بھارتی چیف جسٹس دیپک مشرا کو پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مواخذے کا سامنا ہے۔ جمعہ کو کانگریس سمیت سات اپوزیشن جماعتوں نے مواخذے کی پٹشن نائب صدراور راجیہ سبھا کے چیئرمین وینکیانائڈو کے پاس جمع کروادی۔ پٹشن پر 71ارکان کے دستخط موجود ہیں۔
اگر جسٹس مشرا کے خلاف پٹشن پر کارروائی ہوتی ہے تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو گا۔اس سے پہلے بھارت میں کسی چیف جسٹس کا مواخذہ نہیں ہوا۔ نائب صدر اس پٹشن کو آگے بڑھانے سے قبل قانونی مشاورت کریں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہےکہ یہی واحد طریقہ ہے جس کے تحت پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کی جانب سے عائد کیے جانے والے ’’ سنگین معاملا ت‘‘ کی انکوائری کو یقینی بنا سکتی ہے۔ 12؍ جنوری کو سپریم کورٹ کے چار ججوں جستی چیلمیشور، رنجن گوگوئی، مدن بی لوکوُر اور کوریان جوزف نے حیران کن انداز سے عوامی سطح پر اپنی شکایات کا اظہار کیا اور ان ججوں کو سماعت کیلئے مقدمات دینے کے معاملے میں چیف جسٹس انڈیا دیپک مشرا کے رویے پر سوالات اٹھائے تھے
واضح رہے کہ بھارت کے ججز انکوائری ایکٹ 1968ء کے تحت کسی بھی جج کیخلاف شکایت سامنے آنے پر لوک سبھا کے 100؍ یا راجیہ سبھا کے 50؍ ارکان تحریک پیش کر سکتے ہیں۔ ارکان کی جانب سے تحریک پیش کیے جانے کے بعد، پرزائیڈنگ افسر تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتا ہے جس میں دو ججز ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جج سپریم کورٹ سے تعلق رکھتا ہے۔
اگر شکایت ہائی کورٹ کے جج کیخلاف ہو تو دوسرا جج ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ہوتا ہے۔ اور اگر شکایت سپریم کورٹ کے جج کیخلاف ہو تو دونوں جج سپریم کورٹ کے ہوتے ہیں۔ تیسرا رکن ماہر قانون ہوتا ہے جو شکایت کے حوالے سے مکمل تحقیقات کرتا ہے اور اس بات کا تعین کرتا ہے کہ معاملہ مواخذہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔