مولانا حافظ عبد الرحمن سلفی
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ترجمہ! پاک ہے وہ پروردگار جو ایک رات اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ارد گرد (کے علاقہ) کو ہم نے (بڑی) برکتوں سے نوازا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں۔ بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والاہے۔(سورۂ بنی اسرائیل )اسریٰ کے لغوی معنی رات کو جانا۔ رات کو لے جانا کے ہیں۔
شرعی طور پر اسریٰ سے مراد وہ بابرکت سفر ہے جو ختمی مرتبت محسن انسانیت محمد رسول اللہ ﷺ کو ہجرت سے ایک سال قبل بیت اللہ الحرام سے بیت المقدس اور بعد ازاں جبرائیل امین ؑبراق پر سوار کرا کر آسمانوں کی وسعتوں کی جانب محو پرواز ہوئے۔نیز جنت اور دوزخ کا نظارہ کرایا گیا۔ ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیائے کرامؑ سے ملاقاتیں کرائی گئیں۔ بیت المقدس میں امام الانبیاء ﷺ کی امامت میں تمام انبیائے کرامؑ نے نماز اداکی۔ معراج کی شب آپ ﷺ اپنے رب سے بہت قریب ہوئے۔
امام ابن کثیر ؒ اپنی تفسیرمیںواقعۂ معراج کی تفصیل بخاری و مسلم اور دیگر صحیح کتب احادیث کی روشنی میں یوں فرماتے ہیں۔صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ شب معراج جبکہ کعبۃ اللہ سے آپ ﷺ کو بلایا گیا ،آپ ﷺ کے پاس تین فرشتے آئے ۔اس وقت آپ بیت اللہ میں سوئے ہوئے تھے ۔پہلے فرشتے نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں تو دوسرے نے جواب دیا کہ یہ ان میں سے بہتر ہیں تو تیسرے نے کہا کہ پھر ان کو لے چلو بس اس رات یہی ہوا ۔
اسی طرح دوسری رات پھریہ تینوں آئے تو اس وقت بھی آپ ﷺ نیند فرمارہے تھے ،گرچہ آنکھیںبند تھیں،لیکن دل بیدار تھا، اس رات انہوں نے کوئی بات نہ کی، بلکہ آپ ﷺ کو چاہ زم زم کے پاس لٹایا اور آپ ﷺ کا سینہ مبارک خود جبرائیل علیہ السلام نے چاک کیا او رسینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر انہیں اپنے ہاتھ سے زم زم سے دھویا، جب خوب صاف کرچکے تو آپ ﷺ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا‘ اس سے آپ ﷺ کے سینہ مبارک اور گلے کی رگوں کو پرکر دیا گیا،پھر سینے کو سی دیا گیا۔ بعد ازاں جیسا کہ آپ ﷺ کو بیت المقدس لے جایا گیا، جہاں آپ ﷺ نے تمام انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی اور پھر آپ کو جبرائیل امین آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جہاںدروازہ کھلوایا گیا تو فرشتوں نے استقبال کیا اور خوش ہوئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ جبرائیل امین کے ہمراہ رحمۃ للعالمین ﷺ تشریف لائے ہیں اور انہیں بلایا گیا ہے، یہاں آپ ﷺ کی ملاقات آدم علیہ السلام سے ہوئی ۔
جبرائیلؑ نے تعارف کرایا۔ آپ ﷺ نے سلام کیا اور انہوں نے مرحباکہتے ہوئے آپ کی تعریف کی۔ پہلے آسمان پر دونہریںجاری دیکھ کر آپ ﷺ نے جبرائیل ؑسے دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ نیل اور فرات کا عنصر ‘ پھر آپ ﷺ کو آسمان میں لے گئے ۔ آپ ﷺ نے ایک اور نہر دیکھی یہ کون سی نہر ہے؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے ،جسے آپ ﷺ کے پروردگار نے آپ ﷺ کے لئے رکھاہے۔ پھر آپ ﷺ کو دوسرے آسمان پر لے گئے اوروہاں بھی فرشتوں سے وہی باتیں ہوئیں جو پہلے آسمان پرہوئی تھیں ،پھر تیسرے آسمان چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں آسمان پر لے جایا گیا اور ہر جگہ فرشتوں سے وہی باتیں ہوئیںجو پہلے ہوئی تھیں۔
جب آپ ﷺ وہاں سے بھی اونچے چلے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا اللہ میرا خیال تھا کہ تو مجھ سے بلند کسی کو نہ کرے گا۔ اب آپ ﷺ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے۔یہاں تک کہ سدرۃالمنتہیٰ تک جا پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے بہت ہی نزدیک ہوا۔ بقدر دو کمان کے، بلکہ اس سے کم فاصلے پر۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ ﷺ پر وحی کی گئی جس میں آپ ﷺ کی اُمت پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ واپسی پر موسیٰ علیہ السلام نے آپ ﷺ کو روکا اور پوچھا کہ کیا حکم ملا۔ فرمایا کہ دن رات میں پچاس نمازوں کا۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا، یہ آپ کی اُمت کی طاقت سے باہر ہے ۔
آپ ﷺ واپس جائیے اور کمی کی طلب کیجئے۔ آپ ﷺ نے جبرائیل ؑ کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں ‘ان کا بھی اشارہ پایا کہ اگر آپ ﷺ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے۔ آپ ﷺ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھہر کر دعا کی کہ یااللہ ہمیں تخفیف عطا ہو ‘ میری امت اس کی طاقت نہیںرکھتی۔ پس اللہ نے دس نمازیں کم کر دیں ۔واپسی پر موسیٰ علیہ السلام نے مزید کمی کرانے کا مشورہ دیا۔ یہاں تک کہ کم کراتے کراتے فقط پانچ وقت کی نمازیں فرض رہ گئیں۔ یہ پڑھنے کے اعتبار سے تو پانچ ہیں مگر ثواب کے اعتبار سے پچاس ہیں۔ یہ نماز کا تحفہ تھا جو رب کائنات کی طرف سے رحمت کائنات علیہ الصلوۃ والتسلیم اور ان کی امت کو عطا ہوا۔ اس سے نماز کی اہمیت و فرضیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ دیگر تمام عبادات کی فرضیت بذریعہ وحی زمین پر کی گئی، لیکن نماز ایسی عظیم عبادت ہے کہ خالق کائنات نے بطور خاص اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علہ وسلم کو اپنے پاس بلا کر یہ عظیم تحفہ عنایت فرمایا، جس کی حفاظت اور ہمیشگی اختیار کرناامت مسلمہ کا فرض اولین قرار دیا گیا ہے ۔
قربان جائیے رحمت عالم ﷺ کی اپنی امت پر شفقت و محبت کے کہ نماز کومومن کی معراج قرار دے دیا گیا۔ اب جب آپ ﷺ جاگے تو مسجد الحرام میں ہی تھے۔ بعض اس واقعہ کو خواب بیان کرتے ہیں شاید اس جملے کی بناء پر جو اس حدیث کے آخر میں وارد ہوا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ خواب میںبھی آپ کو معراج ہوتی تھی، لیکن ہم جس کا ذکر کر رہے ہیںیہ آپ کے بیداری میں جسمانی معراج ہوئی تھی۔
اسی طرح بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس رات آپ ﷺ نے اللہ عزوجل کو دیکھا لیکن ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سورۃ النجم کی ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جبرائیل امین ؑکو دیکھا چنانچہ ایک روایت کے مطابق جب ابوذر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ کیا آپ ﷺ نے اللہ کودیکھا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تو نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں۔
مسند احمدمیں ہے ، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے پاس براق لایا گیا ۔اس کا ایک قدم اتنی دور پڑتا ،جتنی اس کی نگاہ جاتی تھی۔ وہ مجھے بیت المقدس لے کر پہنچا اوراسے مسجد اقصیٰ کے باہر اسی کنڈے میںباندھا‘ جہاں انبیاءؑ اپنی سواریاں باندھتے تھے ۔ پھرمیں نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی۔جب وہاں سے نکلا تو جبرائیل ؑ میرے پاس ایک برتن میںشراب اور دوسرے میں دودھ لائے‘ میں نے دودھ کوپسند کیا۔جبرائیلؑ نے کہا آپ ﷺ فطرت تک پہنچ گئے۔
بعد ازاں تمام آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمورسے تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ بیت المعمور میںہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں ۔ پھر آپ ﷺ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور جس کے پھل مٹکے جیسے اسے امر خدا نے ڈھک رکھا تھا، اس خوبی کا کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آخر میں آپ ﷺسے فرمایا گیا جو نیکی کا ارادہ کرے ،خواہ نہ کرے، تاہم اسے ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے ‘ اگر کرے تو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور گناہ کے صرف ارادے سے گناہ نہیں لکھا جاتا اور کر لینے سے صرف ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے (صحیح مسلم)
آپ ﷺ کو طورسینا اوربیت اللحم پر نمازیں پڑھوائی گئیں اور ان کے بارے میں بتایا گیا۔ایک مقام پر جاکر جبرائیل ؑ نے بھی آپ ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیا اور آپ ﷺ اللہ کے حضورسجدے میں گر پڑے۔آپ ﷺ نے جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ تمام فرشتے مجھے خوشی خوشی ملے، بجزو ایک فرشتے کے کہ اس نے سلام کا جواب تودیا اور مرحبا بھی کہا لیکن مسکرائے نہیں۔
وہ کون ہیں اور اس کی کیا وجہ ہے؟ جبرائیل ؑ نے جواب دیا وہ جہنم کے داروغہ ہیں۔اپنے پیدا ہونے سے لے کرآج تک وہ ہنسے ہی نہیں ،بلکہ قیامت تک ہنسیں گے بھی نہیں ‘کیونکہ ان کی خوشی کا یہی ایک بڑا موقع تھا۔اسی طرح آپ ﷺ نے آدم علیہ السلام کو دیکھا جن کے دائیں بائیں بڑی بڑی جماعت ہے۔
دائیں جانب دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اوربائیں جانب دیکھ کر رنجیدہ ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ اولاد آدم ہیں اور داہنی جانب جنتی ہیںجنہیں دیکھ کر خوش ہوتے اور بائیں جانب جہنمی ہیں ‘ جنہیں دیکھ کر رنجیدہ ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ واقعہ عظمت بشریت کی بین دلیل ہے کہ آپ ﷺ وہاں تک تشریف لے گئے ،جہاں جبرائیل ؑ کا سفر بھی ختم ہو گیا تھا۔ّ