مظفّر آباد میں داخل ہوئے، تو ہلکی بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ فضا میں پہلے سے موجود خُنکی نے اچھی خاصی ٹھنڈ کی صُورت اختیار کرلی تھی۔ ابھی رات کے9 ہی بجے تھے، لیکن دن بھر کے تھکا دینے والے سفر اور سردی نے کھانے کے فوراً بعد بستروں کی جانب دَوڑنے پر مجبور کردیا۔ ہم کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ساٹھ صحافیوں کے ساتھ، انڈس موٹر کمپنی اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پاپام) کے اشتراک سے منعقد ہونے والی’’ چوتھی سالانہ آٹو انڈسٹری ورکشاپ‘‘ میں شرکت کے لیے مظفّرآباد پہنچے تھے ۔
دوسرے روز خاصی بلندی پر واقع، پی سی ہوٹل کے کمرے کی بالکونی سے جھانکا، تو شہر پر، سُکون کی چادر تَنی محسوس ہوئی۔ کہیں دُور سے اللہ ہُو کی ضربوں کی گونج سُنائی دے رہی تھی، شاید نمازِ فجر کے بعد کسی دربار میں حلقۂ ذکر ہو رہا تھا۔ شمال مشرق کی جانب پہاڑی چوٹیاں رات کی برف باری کی وجہ سے چمک رہی تھیں، تو شہر کے بیچوں بیچ بہنے والا، دریائے جہلم بھی عجیب شان دِکھا رہا تھا۔ ناشتے کے لیے کمرے سے باہر آئے، تو کل کے برعکس موسم بدل چکا تھا، تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی، لیکن بادلوں کے آوارہ غول سورج سے آنکھ مچولی سے باز نہیں آ رہے تھے۔
بہ ہر حال، ناشتے کے فوراً بعد کانفرنس ہال کا رُخ کیا، جہاں انڈس موٹر کمپنی کے جواں سال اور خوش اخلاق، سی ای او، علی اصغر جمالی نے پاکستان میں موٹر سیکٹر کی صُورتِ حال پر انتہائی پُرمغز بریفنگ دی، جس کے دَوران سوال و جواب کا سلسلہ بھی چلتا رہا، بلکہ بعض صحافیوں نے تو اس سلسلے میں اس قدر دِل چسپی لی کہ دوسروں کے حصّے کے سوالات کا کوٹا بھی وہ ہی استعمال کر گئے۔
اِس سال ورک شاپ کا موضوع ’’پاکستان کی معاشی صُورتِ حال اور آٹو انڈسٹری کی ترقّی کے امکانات‘‘ تھا۔ اس موقعے پر انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او، علی اصغر جمالی نے کہا کہ’’ پاکستان رواں برس 6 فی صد کی شرح سے اقتصادی ترقّی حاصل کرنے کے قریب ہے ،جب کہ فی کس سالانہ آمدنی 1700 امریکی ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، بلاشبہ اس ترقّی کا کریڈٹ حکومتی پالیسز ہی کو جاتا ہے۔ اگر یہ پالیسز جاری رہیں، تو پاکستان 2030ء تک دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہوسکتا ہے۔
شرحِ نمو اور فی کس آمدنی میں اضافے کے سبب گاڑیوں کی طلب میں بھی یقینی طور پر اضافہ ہوگا۔ سو، موجودہ کارساز اداروں کے علاوہ چھے نئی کمپنیز بھی بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ میدان میں کُود رہی ہیں تاکہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کر سکیں۔ اس ضمن میں انڈس موٹر کمپنی نے بھی اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور اس کی بہتری کے لیے تقریباً 4 ارب روپے سے زاید کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ 2018ء کی دوسری سہ ماہی تک موجودہ پیداواری صلاحیت کو 20 فی صد بڑھا کر سالانہ 75 ہزار یونٹس کی تیاری تک لے جایا جاسکے۔
یہ سب اشارے پاکستانی معیشت کے لیے انتہائی خُوش کن ہیں، کیوں کہ یہ ترقّی، معیارِ زندگی بلند کرنے کے ساتھ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا بھی ذریعہ ثابت ہوگی۔‘‘ جمالی صاحب کا کہنا تھا کہ’’ہم روزانہ 150 ملین روپے کے مقامی پرزہ جات خریدتے ہیں، جو سالانہ40 ارب روپے بنتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں خریداری، مقامی پرزہ جات کی تیاری اور مقامی وینڈرز کی استعداد میں ترقّی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ مقامی طور پر پرزہ جات کی خریداری کا ایک فائدہ تو زرِمبادلہ کی بچت کی صُورت سامنے آ رہا ہے، تو روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں۔ آئی ایم سی نے مقامی آٹو پارٹس وینڈرز اور عالمی آٹو پارٹس مینوفیکچررز کے مابین 30 معاہدے کروانے میں مدد کی ہے، جس کے تحت مقامی صنعت کی استعداد میں اضافہ ہوگا اور پھر یہ بھی کہ ان معاہدوں سے مُلک میں جدید ٹیکنالوجی اور مہارت کی منتقلی کا ایک کشادہ دَر بھی کُھلا ہے۔
نیز، وینڈرز نے بھی صنعت کی ترقّی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے تاکہ وہ بھی تیزی سے فروغ پاتی مارکیٹ سے خود کو ہم آہنگ کر سکیں۔‘‘ اُنہوں نےایک سوال پر بتایا کہ’’ ہمارے تیار کردہ برانڈ، کرولا کو عالمی سطح پر صارفین کا بھرپور اعتماد حاصل ہے اور 170 مُمالک میں اس کا23 واں نمبر ہے، جب کہ ایشیا پیسیفک میں تو اس کی فروخت سب سے زیادہ ہے۔ نیز، فروخت کے لحاظ سے دنیا میں اس کا شمار چوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑی بھی بہترین معیارکی حامل ہے، اس کی سیفٹی خصوصیات عالمی معیار کے مطابق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے حال ہی میں ’’ NCAP ‘‘فور اسٹار ریٹنگ دی گئی ہے۔
اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کرولا کے لیے لوکلائزیشن تقریباً 64 فی صد ہے۔‘‘ انڈس موٹرز کمپنی نےصارفین سے مضبوط روابط کے لیے بھی کئی ایک اقدامات کیے ہیں۔ علی اصغر جمالی نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ’’ہم کافی عرصے سے پریمیئم کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔حال ہی میں کئی ایسے بکنگ آرڈرز منسوخ کیے گئے، جو ہماری شفّاف پالیسز کے منافی تھے، جب کہ مزید ہزاروں آرڈرز کی بھی جانچ پڑتال کی گئی۔ ہم مسلسل پریمیئم کے خلاف مہم چلا رہے ہیں تاکہ صارفین کو اس کے بارے میں آگاہ کیا جاسکے۔
پھر یہ کہ ہم نے اس غلط روش کے خاتمے کے لیے اپنی حد سے بڑھ کر کوششیں کی ہیں، اب اگلا کام حکومت کا ہے کہ وہ اس کے منفی لین دین کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔ اگر حکومت چاہے، تو اس ضمن میں ہول سیل ریٹیل میکینزم اور ٹرانسفر ٹیکسز میں اضافہ بھی کر سکتی ہے تاکہ پریمیئم کی حوصلہ شکنی ہو۔‘‘روپے کی گراوٹ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات موٹر انڈسٹری پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں، اس حوالے سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ’’ روپے کی قدر میں کمی، خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی، اسٹیل، فیول، کاپر اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے گاڑیوں کی ریٹیل قیمتِ فروخت میں بھی اضافہ ناگزیر ہوگیا ہے، وقت کا تعیّن تو ابھی ممکن نہیں، تاہم قیمت میں اضافہ جلد ہوگا، جو ممکنہ طور پر ایک لاکھ تک ہوسکتا ہے۔‘‘
اچھی بات یہ ہے کہ انڈس موٹر کمپنی اپنی سماجی ذمّے داریوں کی ادائی کو بھی ضروری سمجھتی ہے اور اس حوالے سے کئی پروگرامز پر عمل پیرا بھی ہے۔ کمپنی کے سی ای او نے بتایا کہ’’ ہم نے یو این جی سی 10 پرنسپلز پر بھی دست خط کیے ہیں، جس کے تحت عالمی ترقّیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ آئی ایم سی ایک صحت مند اور پڑھے لکھے معاشرے کی تشکیل کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔
اس مقصد کے لیے کمپنی کے تحت کئی تعلیمی منصوبے جاری ہیں، تو غریب و نادار افراد کا سہارا بھی بننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نیز، کمپنی شہروں کو صاف ستھرا رکھنے اور روڈ سیفٹی مہمّات میں بھی اپنا حصّہ ڈال رہی ہے، اس ضمن میں جہاں کمپنی کے رضا کار دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے شانہ بہ شانہ صفائی مہم کا حصّہ بنتے ہیں، وہیں کمپنی نے خود اپنے پیداواری پلانٹس میں عالمی قوانین کے تحت ماحول دوست اقدامات کو یقینی بنایا ہے۔‘‘ اس موقعے پر سابق چیئرمین پاپام، عامر اللہ والا نے صحافیوں کو بتایا کہ’’ زیادہ تر وینڈرز نہ صرف اپنی گنجائش بڑھا رہے ہیں بلکہ ٹیکنالوجیز کو بھی جدید بنا رہے ہیں، جب کہ کئی نئی کمپنیز نے بھی موٹر صنعت میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ یورپی اور دو کورین برانڈز کی آمد سے گاڑیوں کے شعبے میں نئی اور مختلف گاڑیوں کا اضافہ ہوگا، جس سے صحت مند مقابلے کو فروغ ملے گا۔ نیز، بہتر معاشی صُورتِ حال، شفّاف پالیسز اور سی پیک کی وجہ سے پاکستان کو دنیا کے دس بڑے آٹو مینوفیکچررز کی فہرست میں شامل ہونے میں مدد ملے گی۔
علاوہ ازیں، نئی سرمایہ کاری سے پاکستان پانچ لاکھ گاڑیوں کا ہدف توقّع سے پہلے ہی حاصل کرسکتا ہے۔‘‘ صحافیوں نے اس موقعے پر کار مینوفیکچررز، آٹو پارٹس مینوفیکچررز، وینڈرز اور ڈیلرز سے بھی ملاقات کی، جو حکومت کی معاشی پالیسز پر بہت حد تک مطمئن نظر آئے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اگر پالیسز میں تسلسل نہ ہوا، تو پھر ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ اس حوالے سے اُنھوں نے 2016ء میں اعلان کردہ’’ پانچ سالہ آٹو پالیسی‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا، جس کی ہر طرف سے تعریف کی گئی تھی، تاہم اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں دُور نہیں کی جا سکیں۔
ورکشاپ میں شرکت کے لیے آنے والے صحافیوں کے لیے سیر و سیّاحت کا بھی بھرپور پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ سو، نمازِ جمعہ اور مختصر سے آرام کے بعد، دو کوچز اور چند کاروں کے قافلے میں مظفّرآباد سے تقریباً پندرہ میل دُور واقع تفریحی مقام، پٹہکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ بَل کھاتی سٹرکیں دِل تھامنے پر مجبور کر رہی تھیں، تو کئی ایک دوست سڑک کے ساتھ ساتھ پہاڑوں سے پتھروں کے لڑھکنے اور گہری کھائیوں کے سبب مسلسل زیرِ لب کچھ پڑھتے بھی رہے۔
راستے میں جہلم اور نیلم دریا کو یک جان ہوتے دیکھا، تو آسمان کو چُھوتے پہاڑوں پر بسنے والوں کی ہمّت کو بھی سلام پیش کرتے رہے۔ دریائے نیلم کے کنارے واقع، ہوٹل پہنچے تو شام اپنے پَر پوری طرح پھیلا چکی تھی اور رات دستک دینے ہی کو تھی۔ خُوب ہلّا گلّا رہا، بعض نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے یخ پانی میں ڈوریاں بھی ڈالیں، مگر مچھلیاں اندھیرے کا فائدہ اٹھاگئیں۔ کئی گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد مظفّر آباد لَوٹ آئے۔ تیسرے روز کا اہم پروگرام، پیر چناسی کی پہاڑی چوٹیوں کی سیر تھا، جس کے لیے سبھی مچل رہے تھے۔
پیر چناسی، آزاد کشمیر کا ایک معروف تفریحی مرکز ہے، جہاں مُلک بھر سے ہر سال ہزاروں افراد سیر و سیّاحت کے لیے آتے ہیں۔ مظفّر آباد سے تقریباً 23 کلومیٹر کی دوری پر واقع ساڑھے 9 ہزار فٹ بلند یہ پہاڑی چوٹی، ایک صوفی بزرگ، حضرت سیّد حسین شاہ بخاریؒ المعروف پیر چناسی سے منسوب ہے، جن کا وہاں مزار ہے۔ یہ بزرگ کون تھے؟ اس حوالے سے مختلف روایات ہیں۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ بزرگ، 350 سال قبل بلوچستان سے ہجرت کرکے یہاں آ بسے تھے۔ تاہم کچھ اور روایات کے مطابق، پیر چناسی معروف صوفی بزرگ، مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ کی نسل سے ہیں اور اُن کا روحانی تعلق، حضرت بہاؤ الدّین زکریا ملتانیؒ سے تھا اور وہ اُن ہی کی ہدایت پر وادیٔ کشمیر( مقبوضہ کشمیر) سے اس علاقے میں آئے۔ پہلے مظفّر آباد سے اس پہاڑی چوٹی تک پہنچنا خاصا دشوار گزار تھا، تاہم موجودہ حکومت نے شہر سے عین چوٹی تک بہترین سڑک تعمیر کردی ہے، جس کا افتتاح، وزیر اعظم پاکستان، شاہد خاقان عبّاسی نے رواں برس5 فروری کو کیا تھا۔ اس سڑک پر سفر جہاں خاصا خوش گوار تجربہ تھا، وہیں دِل بھی دھڑکتا رہا۔ ایک طرف آسمان سے سرگوشیوں میں مگن پہاڑ، تو دوسری طرف ہزاروں فٹ گہری کھائیاں۔ کمال تو یہ ہے کہ ان گہری کھائیوں میں لوگ بستے ہیں، تو پہاڑوں پر بھی جگہ جگہ مکانات ہیں۔
ہم چوٹی پر پہنچے، تو کچھ دیر پہلے ہی برف باری ہوئی تھی۔ تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی، مگر پھر بھی سردی محسوس ہورہی تھی۔ ایک میلے کا سا سماں تھا۔ بہت سی فیملیز آئی ہوئی تھیں۔ قریب ہی بچّے اچھل کود کر رہے تھے، تو کچھ نوبیاہتا جوڑے بھی ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینک کر نئی زندگی کی شروعات کو خوش گوار بنا رہے تھے۔ کسی تعلیمی ادارے کی دو کوچز بھی آکر رکیں، جس سے قہقہے لگاتے طلبہ اتر رہے تھے اور دُور فضاؤں میں تین، نہیں چار جی دار جوان تیرتے نظر آئے۔
غالباً گلائیڈنگ کرنے والے یہ شیر دِل جوان، ہماری سرحدوں کے محافظ تھے۔ پیر چناسی کے ایک طرف، پیر سہار ہے، جہاں پیدل ہی جانا پڑتا ہے، تو دوسری طرف نیلم کا خُوب صورت پہاڑی سلسلہ اور وادیٔ کاغان کے پہاڑ، مکڑا کا نظارا بھی ہے۔ اور سامنے، جہاں کا آسمان بھی کچھ سُرخ سُرخ سا لگتا ہے، جنّت کا وہ ٹکڑا ہے، جہاں پون صدی سے ظلم و ستم کے خلاف حریّت و قربانی کی جنگ، معرکۂ حق و باطل جاری ہے۔
پیر چناسی میں کئی دکانیں بھی موجود ہیں، جن سے کھانے پینے کی عام اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔ برف ہو، ٹھنڈ ہو، تو پھر بھلا کس کا دل گرم گرم پکوڑے کھانے کو نہیں چاہے گا، سو، ہم بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ پکوڑے کھانے جا پہنچے۔ ایک، دو پکوڑے کھا تو لیے، مگر پھر کانوں کو ہاتھ لگانے پڑے، کیوں کہ پکوڑے انتہائی ناقص تیل میں تَلے جا رہے تھے۔ اتنے اہم تفریحی مقام پر کھانے پینے کی چیزوں کا ایسا گھٹیا معیار بُری طرح کھٹکتا ہے اور پھر معیار ہی کم نہیں، قیمتوں پر بھی کوئی کنٹرول نہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ یہاں پینے کا پانی ناپید ہے، حکومت کی جانب سے کوئی ایسا انتظام نہیں کہ جس سے سیّاحوں کو پینے کا صاف پانی مل سکے، پھر واش رومز کا بھی کوئی تصوّر نہیں۔ ایک دوست کو رفع احتیاج کی ضرورت پڑی، تو مقامی دکان دار نے کہا’’ جی، جدھر دِل کرے، بیٹھ جائیں، سارا علاقہ ہی واش روم ہے۔‘‘ اسی طرح سیّاحوں کی رہایش کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں ۔
سننے میں آیا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت نے پیر چناسی کو عالمی سیّاحتی مرکز بنانے کے لیے کسی منصوبے کی منظوری دی ہے، جس کے تحت ایک کمپنی ڈیڑھ ارب روپے کی سرمایہ کاری سے پیرچناسی تا جھٹیاں چیئر لفٹ نصب کرے گی، جب کہ فائیو اسٹار ہوٹل، پبلک پارکس وغیرہ بھی تعمیر کیے جائیں گے۔دیکھیے، یہ باتیں، حقیقت کا روپ کب دھارتی ہیں۔ فی الحال تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے؎ کون جیتا ہے تِری زلف کے سر ہونے تک۔