فیصل میمن
مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے، ٹوٹی پھوٹی لال اینٹیں اور تانبے کے ظروف کے ذرّوں کودیکھ کر نگاہیں وادی سندھ کے خشک شدہ دریائے ہاکڑا کے کنارے ایک عظیم الشان شہر اور اہم دریائی بندرگاہ، پر ٹھہرگئیں،کہا جاتا ہے کہ یہ شہر کئی سو میل تک پھیلا ہوا تھارحیم یار خان سے پانچ کلو میٹر مشرق میں واقع یہ مقام اپنی باقیات کے باعث سندھ کی قدیم تاریخ کی ایک اہم علامت بن گیا ہے، جہاں قدیم ہندو، بد ھ اور اسلامی عہد کی نشانیاں اس دور کےلوگوں کے تمدن اور شان و شوکت کی داستانیں سنا رہی ہیں۔
وادیٔ سندھ کے مختلف حصوں میں جتنے بھی قدیم آثار ملے ہیں، وہ دور قدیم میں انسانی آبادی کے ارتکاز اور انسانی تہذیب کی نشو و نما کا ثبوت ہیں۔ ایک ایسی ہی آبادی پتن شہر بھی ہے۔ یہ تہذیب سندھ کے گمشدہ دریا ہاکڑہ کا پانی پی پی کر پلی بڑھی اور زندہ رہی۔
یہ دریا’’ ہکڑایا ہاکڑا ‘‘کے نام سے مشہور ہوا ،یعنی ہاکڑا قوم کے علاقے سے بہنے کی وجہ سے اس کا نام ہاکڑا پڑ گیا تھا، ہاکڑا دریانے جب ستلج اور بیاس کے پانیوں کو بھی اپنےآپ میں ملا لیا ،تو اس کا نام ’’گھاگھرا ‘‘رکھ دیا گیا۔
گھاگرا سنسکرت زبان میں ہڑپ کر جانے والے کو کہتے ہیں۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دریائے ہاکڑا کے کنارے پر چار ہزار سال قبل مسیح ایک گنجان آباد علاقہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑا صنعتی علاقہ ،عظیم ثقافتی مرکز ، مختلف فنون میں خصوصیت اور مہارت کا حامل تھا۔ یہاں مٹی کے برتن کثیر تعداد میں تیار ہوئے تھے۔اسے دریائی محل وقوع کی وجہ سے عہد قدیم میں بے حد سیاسی، عسکری اور تجارتی اہمیت حاصل ہوگئی تھی، مگر بعدازاں دریائے ہاکڑا خشک ہوگیا اور جغرافیائی تبدیلی نے اعلیٰ تہذیب و تمدن کے اس گہوارے پر ویرانیاں مسلط کردیں ۔
اب یہ مدفون شہر کے کھنڈرات اور آثار سے زیادہ کچھ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کی زمین فصل کے لئے بے حد مناسب تھی، کپاس، جوار اور باجرے کی فصلیں زیادہ ہوتیں،سونا، چاندی اور تانبہ بے حد پایا جاتا تھا۔ یہاں کے لوگ سیدھے سادے ۔وہ بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔پتن پور کا پورا علاقہ بہت زرخیز اور سرسبز شاداب تھا،یہاں پانی کی قلت نہ تھی، دریائے ہاکڑا کے پانی کے علاوہ یہاں بارشیں بھی خوب ہوتی تھیں۔
اس کے علاوہ گندم، مٹر، چنے اور دوسری اجناس کے گودام ہر وقت بھرے رہتے تھے۔ اجناس کے علاوہ پھلوںکے باغات اور کیلوں تک کی فصل یہاں ہوتی تھی۔ ایک صنعتی علاقہ کمانگرا ، فن کاروں ،کے نام سے منسوب تھا،یعنی نقاشی کرنے والوں اور بیل بوٹے بنانے والوں کا علاقہ، سندھی زبان میں یہ لفظ آج بھی مروج ہے۔پتن شہر کے لوگ جتنی بھی اشیاء استعمال کرتے تھے، وہ مقامی طور پر تیار کی جاتی تھیں۔
یہ کافی مضبوط اور بہت خوبصورت ہوتی تھیں۔ تانبے اور کانسی کے برتن، لوہے کے چاقو، کلہاڑیاںوغیرہ جیسے آلات و اوزار ،لوگ دور دراز کے علاقوںسے خریدنے آتے تھے۔ تولنے کے لئے پتھر کے چوکونے باٹ استعمال کئے جاتے تھے۔ مصوری اور آرٹ کی چیزیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔اس شہر کی فصیلوں پر شیروں کی تصویریں بھی نقش تھیں، جس سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ ہنرو فن کے حوالے سے بے حد خوشحال تھے۔
یہاں تیار ہونے والی اشیاء دریائے ہاکڑا کے ذریعے تجارتی بیڑوں پر لاد کر یورپ، مصر اور ایشائی ممالک تک پہنچائی جاتی تھیں۔ پتن شہر کی عظمت کا نشان مینار بھی ہے۔ یہ تاریخی ورثہ اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ مینار میں بڑی بڑی پختہ اور نفیس اینٹیں استعمال کی گئیں،اس کے پلیٹ فارم کی اُونچائی سطح زمین سے پندرہ فیٹ بلند ہے ۔موجودہ کھنڈر کے اردگرد گول محرابوںکے نشانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ بُرج، جو دور سے اب ایک مینار معلوم ہوتا ہے، کسی عظیم مرکزی عمارت کا ایک حصہ ہے۔
اس ایک ٹکڑے سے اعلیٰ طرز تعمیر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سماجی، معاشی اور تہذیبی حوالے سے پتن پور ایک شاندار شہر تھا۔ اخلاقی اور روحانی طور پر بھی اس شہر کا نام اور مقام بے حد بلند ہے۔ کئی تعلیمی مراکز بھی یہاں قائم تھے ،ثقافتی اور مذہبی تہوار منائے جاتے اور میلے بھی لگائے جاتے تھے۔ علم و ادب کے بھی چرچے تھے۔ یہ ایک ترقی یافتہ شہر تھا، مگر افسوس کہ یہ دریائی شہر خشک ہو جانے والے دریائے ہاکڑا کی ریتوں میں دفن ہو کر رہ گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پرانے شہر اور قدیم بستیوں کے آثار آج کے ترقی یافتہ انسانی ماحول کے سامنے دور قدیم کے غیر ترقی یافہ زندگی کی نشانیاں ہیں اور ہم ان نشانیوں سے اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ا ن گزرے ہوئے لوگوں کے رہن سہن، رسم و رواج، برتنوں،لباس وغیرہ کے استعمال کی خوش بواب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ زندہ قومیں اپنے آبائو اجداد اور ان کی خدمات کو ہرگز فراموش نہیں کرتیں۔ ہمیں آثار قدیمہ کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں بھی انہیں دیکھ سکیں۔