• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نشتر (افسانچہ)

فرح انیس

حسین صورت ہونا بھی عذاب سے کم نہیں ہے. سوہانی غصے سے بڑبڑاتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی اور بیڈ پر بیگ پٹخ کر لیٹ گئی . اماں چائے دے دیں وہ و کمرے ہی سے آواز لگاتے ہوئے بولی . نواب زادی باہر آجاؤ چائے تیار ہے۔ کمرے میں جھانک کراماں غصے سے بولیں. آئی اماں،پھروہ باہر ماں کے پاس آکر بیٹھ گئی . کیسا رہا اسکول میں آج پہلا دن۔ 

ماں کے سوال پر چائےکے سپ لیتی سوہانی مسکرا دی ،بہت ہی اچھا رہا اسٹاف بھی بہت اچھا ہے اور ہمارے اسکول کے پرنسپل بھی بہت اچھےہیں سوہانی کا اسکول میں آج ٹیچنگ کا پہلا دن تھا وہ ماں کو آج کے دن کی روداد سنانے لگی . رات وہ بستر پر لیٹی تو صبح والا واقعہ پوری آب و تاب سے اسکی آنکھوں کے سامنے آگیا گاڑی میں بیٹھا خوبرو سا لڑکا کیسے اس کے پیچھے پیچھے آرہا تھا . سچ ہی ہے کہ حسین شکل و صورت دیکھ کر سب ہی پیچھے لگ جاتے ہیں۔ 

وہ سوچوں کو جھٹک کر سونے کی کرنے لگی کیوں کے صبح اسے جلدی اسکول کے لیے اٹھنا تھا . اسٹاف میں اس کی سب ہی سے اچھی بات چیت ہوگئی تھی۔ اس کی ساتھی رمشا کی منگنی ہوگئی تھی وہ مٹھائی لے کر آئی تھی، بہت مبارک ہو رمشا وہ مٹھائی کھاتے ہوئےبولی تم بھی کھلا دو ہمیں مٹھائی . رمشا اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔ مس سوہانی کو کوئی اپنے قابل نہیں لگتا ۔

سامنے بیٹھیں مسز جنید ہنس کے بولیں. ان کی بات پر پورا اسٹاف ہی ہنس دیا اس کے لبوں پر بھی مسکان آگئی. وہ کسی کام سے باہر گئی، واپس اسٹاف روم کی جانب آتی مسز جنید کی آواز پر اس کے قدم رک سے گئے اور پھر اگلے ہی دن وہ اسکول سے ریزائن دے چکی تھی . ماں نے پوچھا بھی، پر وہ ٹال گئی ماں سمجھ گئی تھیں کہ اس نے کیوں چھوڑا اسکول . اس نے خود کو بہت اکیلا کر لیا تھا، ہر وقت کمرے میں خود کو مقید کیے رکھتی۔ 

ماں سے بھی زیادہ بات نہیں کرتی ماں کا دل گھبرا جاتا تھا ،کیو ں کہ پورے گھر میں ان دو کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔شوہر کا کب کا انتقال ہوچکا تھا . جب سوہانی کا دل ہوتا تو وہ گھر سے باہر نکل جاتی تھوڑی دیر پارک میں جا بیٹھتی، زیادہ وہ کسی سے میل ملاپ نہیں رکھتی تھی، اپنی ہی دنیا میں مگن رہتی ۔کچھ دنوں بعد اس کی دوست مہرین اس کے گھر آئی ۔وہ اس کی واحد بچپن کی دوست تھی جو اس کے بہت قریب تھی، باہر وہ ماں سے ملتی ہوئی اندر آنے لگی تو وہ بولیں، تم ہی سمجھاؤ بیٹا وہ تو بہت عجیب ہوگئی ہے۔، ان کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلا کراس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔تو شیشے کے سامنے کھڑی سوہانی بال سنوار رہی تھی ۔آؤ مہرین وہ اسے دیکھ کر خوشدلی سے بولی. کیسی ہو سوہانی ۔تمہارے سامنے ہوں دیکھ لو کیسی ہوں۔ 

دمکتی رنگت ،گلابی ہونٹ، خوبصورت مسکراہٹ، بڑی بڑی آنکھیں اس پر گھنی پلکوں کی جھالر متناسب جسم خوبصورت بال وہ اترا کر اس کےسامنے بیٹھتے ہوئے اس کی بات کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے بولی۔ مہرین ہنس دی. میری دوست تو اس سے بھی زیادہ حسین ہے مہرین کی بات پر وہ تفاخر سے مسکرا دی . آج پارک سے نکلتے ہوئے ایک لڑکے کے فقرے پر وہ مسکرا دی ۔پاس کھڑی عورت اس کے مسکرانے پر تعجب سے اسے دیکھنے لگی اور پھر دوسرے ہی دن صبح کے وقت ایک خبر ملی کہ ،سوہانی نے زہر کھا کر خودکشی کرلی ہے .مہرین لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے کمرے میں داخل ہوئی، جہاںماں بیٹی کے پاس سکتے کی سی کیفیت میں بیٹھی تھی۔ 

مہرین گھٹنوں کے بل وہیں گر سی گئی اور آس پاس بیٹھی عورتوں کو نفرت سے دیکھنے لگی. جو ہمدردی سے اس مرنے والی لڑکی کی ماں کو دلاسے دے رہی تھیں. اس کا دل کرا، وہ چیخ چیخ کرکہے کہ اس کی موت کے ذمہ دار تم سب ہو وہ اب مسز جنید کو دیکھنے لگی اسے ایک ایک کر کے وہ ساری باتیں یاد آنے لگیں،جس نے اس کی جان سے عزیز دوست کو زندگی بھر اذیت دی. مہرین صدمے کی کیفیت میں بیٹھی کفن میں لپٹی اس ساکت وجود کو دیکھے جا رہی تھی جو اس زندگی سے مقابلہ کرتے کرتے تھک سا گیا تھا . بے انتہا سانولی رنگت اس پر چھوٹی چھوٹی اندر کو دھنسی آنکھیں ،موٹے موٹے ہونٹ، چوڑی ناک یہ تھی سوہانی. جو پہلے رشتے والوں کی باتیں سن سن کر اذیت کا شکار ہوئی .نام تو دیکھو سوہانی اور شکل دیکھو اس کی ۔

کتنے ہی لوگ بے رحمی سے کہہ کر چلے جاتے تھے ۔کہتے ہوئےکسی نے کبھی یہ نہ سوچا کہ ایک دل بھی ہے اس کے سینے میں، جو یہ تکلیف دہ باتیں سن سن کر برداشت نہیں کر پاتا .پھر آیا گیا ایسی باتیں کرتا تو وہ دوہری اذیت کا شکار ہوجاتی تھی ۔اسکول میں مسز جنید کی بات کہ اس سے کون شادی کرے گا ،کوئی نوے سال کا بھی بوڑھا ہوتو بھی وہ نہ کرے اس کے واقعی کوئی قابل نہیں، یہ کہہ کر وہ ہنس دی تھی. اور باہر کھڑی سوہانی کہ دل پر کسی نے اذیتوں کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے، آتے جاتے لڑکوں کے فقرے جو اس کے دل پر ستم ڈھاتے تھے . مہرین کو سوہانی کی موت سے دو دن پہلے کی ملاقات یاد آنے لگی، کاش میں اتنی حسین ہوتی جیسا میں بول رہی ہوں. سوہانی مغموم لہجے میں بولی. پتا ہے مہرین میں سوچتی ہوں کیا دنیا میں جینے کا حق خوبصورت لوگوںکو ہے۔ 

کیا مجھ جیسے بدصورت لوگوں کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ کیا معاشرہ ہم جیسوں کو قبول نہیں کرتا .پہلے آنے والوں کی باتیں پھر باہر کے لوگوں کی باتیں اب تو ماں کے چہرے پر بھی مجھے اپنے لیےبیزاریت نظر آنے لگی ہے. میں نے اپنی ایک دنیا بنالی ہے . ایک سوچ کہ، میں بہت حسین ہوں۔ میں خود کو حسین لڑکیوں جیسا تصور کرتی ہوں، وہ سسکتے ہوئےبولی ۔بہت افسوس ہوا آپ کی بیٹی کی موت کا ایک عورت پاس بیٹھی سوہانی کی ماںسے بولی۔ 

بہت خوبصورت تھی میری بیٹی ،بہت حسین، کیوں کے اس کے پاس آپ لوگوں جیسی چبھتی ہوئی دلوں کو چیر دینے والی زبان نہیں تھی. ایسی شکل کا کیا فائدہ ،جس کی زبان ہی اچھی نہ ہو، مگر میری بیٹی بہت خوبصورت تھی ،کیوںکہ اس کے پاس ایک پیارا دل تھا۔ الله کے ہاں تو اخلاق کا پلڑابھاری ہوگا، بس تم لوگوں نے مار ڈالا میری بچی کو، ماں، بیٹی کے سینے پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کہ رو دی اور پاس بیٹھی مہرین برستی آنکھوں سے سوچ رہی تھی کہ انسانوں کا شر بھی کتنا برا ہوتا ہے نہ اپنی زبان سے لوگ ایک جیتے جاگتے انسان کی سانس تک چھین لیتے ہیں. زبان کے نشتر بھی کیا ہوتے ہیں، جو دلوں تک کو ساکت کر دیتے ہیں. وہ یک ٹک کفن میں سامنے لیٹی سوہانی کو دیکھ رہی تھی جو بہت پر سکون لگ رہی تھی اس دنیا سے نجات پا کر …!

تازہ ترین
تازہ ترین