کان کوگلن
روسی سفارتکاروں کا بڑے پیمانے پر ملک بدری، جسے دنیا نے پہلی بار دیکھا ہے ،کے خلاف ولادی میرپیوٹن(روسی صدر)کے انتقام لینے والے بیانات کے تندوتیز جھکڑسے متعلق اس روسی سربراہ کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ ان کے پاس اس حوالے سے آپشنز کتنے محدود رہ گئے ہیں۔میرے خیال میں،مسٹرپیوٹن بیرونی دنیا کے ساتھ معاملات طے کرنے کے ضمن میں ایک تزویرکار(حکمت عملی ترتیب دینے والے)سے زیادہ ایک موقع پرست شخصیت ہیں ۔
سوویت یونین کے زوال کے کئی دہائیوں کے بعدروس کی تعمیر نو کے لئے کسی مربوط،غوروفکرسے تیارکردہ منصوبہ رکھنے کی بجائے وہ(پیوٹن)ساراوقت اپنا مذاق اڑانے کے طریقے ڈھونڈنے پر صرف کرتا ہے۔تخریب یعنی انتشار،نہ کہ تعمیری عمل ،نام ہے مسٹرپیوٹن کے اس کھیل کا۔حالیہ برسوں میں ان کے طرزعمل سے یہ امر آشکار ہوچکا ہے، مشرقی یوکرین میں مشکلات کو ہوادینے سے لے کر حالیہ امریکی انتخابات میں مداخلت کرنے تک کے حربے اس میں شامل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اوراس کے کریملن کے گہرے دوستوں نے یہ نتیجہ اخذکیا کہ وہ برطانوی سرزمین پرسابق روسی انٹیلی جنس افسرکو قتل کرنے کے لئے نرووایجنٹ(اعصابی گیس)کا استعمال کرتے ہوئے ا س مغربی اتحاد کی مضبوطی کی جانچ کرنے کے قابل ہوں گے ایک ایسے وقت جب برطانیہ اور اس کے باقی ماندہ یورپ کے ممالک ممکنہ طورپر بریگزٹ مذاکرات کے وہم واندیشہ میں مبتلا ہوں گے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں کیمیائی ہتھیاروں والا یہ پہلا حملہ پیوٹن طرزکے آپریشن پرمہر تصدیق ثبت کرچکا ہے جس میں وہ ایسے کسی عمل میں ملوث ہونے سے انکارکرتے ہوئے اپنے دشمن کے ردعمل کو آزماتا ہے۔اگرسلیسبری حملے کی باضابطہ اجازت دیتے ہوئے،اوراس ضمن جیوری کے روس کی ریاستی سازش کے درست حدتک وسعت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہی ہے،سے مسٹرپیوٹن یہ امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اس سے مغربی اتحادکے سیکورٹی ڈھانچے میں تقسیم کو بے نقاب کردیں گے،تو انہیں اس حوالے سے مایو سی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موجودہ دورمیں سب سے بڑی یورپی یکجہتی کو منظم کرنے کے لئے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اوریورپی رہنما بورس جانسن دونوں بجاطورپر اس عظیم نیک نامی کا استحقاق رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دورپرے کے ممالک جیسے کینیڈا،ہنگری اورآسٹریلیا بھی روس کی اس سفاکانہ غیرذمہ دارانہ واقعے میں ملوث ہونے پر دنیا بھرمیں مذمت عمل میں شامل ہوگئے ہیں ۔
مسٹرپیوٹن ،تضادعملی کی وجہ سے،خود کو تنہا اوربے یارومددگارپاتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماسکو کے لئے حالات کس قدر خراب ہیں حتیٰ کہ لیبررہنما جیریمی کوربن کی نیم دلانہ حمایت تک پر بھی انحصار نہیں کیا جاسکتا،جنہوں نے اس اعصابی گیس حملے کے فوری بعد تاج برطانیہ کی عظمت کے وفادارقائد حزب اختلاف کی ۔بجائے کریملن کے آرٹی ٹیلی ویژن اسٹیشن کے لئے ایک مہمان پیش کارکا کرداراداکیا تھا ۔
اس بحث سے یہ منطقی سوال پیداہوتا ہے کہ مسٹرپیوٹن اب روسی سفارتکاری کی جدیدتاریخ کے اس انتہائی رسواکن ،اوراپنے دام میں خود پھنس جانےوالے،واقعے میں انتقام کے طورپر کیا کچھ کرسکتے ہیں؟گزشتہ دنوں کریملن کی تعلقات عامہ کی مشین معمول کی گولہ باری اور دنیابھرمیں روسی سفارتکاروں کے اس اخراج کا‘‘جواب سختی سے دینے‘‘کی یقین دہانی سے بھری پڑی تھی۔ان روسی سفارتکاروں میں بہت سے درپردہ روسی سیکورٹی سروس کے جاسوس ہیں یہی وجہ ہے کہ متحرمہ تھریسا مے کا پیر کے روزدارالعوام میں اس بات پر اترائی کہ اس منظم عالمی کارروائی نے روس کےسمندرپارجاسوس آپریشن کےپرخچے اڑاکررکھ دیئے ہیں۔
موجودہ روسی حکام،بلاشبہ ،سفارتکاروں کے اس اخراج کا ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے ہیں ،جو بلاشبہ آئندہ چند روزمیں شروع ہوسکتا ہے۔(روس اب تک امریکا اور برطانیہ کے درجنوں سفارتکاروں کوملک سے نکل جانے کا کہہ چکاہے)۔
پیوٹن ،میراخیال ہے،سرکش ریاستوں جیسا کہ ایران اورشام میں اپنے دوستوں سے حمایت کا کہہ سکتے ہیں،اگرچہ مجھے شبہہ ہے کہ ان دونوں ملکوں میں سے کوئی ایک ایسے معتبرسفارتی اثاثے رکھتا ہو جو مذاکرات کی میزپر لانے کے قابل ہوں۔
شمالی کوریا،جس کا جوہری ہتھیاروں والا پروگرام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے روسی تیکنیکی مددمل چکی ہے،ایک اورامکانی ردعمل ہے،اگرچہ کم جونگ ان ،شمالی کوریا کے مطلق العنان رہنما،اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ عسکری تصادم کے بارے میں غوروفکراور سوچنے سے اجتناب برتتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسی افوائیں اڑائی جاتی رہی ہیں کہ روس مغرب کی جانب اپنے جارحانہ موقف میں اضافہ کرتے ہوئے ایک اورعسکری مہم جوئی کرسکتا ہے ،مثال کے طورپر،بالٹک ریاستوں میں سے کسی ایک ریاست،جیسا کہ ایسٹونیا،کو دھمکی دینا۔
ایک اورآپشن یہ ممکنہ طورپر یہ ہوگا کہ روس اپنے خلاف تنقید کے بنیادی ڈھانچے کو ناکارہ بنانے کے لئے انتقامی سائبرحملے شروع کردیں ،یا جھوٹی خبروں کی ایک اورنئی لہرچلادیں جس کا مقصدمغربی حکومتوں کی ساکھ کو کمزورکرنا ہوگا۔
دنیا مسٹرپیوٹن کے ان حربوں سے آگاہ ہوچکی ہے۔مسٹرپیوٹن کے لیے مشکل،اگرچہ،یہ ہے کہ عالمی برادری نہ صرف ان کے ان حربوں سے آگاہ ہوچکی ہے۔اس نے روس کی مزید غیر ذمہ دارارانہ کارروائیوں کے خلاف خود کو بچانے کے لئے پہلے سے ہی دفاع کا بندوبست کرلیا ہے۔روس کی جارجیا اوریوکرین میںجارحیت کا نتیجہ بالٹک ریاستوں اورمشرقی یورپی میں نیٹو کا خوداپنا دفاع نظام بہتربنانے کی صورت نکل چکا ہے۔
جہاں تک کریملن کے اس ضمن میں خفیہ آپریشنزکا تعلق ہے،تویہ کارروائیاں کافی حدتک عوام کی دسترس میں ہیں کہ زیادہ ترلوگوں نے انہیں سن رکھا ہے۔
مثال کے طورپر،سینٹ پیٹرزبرگ کی ٹرول فیکٹری سے متعلق،اس کی انٹرنیٹ روبوٹس کی فوج جھوٹی خبروں کی لامتناہی سلسلہ کوہوادے رہی ہے۔
دریں اثناء مسٹرپیوٹن کے دماغ میں یہ خدشہ ہوگا کہ اگروہ مقررہ سطح سے بڑھ کر ردعمل کا اظہار کریں،تو ان کی کارروائیاں فٹبال ورلڈکپ کو سبوتاژکرسکتا ہے،جس کی میزبانی اس کے ملک روس کورواں موسم گرما میں کرنی ہے۔
یہ روسی سیاستداں بڑے عالمی واقعات میں مرکزی اسٹیج پر براجمان ہونے سے زیادہ کسی اورچیز کو پسند نہیں کرتا ہے ۔اس طرزعمل سے وہ روس کے محروم عوامی طبقات کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے دیگربڑے رہنمائوں کے ساتھ برابرحیثیت سے لطف اندوزہوتے ہیں۔
اس وجہ سے یہ صدرپیوٹن کے لئے غیر معمولی تناسب پر مبنی شرمندگی ہوگی اگردنیا کے باقی ماندہ ممالک اس (فٹبال) ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کردیں، ایک ایسی پابندی جس پر بلاشبہ سنجیدگی سے غورہوگا اگرروس کوکسی بھی انتہائی ناقابل قبول خفیہ کارروائی کے ارتکاب کا قصورارٹھہرایا جاتا ہے۔ مسٹرپیوٹن پرموجودہ صورتحال میں یہ حقیقت آشکار ہوسکتی ہے کہ انہیں اپنے منصوبے میں کامیاب ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔