دقیانوسیت سے نکال کر ماڈرن انداز میں ڈھال لیا ہے،لیکن کہیں نہ کہیں آج بھی بعض خواتین کی سوچ دقیانوسی محسوس ہوتی ہے،جیسے بچے کا سر گول کرنے کی دھن،گھر سے باہر جانے سے پہلے یہ سوچنا میں کیسی لگ رہی ہوں یا وہ عورت مجھ سے زیادہ خوب صورت ہے وغیرہ۔خواتین کی سوچ جب تک نہیں بدلے گی وہ اپنے حقوق سے محروم رہیں گی،شاید اس کے پیچھے ایک پہلو خوداعتمادی کی کمی کا بھی ہے۔
کیوں وہ خواتین جو بڑے سے بڑا کام خود کرگزرتی ہیں لیکن کسی چھوٹے سے کا م یا بات کے لیے مشورے لیتی ہیں ،عموماًان میں فیصلہ سازی کی صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔کوئی بھی کام اس وقت تک ناممکن ہوتا ہے جب تک آپ اسے کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت نہ صرف کردیں۔بظاہر آج کی عورت بہادر نظر آتی ہے،لیکن وہ اب بھی مرد سے کم زور ہے۔
آج کی خواتین نے مردوں کو کھانا خود گرم کرنے کی ہدایت تو دے دی ہے ،لیکن وہ یہ بھول گئیں ہیں کہ قدم سے قدم ملا کر چلو تو ہی زندگی کی گاری چلتی ہے۔بے شک خواتین ،کھانا بناتی ہیں،بچوں کو پالتی ہیں،ان کی تربیت کرتی ہیں یہاں تک کہ گھر سے باہر نکل کر کام تک کرتی ہیں،لیکن وہ ٹانگہ نہیں چلاسکتیں،رات گئے چوکیداری نہیں کرسکتیں،گورکن نہیں بن سکتیں۔
ایسے کتنے ہی کام ہیں جوخواتین کرنے سے کتراتی ہیں۔اس لیے کہتے ہیں کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘۔یہ لڑائی مردوعورت کی نہیں اور نہ ہی عورت وعورت کی ہے،انسانیت کی ہے اور اسی انسانیت کے ناطے خواتین کو ان کے حقوق دینا سب کی ذمے داری ہے۔