میرزا علی متقی بیگ کربلائی، حیدرآباد
میانی اور دُبی کی لڑائی کے نتیجے میں سندھ حکومت امیر ان سندھ کے ہاتھ سے نکل کر انگریزوں کے قبضےمیں چلی گئی اور تمام امیرانِ سندھ کوقید کر کے ہندوستان روانہ کردیا گیا اورانگریز خود حاکم بن گئے ۔انہی امیران میں سے ایک ’’میر محمد نصیر خان تالپور‘‘بھی تھے۔ان کی ولادت حیدرآباد قلعے میں ہوئی، میر صاحب نے اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کی ۔
میر نور محمد خان تالپورکی وفات کے بعد انہیں تخت نشیں کیا گیا۔ میر صاحب کا عہدافراتفری کا تھا، کیوں کہ اس دور میں ایک طرف میر صوبے دار خان اور خیرپور کے امیروں کے جھڑپیں شروع ہونے کے امکانات تھے، تو دوسری طرف انگریز بھی سندھ پر قبضہ کرنے کی سازشوں میں مصروف تھے۔
وہ اپنےدو ر کے کے عالم فاضل ،شاعر اور متقی تھے،ان کی شخصیت انتہائی شاہانہ اور متاثر کن تھی، بلکہ اعلیٰ سیاسی بصیرت بھی پائی تھی۔اسی بصیرت کی بنا پرانہوں نے انگریزوں سے ملاقاتیں کیں اپنے نمائند گان نیپیئر کے پاس بھیجے، جن میں مرزا خسرو بیگ، یوسف خدمت گار اور غلام علی نظامانی شامل تھے، مگر نیپیئر نہ مانا اور اس نےسندھ کو جنگ کی طرف دھکیل دیا۔
میر صاحب نے 19 برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا، ان کا تخلص ’’جعفری‘‘ تھا ان کی تمام تصانیف شاعری میں ہیں ، جب ڈاکٹر برنس میر کرم علی خان تالپور کاعلاج کرنے کے لیے آئے، تو میر نصیر خان نے انہیں اپنا ایک دیوان انہیں بہ طور تحفہ پیش کیا۔ میر صاحب شاعری میں غزل کے روایتی مضامین کے علاوہ حکمت اور سیاست کے موضوع پر بھی اشعار کہے ہیں، جوان کی سیاسی زندگی کا نچوڑ ہیں۔
میانی کی جنگ کے بعد میر نصیر خان کلکتہ گئے اور وہیں جلا وطنی میں زندگی گزاری۔ان کی جلا وطنی سے سندھ میں ادبی محافل ختم ہوگئیں۔میر صاحب نے انگریزوں سے کیے ہوئے معاہدےکی وضاحت کرتے ہوئےبتایا کہ کس طرح ظرافت کے لبادےمیں انہوں نےمیروں سے فریب کیا۔
میر نصیر خان تالپور کا اس معاہدے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’ہماری تخت نشینی کے بعدکرنل ہینری پاٹنچر نےوہ معاہدہ جو ہمارے مرحوم والد میر مراد علی خان تالپور اور لارڈ ولیم بینٹن گورنر جنرل کے درمیان ہوا تھا، وہ ہماری تصدیق کے لیے پیش کیا،کیوں کہ مرنے والے کے بیٹے ہونے کی حیثیت میں مذکورہ معاہدےکی شرطوں میں شامل تھا ۔
کرنل ہینری پاٹنجر اوپر مذکورہ معاہدہ ہماری تصدیق کرنے کے لیے بھیجنے کے بعد کچھ کی طرف روانہ ہوگیا اور وہاں ہمیں لارڈ آکینڈ کی مہر سے ایک خط بھیجا۔ خط میں لکھا ہوا تھا کہ جیسا کہ گورنر جنرل ہمیں اپنا دوست سمجھتا ، اسی لیے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی ہمارے ملک یا حکومت پر بری نظر ڈالے ۔
اس کا خط ہمارے لیے تسلی بخش تھا، ہمارے ذہن میں اپنے ملک کے آئندہ سلامتی کے متعلق ذرّہ برابر بھی شک شبہ باقی نہیں رہا کہ یہی لوگ ہماری حکومت کا تختہ اُلٹیں گے۔ میںنے ایک انگریز سفیر کو بلانے کی دعوت کے طور پر ایک خط کرنل ہینری پاٹنجر کو لکھا۔چند روز بعد ہی کرنل نے ملاقات کے لئے درخواست کی۔ ہم نے اپنے کچھ خاص امیر انہیں لینے کے لیےروانہ کیے تاکہ وہ بہ حفاظت حیدرآباد لے کر آجائیں، جہاںان سے ملاقات ہوسکے۔ ملاقات میں کرنل نےاس ضرورت پر زور دیا کہ ہمارے علاقے میں سے انگریز فوجوں کو خشکی اور آبی راستوں سے گزرنے دیا جائے ،تاکہ وہ کابل کی طرف پیش قدمی کرسکیں،جب انگریز سرکار کی یہ استدعا عام ہوئی تو تمام امیر اور بلوچ سردار ایک آواز ہوکر ان کی مخالفت کرنے لگے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی استد عائوں کو پورا کرتے کہیں اپنے آپ کو ایسی مصیبت میں نہ ڈال دیا جائے ، مگر ہم نےان کی درخواست قبول کرلی اوربلوچ سرداروں کو بھی راضی کرلیا۔ہم نے ، جو نقل و حمل کی منظوری دی تھی، اس پر ہر طرف سے طعنے مل رہے تھے۔ ہم نےانگریزوں کو اجازت اپنے عوام کی مرضی کے خلاف دی تھی، مگر ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید کسی شورش کے نتیجے میں انگریز ہمارا ساتھ دیں گے، اسی لیے ہم ان کے مطالبات مان رہے تھے،مگر وہ ہماری سوچ کے بر عکس نکلے۔جب انگریزی افواج حیدرآباد سے چودہ کوس دور جھرک کے علاقے میںرکی،تو تمام موجودہ معاہدےکے بر خلاف ہم سے فوج کے خرچ کے لیے 21 لاکھ روپے جرمانے کی صورت میں اور 3 لاکھ سالانہ محصول ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ہم نے یہ بھی مان لیا گیا۔ اس کے بعد ایک نیا معاہدہ دستخط کے لیے بھیجا گیا وہ 24 فقروں پر مشتمل تھا ،میں نے وہ بھی منظور کیا،ابھی اُس معاہدےکی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ میجر سرچارلس نیپیئر اپنی افواج کے ساتھ سندھ میں داخل ہوا اور ایک دوسرا معاہدہ دستخط کرنے کے لیے بھیجا۔
ہم نے اپنے ایک وکیل کو سکھر روانہ کیا تاکہ وہ میجر جنرل سے ملے اور حقائق سے آگاہ کرے، مگر اس نے وکیل کو بتایا کہ وہ یہاں بات چیت کرنے نہیں آیا ، وہ صرف لارڈ ایلن بروکے کے حکم کی تعمیل کررہا ہے ، اگر ہم نےمعاہدہ منظور نہ کیا ،تو وہ ہمیں برباد کر دے گا۔ ان کے بعد وہ دریا پار کر کے روہڑی کی طرف اپنا کیمپ قائم کیا اور خیرپور کے والی میر رستم سے کہا کہ وہ یہ ہ مقام ان کے حوالے کرے ، ورنہ حملے کی صورت میں زمے دار وہ خو دہوگا۔
دھمکیوں کے خوف سے وہ خیرپور سے بھاگ کر کوٹری چلا گیا، جب ہم نے دیکھا کہ جنرل دشمنی پر اتر آیا ہے، تو ہم نے میجر آئوٹرام کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ میجر جلدی خیرپور سے حیدرآباد چلا آیا اور ہمیں خط کے ذریعے اطلاع کیا کہ سر چارلس نیپئر کے بھیجے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔
ہم مجبور ہوگئے اور میجر کے مشورہ پر عمل کیا۔ میجر آئوٹرام ہم سے ملاقات کرنے کے لیے آیا ، ہماری بتائی گئیںتفصیلات جاننے کے بعداس نےکہا کہ اسی رات وہ ہماری طرف ایک یورپین کو بھیجے گا، جوسر چالس نیپئر کوپیغام دے گا کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے لشکر کو روکے، مگر خبر ملی کہ چارلس نیپئرنے حیدرآباد کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ ہم نے یہ خبر میجر آئوٹرام کو بھیجی وہ قلعےمیں ملنے آیا اوریقین دلایا کہ چارلس نیپیئر دشمنی کے ارادے سے نہیں آیا، مگر ان تمام باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ایک دن اطلاع ملی کہ میجر جنرل کسی بات کی پروا کیے بغیر حیدرآباد کی طرف پیش قدمی کررہا ہے اور دشمنی کا ارادہ رکھتا ہے تو تقریباًچھ ہزار بلوچ مقابلہ کرنے کے لیے حیدرآباد سے روانہ ہوئے۔میں خود جنگ کے ارادے سے نہیں گیا تھا۔ اگر میرا کوئی ارادہ ہوتا تو میں جلدی اسے ظاہر کرتا بجائے ان کے حملہ کرنے کے آخری گھڑی تک کا انتظار کرتا رہتا۔ منت سماجت کر کے بلوچوں کو اس بات پر رضا مند کیا کہ دشمنی کی تمام باتوں سے باز رہنا چاہیے،انہوں نےجواب دیا کہ ہمیں آپ کی ہر بات منظور ہے، مگر جب تک انگریز افواج کی پیش قدمی جاری رہے گی،اس وقت تک ہم میدان نہیں چھوڑیں گے۔
آخر میری بات کو منظور کیاگیا کہ جنرل کو وکیل کے ذریعے پیغام بھیجا جائے کہ ہم ابھی تک انگریز سرکار کے دوست ہیں۔تیسرے دن جنرل کے لشکر نے ہم پر توپوں سے حملہ کردیا اور بلوچ مایوسی کے عالم میں جوابی کارروائی کی۔ ہماری طرف سے ہزاروں لوگ مارے گئے ،جو بچے وہ تتر بتر ہوگئے ،فقط ہم اٹھارہ آدمی میدان میں رہ گئے، جب میں نے دیکھا کہ سب ہی بھاگ گئے اور انگریز ظلم پر کمر بستہ ہوگئے ہیں تو میں حیدرآباد واپس آگیا۔حالات نے جو بھی رخ اختیار کیا اس سے بے حد مجھے صدمہ پہنچایا۔
مجھے اپنے طعنہ دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ شروع سے ہی میں انگریزوں کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں دیتا تو آج اس طرح ظلم کا شکار نہ ہوتے۔اگر میں جنگ و جدل کا ارادہ رکھتا ، تو حیدرآباد سے نکل کر پہاڑوں پر پناہ لیتااور مخالفانہ کارروائیاں شروع کردیتا، مگر یہ ارادہ نہیں تھا۔ اسی لیے میں انگریزوں سے صلح کی بات کی،جب میں نے لشکر کو برخاست کردیا ، تو مجھے اور میر شہداد خان کو جو پہلے میرے ساتھ تھا قید کردیا ،ان کے بعد چارلس نے میجر ریڈ اور دوسر انگریز عملداروں کو قلعہ دیکھنے کے بہانے سے اندر بھیجا اور قلعے پر قبضہ کرکے، وہ تباہی و لوت مار مچائی جس کی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے میر محمد خان اور میر صوبے دار خان کو قلعے سے باہر لاکر قید کیا گیا، ان کے بعد میر فتح علی خان اور میر محمد علی خان، میر حسن علی خان اور میر عباس علی خان قلعے سے باہر لایا گیا۔ہمارے ہتھیاروں، خزانے کے ساتھ ساتھ انگریزوں نےہمیں کتابوں سے بھی محروم کردیا۔
پہلے ہمیں قیدی کی حیثیت سے بمبئی بھیجا گیا،وہاں سے میر شہداد کو اکیلا ،سورت بھیجا گیا ایک سال گزرنے کے بعد ہمیں بھی کلکتہ بھیج دیا گیا۔ حیرت اس بات کی ہے کہ بمبئی کے گورنر کے سوا کسی دوسرے سرکاری آدمی نے ہم سے یہ نہیں پوچھا کہ ہم کون ہیں اور ہمارا قصور کیا ہے ، اس انجام کے مستحق ہیں بھی یا نہیں۔