• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیچر :’’بس کب آئے گی؟‘‘

کراچی کے باسی طویل عرصے سے شہر میں پبلک ٹرا نسپورٹ کا نظام بہتر ہونے کی توقع پرجیے جارہےہیں ۔ جب بھی اس بارے میں کوئی خبر آتی ہے توان کی اُمّید بند ھتی ہے کہ شاید اب مشکلات کم یا ختم ہونے کے دن آنے والے ہیں،مگر اے بسا آرزو کہ خاک شُد ۔ پا کستان کا یہ سب سے بڑا شہر دہائیوں سےمختلف مسائل کے ضمن میںدھائیاں دے رہا ہے،مگر کوئی انہیں سننے کوتیار نہیں ۔ اس خانماں برباد شہر کو دہائیوں سے طرح طرح کے و عد و ں اور نعروں کےلولی پوپ دے کر بہلایا اور ٹہلایا جارہا ہے۔چناں چہ اب اس شہر کے بہت سے مسائل بہت گنجلک اور حساس ہوچکے ہیں جن میں سے ایک پبلک ٹرا نسپورٹ کا مسئلہ بھی ہے۔

بد تر ہوتی صورت حال

کراچی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ آزادی کے وقت اس شہر میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بہتر تھیں۔ مگر پھرعہد بہ عہد مختلف وجوہ کی بناء پر پبلک ٹرانسپورٹ سکڑنے لگی اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آبادی کی اکثریت چنگ چی رکشوں کو اپنے سفر کے دھکوں کا مداواسمجھنے لگی۔

آزادی سے قبل برصغیر میںکراچی اور کلکتہ میں سب سے پہلے ٹر ا م وے سروس شروع ہوئی تھی ۔1950کی د ہائی میں شہر کے ایک بڑے حصے میں ڈیزل سے چلنے والی ٹرام وےسروس دست یاب تھی اور شہر کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھی۔پھر جوں جوں شہر پھیلتا گیا اور اس کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا،بہت کچھ تیزی سے بدلنے لگا اور دیگر مسائل کےساتھ ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی بڑھنے لگے۔

بسوں کی تعداد کم ہونے کی بناء پر مسافروں کو مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر حکومتوں نے شہر کی مستقبل کی ضروریات کا اندازہ نہیں لگایا۔ یوں وہ جامع منصوبہ بندی نہیں ہوسکی جو دنیا کے بڑے شہروں لند ن، نیو یارک، ٹوکیو وغیرہ میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے کی گئی تھی ۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ شروع ہوا ۔ یہ شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کے حل کے لیے ریلوے استعمال کرنے کی پہلی کوشش تھی۔

سرکلر ریلوے وزیر مینشن سے سٹی اسٹیشن کے ذر یعےایک طرف پپری اسٹیشن تک جاتی تھی۔دوسری طر ف یہ سائٹ ، ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال سے گزرتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن پر مرکزی ریلوے لائن سے منسلک ہوجاتی اور ملیر اور لانڈھی تک پہنچتی تھی۔پھر شہر میں بڑی بسیں چلتی تھی ۔ 

اندرونِ شہر ٹرام وے سروس موجود تھی ، رکشے، ٹیکسیاں میٹر کے مطابق کرایہ وصول کرتی تھیں۔ یعنی اس وقت ٹرانسپورٹ کاایسا نظام موجودتھاجسے مستقبل کی ضرورتوں کے مطابق زیادہ بہتر بنایا جاسکتا تھا مگر ایک منصوبے کے تحت ٹرام سروس کو ختم کیا گیا۔ ٹر ا نسپو رٹ مافیانے پولیس کی مدد سے انتظامیہ کو باور کرایا کہ ٹرام کی پٹری سے سڑک پر چلنے والا ٹریفک متاثرہوتا ہے۔

یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور یورپ کےمختلف علاقوں اور مشرقِ بعید کے ممالک میں ٹرام کو بجلی کےجدید نظام پر منتقل کیا جارہا تھا۔ جہاںشہروں میں ٹرام کے لیے سڑکوں پر جگہ نہیں تھی وہاں اسے بالائی گزرگاہوں پر منتقل کیا جارہا تھا۔

ایک زمانے میں لانڈھی ، ملیر ، ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی )،گلشن اقبال،ناظم آباد،فیڈرل بی ایریا وغیرہ سے آنے والے ہزاروںافراد کے لیے صبح کے اوقات میں سرکلر ریلوے سفر کاسب سے موثر ذریعہ تھی ۔ عام آدمی سرکلر ریلوے کے ذریعے ملیر سے 30سے 45منٹ میں سٹی اسٹیشن پہنچ جاتا تھا۔ مگر ریلوے کی بدعنوان مافیا اور کراچی کی ٹرانسپورٹ مافیاکےگٹھ جوڑ سے ریل گاڑیاں تاخیر سے چلنے لگیں۔ریلوے کی انتظامیہ نے اپنی کار کر د گی بہتر بنانے کے بجائے مسافروں کی کمی کا جواز بنا کر سرکلر ریلوے کو بند کردیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دورمیں کراچی ٹرانسپورٹ کارپو ریشن کےپاس بسوں کا ایک بڑا فلیٹ موجود تھا۔یہ فلیٹ جامعہ کراچی کے ہزاروں طلبا کی سفری ضروریات بھی پورا کرتا تھا۔ مگر کرپشن اور گڈ گورننس کے بحران نے کے ٹی سی کو تباہ کردیا ۔ جنرل ضیاءکے دور میںبیوروکریسی نے کے ٹی سی کو خوب لوٹا۔بھٹو دور میں سوئیڈن سے بڑی، ا یئر کنڈیشنڈ بسوں کاایک فلیٹ تحفے میں ملا تھا۔ڈبل ڈیکر بسیں بھی آئی تھیں۔مگر یہ بسیں کے ٹی سی کے برے حا لا ت کا شکار ہوگئیں اورپبلک ٹرا نسپورٹ کو پرائیوٹ سیکٹر کی مدد سے چلانے کی کوشش کی گئی ۔

پھر یہاں منی بسیںچلیں جن میں نسبتا زیادہ کرایہ لے کر مسافروں کو نشستوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ شوکت عزیز وزیر اعظم بنے تو بینکوں سے لیزنگ پر حاصل کی گئیں بڑ ی اورایئرکنڈیشنڈ بسیں سڑکوں پر نظر آنے لگیں۔ان بسو ں میں خود کار دروازے تھے اور ان کے رکنے کے لیے اسٹاپ مقرر تھے۔ مگر کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال، ڈیزل اور فاضل پرزہ جات کی قیمتوں میں اضافے کی بناء پریہ بسیں سڑکوں سے غائب ہوگئیں۔ 

کراچی کے سابق ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے شہر میںبڑی سڑکوں،اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاسز کا جا ل تو بچھایا، مگر پبلک ٹرانسپورٹ ان کی ترجیح نہیں تھی ۔ مصطفی کمال کے آخری دور میں شہر کے محدود علاقوں میں گرین بسیں چلی، مگر ان کے عہدے کی میعاد ختم ہونے پر یہ بسیں سٹی گورنمنٹ کی ورکشاپس میں بند ہوگئیں ۔پھر شہر میں چنگ چی رکشوں کی بھرمار ہوگئی جنہوں نے شہر کی ٹریفک کا بہت برا حال کردیا تھا۔چناں چہ عدالت نے ان پر پابندی عاید کردی ۔ اب شہر میںپبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ ایک طویل کہانی ہے کہ ایساکیوں ہوا۔لیکن حالیہ برسوں میں بھی اس شہر کے حو ا لے سے کئی طویل کہانیاں لکھی جاچکی ہیں۔

یہ کیسی خوش خبری تھی؟

ان حالات میں کراچی کے باسیوں کے لیے مالی سا ل 2015۔2016 کا بجٹ ایک خوش خبری لے کر آیا ہے۔اس وقت کےوفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا میزانیہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیاتھا کہ اب کراچی میں جدید انداز کی گرین لائن بسیںچلیں گی جس کے لیےبجٹ میں16 ارب روپے مختص کیےگئے ہیں۔اس مقصد سے 22 کلومیٹر طویل کوریڈور بنایا جائے گا اور یہ منصوبہ آئندہ برس کے آخر میں مکمل ہوجائے گا۔

لیکن اسے کیا کہیں کہ تین عشروں سے بد امنی کے شکار اس شہر کے باسی اب چھاچھ بھی پھو نک پھونک کر پیتے ہیں۔چناں چہ انہیں یہ خوش خبری ہضم نہیں ہوئی تھی کیوں کہ یہاں کے باسیوں کو ہر دور میں طرح طرح کے خواب دکھائے گئے ،مگر ان خوابوں کی تعبیردیکھنے کی آرزو دل میں لیے شہر کے بہت سےباسی قبر میں اتر گئے۔ماضی کے کئی منصوبوں کی طرح گرین لائن بس کے منصوبے کے بارے میں بھی کئی برس قبل سےباتیں سنائی دے رہی تھیں۔بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بس کےمنصوبے تیز رفتارسے مکمل نہ ہوتے تو کراچی میں’’ٹوٹل سیاپا‘‘ ہی رہتا۔

ان منصوبوں کی تکمیل سے ایک جانب بہت بری کارکردگی کی تاریخ رکھنے والی سندھ کی حکومت پر کارکردگی دکھانے کے لیےدباو پڑا تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کو کراچی والوں کی ہم دردی حاصل کرنے اور وفاقی حکو مت کو صرف ایک صوبے کی حکومت ہونے کا الزام دھونے کا موقع ملاتھا۔

اس وقت اطلاعات تھیں کہ کرا چی گرین لائن منصوبے کا ٹریک 24.5کلومیٹر طویل ہو گا جو سرجانی سے کراچی سٹی سینٹر، ٹاورپر مشتمل ہوگا۔ یوں کر ا چی میں بھی ریپیڈ بس سروس ٹریک پر جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلنے لگیں گی۔اس وقت کہا گیا تھا کہ گر ین لائن بس پروجیکٹ 18ماہ میں مکمل ہوجائےگا اور تقر یباََ 4لاکھ افراد روزانہ ایک باوقار جدید ٹرانسپورٹ سے استفادہ کر سکیں گے ۔ مگر یہ وعدہ بھی اب تک وفا نہیں ہوسکا ہے اور منصوبے کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے شہر کے باسی سخت بے چینی اور مشکلات کا شکار ہیں۔

وعدوں کی کہانی حقایق کی زبانی

مذکورہ خوش خبری سے قبل مئی2012 میں خبر آئی تھی کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی شہر یوں کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کرنےکےلیےجائیکا(جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی )کے تعاون سے کرا چی ٹرانسپورٹیشن امپروومنٹ پرو جیکٹ کے تحت دو کو ر یڈ و رزپر بس ریپڈ سسٹم کے منصو بے پر غور کررہی ہے اور اسے قابل عمل بنانےکےلیے جا ئیکا کی سر وے رپورٹ پر اسٹڈی مکمل ہوچکی ہے۔یہ با ت سابق ڈائریکٹر جنرل ماس ٹرانزٹ سیل ،رشید مغل نے مقامی ہو ٹل میں منعقدہ کراچی ٹرانسپورٹیشن امپروومنٹ پروجیکٹ کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2030ء کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے شہرمیں آبادی کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہوجائے گا۔مسائل حل کرنے کرنے کے لیے بس ریپڈ سسٹم کراچی کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔ 

پہلے مرحلے میں دو کوریڈورزپر بس ریپڈ سسٹم بنانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس میں 21 کلو میٹر طویل گرین لائن کوریڈور سرجانی تا جامع کلا تھ،بہ راستہ ناظم آباد، گولی مار، بزنس ریکارڈر روڈسے گر و مندر تک اور دوسرا 24.4 کلومیٹر طویل ریڈ لائن کو ر یڈور ماڈل کالونی سے ریگل چوک بہ راستہ صفورہ گو ٹھ ، یو نیورسٹی روڈ، مزار قائد، لائنز ایریا کار پارکنگ سے ریگل چوک پر ایلی ویٹیڈ کوریڈور تعمیر کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ جائیکا نے کراچی سرکلر ریلوے کے علاوہ دو عدد ریلوے بیسڈ سسٹم اور چھ بس ریپڈ سسٹم کی اسٹڈی رپورٹ پیش کی ہے جس پر غور کیا جارہا ہے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے تیسرے کوریڈور پر، جو کورنگی سے صدر تک بنایا جائے گا، اپنی تیکنیکی رپورٹ مقامی طورتیار کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی وقت کی ضرورت ہے ا ور جائیکا کی رپورٹ بس ریپڈ سسٹم کے لیے بہت جامع ہے ۔

یہ یہ اگست 2013کی بات ہےجب بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈ منسٹر یٹر محمد حسین سیدکی صدارت میں بس ریپڈ سسٹم کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا تھا۔اس اجلاس میں محمد حسین سید کا کہنا تھا کہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم کراچی کی اہم ترین ضرورت ہے جس پر جلد از جلد عمل درآمد کے ذریعے شہر میں ٹریفک کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی نے داؤد چورنگی، لانڈھی تا نمائش چورنگی اور لکی اسٹار ”یلو لائن“ پر بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں روزانہ7 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں ۔ 

اس مجوزہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم پر عمل درآمد سے فی گھنٹہ ایک سمت میں 13 ہزار مسافروں کو سفر کی سہولت میسر آئے گی۔ قبل ازیں سیکریٹری فنانس حکومت سندھ کی صدارت میں منعقدہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں داؤد چورنگی سے نمائش چورنگی اور لکی اسٹار بہ راستہ کورنگی 8000 روڈ اور ایف ٹی سی ”یلو لائن“ کے نام سے بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم پر عمل درآمد کے لیے اچھی شہرت کی حامل تجربہ کا ر فرمز اور کنسورشیم سے اظہار دل چسپی (EOI) طلب کرنے کے لیے اشتہار شایع کرانے کی منظوری دی گئی تھی جس کے ذریعے پراجیکٹ میں دل چسپی رکھنے والی فرمز سے ”یلو لائن“ بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کے حو ا لے سے فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائی جانی تھی ۔اس رپورٹ میں تمام تیکنیکی، مالیاتی، قانونی اور ما حو لیا تی پہلوؤںکے ساتھ بی آر ٹی ایس کے لیے ٹر ا نز یکشن ا یڈ وائزری سروسز کا بھی احاطہ کیا جانا تھا۔

مذکورہ اجلاس میں بتایا گیا تھاکہ جائیکا نے کراچی شہر میں 2030ءتک کی ضروریات کے پیش نظر ایک ماس ٹرانزٹ نیٹ ورک تیار کیا ہے جس میں 2 میٹرو سسٹم لائنز اور 6 بس ریپڈ ٹرانزٹ لائنز کی تجویز دی ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے پروگرام کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے۔ جائیکا نے دو بس ریپڈٹرانزٹ سسٹم لائنز کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی تیار کرلی ہے۔ 

سہراب گوٹھ تا ٹاور بلیو لائن کی پری فزیبلٹی کا کام بھی مکمل ہوچکا ہے۔اس مو قعے پر بتایا گیا تھاکہ بی آر ٹی ایس ”یلو لائن“ 22 کلو میٹر طویل ہے ۔اجلاس کے دوران اس وقت کے ڈی جی ما س ٹرانزٹ سیل رشید مغل نے اپنی پریزنٹیشن میں کراچی میں سڑکوں کے انفرااسٹرکچر اور سفری ضروریات کے حو ا لے سے تفصیلات سے آگاہ کیا اور بس ٹرانزٹ سسٹم کے لیے جائیکا کی اسٹڈی میں دی گئیں تجاویز اور پراجیکٹ کی تخمینی لاگت کے متعلق بتایا تھا۔ 

انہوں نے بس ریپڈ ٹر ا نسپورٹ سسٹم کی نمایاں خصوصیات بہ شمول انفرااسٹرکچر کے حوالے سے سگنل کی ترجیحات، خودکار ٹکٹنگ سسٹم، بس انفارمیشن اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے متعلق تفصیلا ت سے بھی شرکا کو آگاہ کیا تھا۔ اس موقعے پر اسٹینڈنگ کمیٹی نے آر ایف کیو دستاویز کے جائزے کے لیے ڈ ی جی کراچی ماس ٹرانزٹ سیل کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

یہ11 اکتوبر2013 کی بات ہے جب وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ بورڈ کے اراکین کو کراچی کے شہریوں کو سستی، معیاری اور پرآسائش ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی غرض سے شہر کے مختلف راستوں پر 200بسیں چلانے کےلیے مو ثرمنصوبہ بندی کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ اس روز چیف منسٹر ہاؤس میں پی پی پی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔اس اجلاس میں سرکاری و نجی شراکت د ا ر ی کے تحت دو اہم شعبوں ،ٹرانسپورٹ اور توانائی کے مختلف منصو بوں پر بات چیت کی گئی تھی۔ 

اجلاس میں تفصیلی بحث مبا حثےکےبعدٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوںمیںچار منصوبے شروع کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ ٹرا نسپورٹ کے شعبے میں گرین سی این جی بس اور ڈیزل بس پرو جیکٹ شامل تھے۔ دونوں منصوبے پبلک پرائیویٹ پار ٹنر شپ کے تحت شروع کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ منصو بے کے تحت کراچی کے مختلف روٹس پر 73سی این جی بسیں اور 55ڈیزل بسیں چلائی جانی تھیں۔ 

اس منصوبے کے تحت کے ایم سی کے پاس موجود 73بسوں کی مرمت پر 40ملین روپے خرچ کیے جانے تھے جس کے بعد یہ بسیں ٹینڈر کے ذریعے پرائیویٹ پارٹی کے حوالے کر نے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ پرائیویٹ کنٹریکٹرز حکومتی سبسڈی کے بغیر کم سے کم کرایہ وصول کر یں گے۔یہ بسیں ضلع وسطی اور شارع فیصل کے دو رو ٹس پر چلائی جانی تھیں۔اجلاس میں 50نئی ڈیزل بسیں خر ید نے کا بھی فیصلہ بھی کیا گیا تھا جنہیںکینٹ سے ٹاور تک چلنا تھا۔وزیراعلیٰ نے ان منصوبوں کو جاری مالی سال کے ا ختتا م تک مکمل کرنے کا حکم دیا تھاتاکہ لوگوں کو سہو لتیں دی جا سکیں۔

وہ باتیں تری، وہ فسانے ترے

اس کے بعد جولائی 2014کے پہلے ہفتے میںاس وقت کے وزیر اعظم ،میاں نواز شریف کراچی کے دو ر ے پر آئے تو ان کاکہنا تھا کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا بہ خوبی اندازہ ہے۔وفاقی حکومت خود 15 ارب روپے کی لاگت سے گرین لائن بس پراجیکٹ مکمل کرے گی ۔گورنر ہاوس کراچی میں وزیراعظم کی سربراہی میں سیا سی رہنماوں ،تاجروں اور صنعت کاروں کا جو اجلاس ہوا تھااس میں شرکاء کو بتایا گیا تھاکہ گرین لائن بس سروس منصوبہ وفاقی حکومت خود بناکر دے گی اور منصوبے کی ما نیٹرنگ بھی کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے لا ہو ر میٹروبس پر کام ہوا ،اسی تیزی سے کراچی میں ہو گا ۔ منصو بہ فوری طور پر شروع کرنے کے لیے وفاق 15 ارب ر و پے دے گا۔ سندھ اور شہری حکومت کی جانب سے حصہ نہ ڈالا گیا تو باقی رقم بھی وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔

یہ مراحل طے ہونے کے بعد نومبر2014 میں وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیرصدارت سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا تھاجس میں کر ا چی کے لیے گرین لائن بس سروس منصوبے کی منظوری دی گئی۔اجلاس میں بتایاگیا تھا کہ اس منصوبے پر 15 ا ر ب 38 کروڑ روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ مکمل ہو نے سے یومیہ 4 لاکھ مسافروں کو فائدہ ہو گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس منصوبے کے لیے 21 کلومیٹر دو رویہ سگنل فری سڑک تعمیر کی جائے گی۔

گرین لائن منصوبے پر کام کا آغاز ستمبر2015 میں ہونا تھا ،لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور بات فروری2016 تک جاپہنچی۔ایسا کیوں ہوا؟ اس بارے میں اس وقت اس نما ئندے نے منصوبے کے ذمے داروں سے بات کرنے کی کوشش کی تھی تو وہ گفتگو کرنے سے کتراتے ہو ئے نظر آ ئےاور بات کو ٹالتے رہے تھے۔

تاہم ایک ذمے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربعض حقائق پر سے پردہ ا ٹھا یا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے ضمن میں وفاق اور صوبے میں کریڈٹ لینے کی دوڑ جاری تھی ۔تاہم اس وقت کےگورنر سندھ نے یہ معاملہ بہت خوش اسلوبی سے سلجھایاتھا۔پھر اس وقت صوبے اور وفاق میںجو سیاسی کشمکش جاری تھی اس نے بھی تاخیر میں کردار ا د ا کیا تھا ۔ سرخ فیتے کی کارستانیاں بھی جاری تھیں۔ فنڈز کی فراہمی میں بھی مشکلات تھیں۔ تاہم ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وقت پر مکمل ہوسکے گا یا نہیں۔

جون 2015 میں اس منصوبے کے بارے میں گرین لائن پروجیکٹ کے سی ای او،صالح فاروقی سے ہم نے گفتگو کی تھی ۔اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے کہ ستمبر میں منصوبے پر کام شروع کردیاجائے۔وفاقی حکومت اس منصوبے کےلیے سول انفرااسٹرکچر بنا ئے گی ۔ بسیں مہیا کرنا، آئی پی ایس، کرائے کا تعین کرنا ، منصوبے کو چلاناوغیرہ حکومتِ سندھ کی ذمے داری ہے۔ہماری کو شش ہے کہ ستمبر کے مہینے میں منصوبے پر کام شروع کر کے اسے ایک برس میں مکمل کرلیاجائے۔ اس کے بعد ا سے آپریشنل کرنا حکومتِ سندھ کی ذمے داری ہوگی ۔ منصوبے کا سول انفرا اسٹرکچر سوشل ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)کے تحت مکمل کیا جائے گا۔یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بلٹ،آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کے اصول پر کام کرے گا۔

آج کی بات

اب صالح فاروقی کراچی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کار پوریشن لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔رواں برس فروری کے دوسرے ہفتے میں ان کا کہنا تھا کہ گرین لائن بس منصوبہ گرومندر تک جون میں عوام کے لیے کھول دیا جا ئے گا۔ کے ڈی اے چورنگی پرذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کراچی کا ماس ٹرا نز ٹ پروگرام دوسرے شہروں سے قدرے مختلف ہے ، کیو ں کہ اس منصوبے میں ایک نہیں بلکہ کئی لائنزہوں گی۔ 

گر ین لائن بس کا منصوبہ 2015 میں وفاق کی جانب سے شروع کیا گیا اور اس منصوبے کے ذریعے سفر کرنے والے افراد کی تعداد پورے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہوگی۔اگلے تین ماہ میں سول انفرااسٹرکچر مکمل کر لیا جائےگا۔منصوبے کا دوسرا مرحلہ گرومندر سے نمائش چو ر نگی تک تعمیر کرنا ہے ،جسےرواں برس دسمبر تک مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ منصوبے کی لاگت 2015 میں 16 ارب روپےرکھی گئی تھی جو اب بڑھ کر 24 ارب روپےہوگئی ہے۔دراصل کراچی ا نفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ کی انتظامیہ کے مطا بق منصوبے میں کئی ایسے ردو بدل کیے گئے ہیں جن کی و جہ سے لاگت میں اضافہ ہوا۔اس موقعےپرمذکورہ اد ا ر ے کے جی ایم ،زبیر چنا کا کہنا تھا کہ سرجانی ٹاؤن سے گر و مندر تک منصوبہ19 کلومیٹر پر مشتمل ہے اور کراچی ا نفر ا ا سٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ اصل ہد ف کی جانب تیز ی سے گام زن ہے۔ گرین لائن بس منصوبے کے روٹ میں 22 جدید اسٹیشنزہیں جن کی تعمیر کے لیے زیادہ وقت درکار نہیں۔ منصوبے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ نکاسی آب کی لائنز کی وجہ سے تھی۔

ایک ارب روپے سیوریج اورپانی کی لائنز پر لگائے گئے کیوں کہ یہ تمام کنکشنزکئی بر س پرانے تھے۔دوسری جانب ایک ر کا و ٹ کراچی سرکلر ریلوے کی جانب سے یہ تھی کہ ناظم آباد کے پرانے پل پر پراجیکٹ کی تعمیر نہیں ہو سکتی تھی کیوں کہ وہ زمین کراچی سر کلرریلوے کی ملکیت تھی جسے بعد میں ریلوے کی انتظا میہ سے اجازت لینے کے بعد پراجیکٹ میں شامل کیا گیا تھا۔

اس موقعے پر پر سیکریٹری ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ منصو بے کے پہلے مرحلے میں حکومت سندھ کی جانب سے80 بسیں چلائی جائیں گی اوروفاق کی جانب سے گرین لائن بس منصوبے کی فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔یہ منصوبہ مکمل ہونے پر یومیہ 4 لاکھ افراد سرجانی ٹا ؤ ن سے گر و مندر تک سفر کرسکیں گے۔ بس اسٹیشنزپر سیڑھیاں اور ایسکیلیریٹرزبھی ہوںگےہیںاورمعذورو ضعیف العمر ا فر ا د بھی اس منصوبےسے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

تازہ ترین