جناب وقار یوسف عظیمی صاحب نے اپنےمضمون ’’اسرائیل، ارجنٹائن میں بننا تھا‘‘میں لکھا ہے کہ عالمی صہیونی تنظیم تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں دراصل فلسطین کے بجائے ارجنٹائن میں اسرائیل نامی صہیونی ریاست قائم کرنا چاہتی تھی مزید یہ کہ1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کے ’’ایک حصے‘‘ پر فلسطینی عوام کو آزاد خودمختار حکومت قائم کرنے کی پیش کش کی، عرب ممالک نے سوویت یونین کے ورغلانے یا کسی اور مصلحت سے اس پیشکش کو مسترد کرکے بہت بڑی تاریخی غلطی کی۔ اس طرح کاموقف رکھنے والے نہ صہیون کا مطلب سمجھتے ہیں نہ صہیونی تنظیم کا، اور نہ وہ یہودیت کی مذہبی تاریخ اور قوم یہود کی جدلی نفسیات کو سمجھتے ہیں۔ارجنٹائن نے اپنا ایک جزیرہ ’’فاک لینڈ‘‘ اسرائیل کے سرپرست اول برطانیہ کو نہیں دیا تھا۔ اور اس کا طیارہ بردار جہاز غرق کرکے اسے تاریخی ہزیمت سے دوچار کیا تھا، وہاں برطانیہ اسرائیل کو پورا ایک ملک کیسے بناکے دے سکتا تھا؟ اس بحث سے قطع نظر سارا مسئلہ یہ ہے کہ قومِ یہود کو تو دراصل مقدس سرزمین چاہئے جہاں انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کو تبدیل کیا، جہاں انہوں نے حضرت اسحٰق و یعقوب و یوسف علیہ السلام کی آسمانی دعوت میں تحریف کی، جہاں انہوں نے حضرت دائود و سلیمان علیہما السلام کی نافرمانی کرکے ان کی بددعا لی، جہاں انہوں نے حضرت زکریا علیہما السلام کو شہید کیا، جہاں انہوں نے حضرت موسیٰ و
عیسیٰ علیہما السلام کو ستایا، اور جہاں انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مقدس مریم پر بہتان لگایا اور ان کے بیٹے کو شہید کرنے کی کوشش کی۔ جناب کالم نگار صاحب کو شاید علم نہیں کہ صہیونی تو نام ہی اس پہاڑ کا ہے جو مقدس شہر میں دور سے اونچا نظر آتا ہے جہاں ہیکل سلیمانی میں مقدس چٹان تھی۔ جہاں تخت دائودی بچھتا تھا اور پہاڑ و پرندے حضرت دائود علیہ السلام کے ساتھ مل کر تسبیح کرتے تھے، لیکن قوم یہود نے یہیں سودخوری اور جوابازی کا بازار گرم کیا، یہیں انبیاء کی نافرمانی کی۔یہیںجادو ٹونے پر پیسے کمائے، یہیں سے عذاب الٰہی کے تحت دو مرتبہ لونڈی غلام بناکر لے جائے گئے۔ اب وہ یہیں اپنے آخری انجام کے لئے آنا چاہتے ہیں، یہیں غرقد نامی درخت ہزاروں کی تعداد میں لگارہے ہیں، ارجنٹینا کے درختوں اور پتھروں کو وہ کس بنیاد پر مقدس سمجھیں گے کہ وہاں جاکر چھپنا چاہیں گے۔اگر اسطرح کے موقف اختیار کئے گئے تو ان مظلوموں کے حق میں بچوں اور نوجوانوں کے چیتھڑے ہوئے جسم دیکھ کر عالمی برادری کے دل میں ذرا سی بھی ہمدردی پیدا ہوئی ہے تو وہ بھی ختم ہوجا ئے گی ۔کالم نگار کایہ بھی کہنا ہےکہ 1948ء میں اقوام متحدہ نے فلسطینی مسلمانوں کو آزاد و خودمختار حکومت قائم کرنے کی پیش کش کی تھی، لیکن فلسطینی مسلمان نہ مانے۔ فلسطینی مسلمانوں کی حکومت تو یہاں پہلے سے قائم تھی، وہ ہزاروں سال سے اس مقدس ورثے کی وراثت کی حفاظت کرتے چلے آئے تھے، اس کی پیش کش انہیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ صرف مطلب یہ تھا کہ اسرائیل کو قدم رکھنے کی جگہ دلوادی جائے، قدم پھیلانے کے ظالمانہ طریقے وہ خود اپنالے گا۔ اس تجویز کو جو دراصل صہیونی حیلہ تھا مان لیا جاتا تو آج پورے فلسطین پر دجالی جھنڈا لہرارہا ہوتا۔کالم نگارکو
شاید معلوم نہیں کہ تابوت سکینہ ارض مقدس سے لے جایا گیا تھا، مقدس چٹان یہیں کے زرد گنبد کے نیچے ہے۔ سرخ بچھڑے کی قربان گاہ یہیں باور کی جاتی ہے۔ تمام انبیائے بنی اسرائیل نے اسی زمین کو سجدوں سے آباد کیا تھا، قوم یہود جیسے اس زمانے میں ان انبیاء کو قتل کرتی رہی، آج اس ورثے کے محافظ یعنی وہ مسلمان جو انبیائے بنی اسرائیل کی اصل دعوت پر قائم ان کے وارث ہیں، آج قوم یہود کو ان محافظوں کا خون منہ کو لگ گیا ہے۔یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ نے قوم یہود پر جس طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ذلت و خواری کی چھاپ لگائی ہے ان کے حامیوں کے لئے بھی اس میں سے بھرپور حصہ رکھا گیا ہے۔ عزت اور نیک نامی صرف اللہ و رسول کے لئے ہے اور ان مسلمانوں کے لئے ہے جو تمام انبیاء کی عزت کرتے اور تمام انبیاء کے معززاور مقدس ورثے کی حفاظت کرتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)