شخصیت کی تعمیر و ترقی کا انحصار صحیح تعلیم وتربیت پر ہے ۔ صحیح تعلیم و تربیت ایسا عنصر ہے جو شخصیت کے بناؤ اور تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ کام بچپن ہی سے ہو تو زیادہ مؤثر اور دیر پا ہوتا ہے ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کی تعمیرمیں صحیح کردار ماں ہی ادا کرسکتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے ۔
بچوں کی تعمیر و ترقی کا سر چشمہ ماں کی گود ہی ہے ، یہیں سے ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتاہے ۔ اس پہلی درسگاہ میں جو کچھ وہ سیکھتے ہیں، اس کی حیثیت پتھر کی لکیر سی ہوتی ہے۔یہ علم ایسا مضبوط اور مستحکم ہوتاہے جو زندگی بھر تازہ رہتاہے۔
ابتدائی زندگی کے نقوش خواہ مسرت کے ہوں یا ملال کے ہمیشہ گہرے ہوتے ہیں ، یہی ابتدائی نقوش مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر ماں ابتدا سے ہی خوش مزاجی اور اُمید کو اپنے بچوں کی شخصیت کا حصہ بنادے تو وہ بچے بڑے ہوکر کبھی نااُمید نہیں ہوتے، کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ ایسے میں ماں کا ذمہ دارانہ کردار بچے کے مستقبل کو سنوار بھی سکتا ہے اور اگروہی ماںغافل ہوجائے تو بچوں کا مستقبل تباہ بھی ہوسکتا ہے۔
نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا، تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں اچھی اولاد دوں گا۔علامہ اقبال کہتے ہیں، عورت اگر علم و ادب کی کوئی بڑی خدمت انجام نہ دے سکے تب بھی صرف اس کی ممتا ہی قابل قدر ہے، جس کے طفیل مشاہیرِ عالم پروان چڑھتے ہیں ۔ماں کی شفقت کو وہ پیغمبر کی شفقت کے قریب قراردیتے ہیں، کیونکہ اس سے اقوام کی کردارسازی ہوتی ہے ۔
بچے کی تربیت و کردار سازی میں ابتدائی چند سال بہت زیادہ اہم ہوتے ہیں۔بچپن کا ماحول بچے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتاہے اور بچہ اسی ماحول کے زیر اثر زندگی گزارتا ہے۔شروع کے چند سال، بچے کو والدین اور خاص طور پر ماں کی بھرپور توجہ اور شفقت نہ ملے اور باہم تعلق پید انہ ہوتو بچے کے اندر غیر معمولی جارحانہ پن اورمنفی انداز فکر پید اہو سکتا ہے۔ماں کی قربت میں بچے کے لیے ایک خاص قدرتی کشش ہوتی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی ۔
بچہ کچھ اور بڑا ہو جائے تو یہ عمر ایک جستجو کی عمر ہوتی ہے۔ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ پہلے ہی سیکھ اور سمجھ چکا ہوتا ہے۔ اس وقت تک اس کا لا شعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے، وہ اب اس کا ظہار کرنا چاہتا ہے۔ جسمانی صحت کا خاص خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ وقت ہے، جس میں اس کے تصورات اور مزاج کو ایک رُخ دینے کی ضرورت ہے۔ہر بچہ ایک الگ مزاج کے ساتھ پیدا ہوتاہے۔اسے اس کے مزاج کے مطابق سکھایا جائے تو وہ بہتر سیکھ سکتا ہے۔ بچے کی تربیت،نہ ختم ہونے والی ایک اہم ذمہ داری ہے۔
پراُمید بچے
والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے زندگی سے پرامید رہیں اور زندگی میں سامنے آنے والے چیلنجز سے نمٹیں۔پرامید بچے تعلیم اور کھیل کے میدان میں بھی ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جن کی پرورش سخت، افسردہ اور مایوس ماحول میں ہوتی ہے۔
بچوں کی تعریف کریں
بچوں کو گھر میں ان کی عمر کے مطابق ذمہ داریاں دیں اور جب وہ ذمہ داری پوری کردیں تو ان کی تعریف بھی کریں۔ اس طرح سے وہ ناصرف لفظ ’کامیابی‘ سے روشناس ہوتے ہیں بلکہ انھیں خود سے کام کرنے کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں، جن کی بدولت بچہ زندگی کے بارے میں مثبت سوچ ڈیویلپ کرتا ہے۔
منفی جملے ادا نہ کریں
’ہم یہ کام کبھی نہیں کرپائیں گے‘، ’میرا کام کبھی ختم نہیں ہوتا‘۔ اس طرح کے منفی جملے اور شکایتیں، بچوں کی شخصیت میں مثبت رجحان کو پنپنے نہیں دیتے۔ بچوں کے سامنے شکایتی باتوں اور مالیاتی مسائل پر بات نہ کریں۔ یہ بات کہنے کا بنیادی مقصد یہ نہیں ہے کہ بچوں کے سامنے مسائل زیربحث نہ لائیں۔ تاہم بچوں کے سامنے مسائل کے بجائےان کے حل اور امید کی بات کریں۔
حقیقت پسندانہ بنیں
بچوں کا اعتماد اور ان میں خودی کو بڑھانا ضروری ہے، تاہم یہ بات ذہن میں رہے کہ حقیقت پسندانہ رہیں۔ مثلاً: آپ اپنے بچےکی دوست بنانے کی خصوصیت سے بہت متاثر ہیں اور اسے کہہ دیتے ہیں کہ بیٹا تم اسکول میں پہلی ہی دن دوستیاں بنالوگے۔ اب اگر ایسا نہ ہوسکا تو آپ کے بچے کو اپنی صلاحیتوں پر شک پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس یہ کہیں کہ دوست بنانے میں وقت لگتا ہے، اور جب بھی تم دوست بناؤگے تمہیں بہت مزا آئے گا۔
خوشیاں منائیں
چھوٹے سے چھوٹے مواقع پر بھی خوشیاں منانے کا بندوبست کریں۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے مواقع پر خوشیاں بناکر انھیں یادگار بنانے سے خاندانی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔