• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آگہی کے چراغ

ڈاکٹر شیر شاہ سید

گزشتہ ہفتے آپ نےجاپان، انڈونیشیا،ملائشیا،فلپائن، تھائی لینڈ اور میانمارکی لائبریریوں کے بارے میں پڑھا اس ہفتےمسلم دنیا، امریکا،یورپ، عیسائیوںاور وِلا لائبریریوں کے بارے میں ملاحظہ کیجیے۔

مسلم دُنیا کی لائبریریاں

مسلمانوں کےعروج کے زمانے میں مسلمان سماج میں پڑھنے لکھنے کو اہمیت دی گئی اور علم کو مومن کی میراث قرار دیا گیا۔ جہا ں جہاں مدرسے بنائے گئے وہاں وہاں لائبریریوں کا قیام عمل میں آیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ معزز اور مالدار لوگ اپنی ذاتی لائبریریاں قائم کرتے تھے۔ جہاں دُور دُور سے نایاب اور قیمتی کتابیں خرید خرید کر منگوائی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ غریب لوگ بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنے گھر میں کتابیں رکھتے تھے۔

اُندلس، بغداد، قاہرہ، قسطنطنیہ جیسے شہروں میں مسلمانوں نے عظیم لائبریریاں قائم کی تھیں۔ جہاں سرکاری طور پر لائبریرین، جلد ساز، خطاط، روشنائی بنانے والے کاغذ مہیا کرنے والے اور کتابوں، فرمانوں، دستاویزات کی دیکھ بھال کرنے والے ماہرین کی تقرری کی جاتی تھی۔ مسلمانوں کے سنہری دور میں لائبریریوں میں ترجمے کرنے کے شعبے بنائے گئے۔ 

جہاں مترجم مختلف زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔ ہندوستان اور ایران کی بہت سی کتابوں کا پہلے عربی میں ترجمہ ہوا۔ جس کے بعد ان کا ترجمہ مختلف یورپی زبانوں میں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں عام طور پر کتابیں غریب اور عوام کی دسترس سے باہر نہیں تھیں۔

تاریخ میں ایسی شہادتیں بھی موجود ہیں کہ بہت سی مسلمان خواتین بھی کتابوں سے استفادہ کرتی تھیں اور لڑکیوں کو کتابیں پڑھنے کی آزادی ہوتی تھی۔ مسلم حکمرانوں کا زوال آپس کی لڑائی اور علم دشمنی سے شروع ہوا۔انہیں تعلیم اور کتابوں سے دور کیا گیا، جہاں فاتحین نے مسلمانوں کی لائبریریوں کو تباہ کیا ،وہاں مسلم حکمرانوں نے بھی لائبریری کی سرپرستی بند کر دی۔ اس علم دشمن رویے کی وجہ سے سماج تیزی سے جہالت کے اندھیروں میں کھو گیا۔

امریکا

ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پہلی لائبریری 1600عیسوی میں قائم کی گئی۔ لائبریری کا قیام ان انگریزوں کی وجہ سے عمل میں آیا ،جو امریکا آتے وقت اپنے ساتھ کتابیں بھی لے کر آئے تھے۔ پادری تھامس برے نے امریکا میں 70لائبریریاں قائم کیں تاکہ تعلیم کو عام کیا جا سکے۔ پادری بنجمن فرینکلسن نے 1731ء میں ایک ایسی لائبریری قائم کی، جہاں سے کتابیں کرائے پر لی جا سکتی تھیں۔ امریکا میں 1850 عیسوی میں باضابطہ لائبریریوں کا آغاز عمل میں آیا۔ امریکا کے پہلے امیر ترین شخص اینڈرویو کارنیگی نے اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ لائبریریوں کے قیام میں صرف کیا، انہوں نے 2500لائبریریاں قائم کرنے میں مدد فراہم کی۔ 

امریکا کے بہت سے دولت مند خاندان بھی لائبریریوں کی مدد کرتے ہیں۔اس وقت امریکا میں ایک لاکھ اکیتس ہزار سے زائد لائبریریاں ہیں۔ جہاں ہر طرح کی کتابیں موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لائبریریاں عوام کے لیےمفت سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔جنوبی امریکا کے مختلف ممالک میں لائبریریوں کا قیام اسپین کے حکمرانوں یا عیسائی مشنریوں کے ذریعے عمل میں آیا۔

میکسیکو کے شہر پیوبالا میں 1640ء میں ایک پادری جان یالافوکس کو اسپین کی شاہی حکومت کی طرف سے وائسرائے کا درجہ بھی دیا گیا۔ 1646ء میں انہوں نے پانچ ہزار کتابوں سے جنوبی امریکا کی سب سے پہلی لائبریری کا آغاز کیا۔ 

آگہی کے چراغ

درحقیقت پورے امریکا میں یہ لائبریری ہی پہلی لائبریری کی حیثیت سے قائم کی گئی۔ سائوتھ امریکا کے مختلف ممالک میں گزشتہ کئی سو برس میں کئی چھوٹی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں۔ آج اس علاقے کے کچھ ممالک میں بعض انتہائی اہم لائبریریاں ایسی ہیں جہاں کروڑوں کی تعداد میں کتابیں محفوظ ہیں اور عوام کی دسترس میں ہیں۔

سائوتھ امریکا کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں یہ ہیں کہ پادری ڈی لینڈا نے جب میکسیکو شہر پر قبضہ کیا ،تو کتابوں کا بڑا ذخیرہ جو کوڈیکس کی صورت میں تھا۔ جن میں مایا تہذیب و نسل کی داستانیں قلم بند تھیں کو جلا کر تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ قدیم مایا تہذیب کے دور میں کتابوں اور لائبریریوں کا تصور موجود تھا۔اکیوڈور اوپیرو کے سرحدی علاقے میں کچھ غاروں کا سراغ ملا ہے۔ جہاں قدیم تہذیبوں کے آثار کے ساتھ لوہے پر لکھی ہوئی تحریریں بھی برآمد ہوئی ہیں۔

یورپ

یورپ میں جدید لائبریریوں کا آغاز مسلمانوں کے مدرسوں میں بنے ہوئے کتب خانوں کے طرز پر ہوا،یونان میں اکیڈمی نام کا ادارہ پلے ٹو نے بنایا تھا، جب کہ ارسطو نے بھی ایک ادارہ بنایا تھا، جو لائبریری کی ابتدائی شکل میں تھا۔ یہاں کتابوں کو نہ صرف محفوظ طریقے سے رکھا جاتا ، پڑھا جاتا تھا بلکہ ان کتابوں پر بحث و مباحثہ بھی ہوتا تھا۔ ان اداروں میں تعلیم دینے کا یہ معروف طریقہ تھا۔

ترکی میں پرگیمم لائبریری کی بنیاد 282قبل مسیح میں رکھی گئی۔ اسی طرح سے ترکی میں 221قبل مسیح میں شاہی لائبریری کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یورپ میں ہی ویلا لائبریریوں کا آغاز کیا گیا۔ یونان میں لیوبیولس ویلا لائبریری، ہیڈربن لائبریری اٹلی میں بنائی گئی۔ اٹلی میں ہی سبیرو نے اپنی وِلا لائبریری بنائی تھی۔

یورپ میں پہلی عوامی لائبریری 1444عیسوی میں بنائی گئی۔ اس کا قیام فلورنس اٹلی میں سان مورکو میں عمل میں آیا۔

روسی شاہی خاندان کے کچھ افراد نے اپنی ذاتی لائبریریاں بنائی تھیں، اسی طرح سے دوسرے یورپی ممالک کے بادشاہ بھی کتابوں کا ذوق رکھتے تھے۔ سویڈن اور امریکا کی لائبریریوں نے روس اور دیگر شاہی خاندانوں کی کتابیں خریدی ہیں۔

یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد سماجی اور سائنسی ترقی کی وجہ سے تعلیم کے شعبے میں بڑی تیزی سے ترقی ہوئی، جہاں تعلیمی ادارے بننے شروع ہوئے وہاں لائبریریوں کو فروغ حاصل ہوا۔ پہلے چھوٹی چھوٹی لائبریریاں بنائی گئیں، بعد ازاں بڑی لائبریریاں وجود میں آنا شروع ہوئیں۔ آج پورے یورپ میں لائبریریوں کا جال بچھا ہوا ہے، اسی طرح سے دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی لائبریوں کی ترقی یافتہ شکل وجود میں آچکی ہے۔

آگہی کے چراغ

عیسائی دنیا کی لائبریریاں

عیسائیت کی ابتداء میں مقدس مذہبی تحریروں کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سے طریقے اپنائے گئے اور اس طرح سے عیسائی دنیا میں لائبریریوں کا قیام عمل میں آیا۔ یروشلم میںعیسائی مذہبی رہنمائوں نے لائبریری قائم کی جہاں مقدس کتابوں کے ساتھ دیگر کتابوں کو بھی رکھا گیا تھا۔ یروشلم کی سیزارانی لائبریری اور الیگزینڈریا کی عیسائی لائبریری ان کی مثالیں ہیں۔

پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں روم میں مذہبی حکمرانوں نے لائبریری قائم کی، جہاں مذہبی کتابوں کے علاوہ سرکاری کاغذات کا ریکارڈ بھی رکھا گیا۔ عیسائیوں کی سب سے بڑی لائبری قسطنطنیہ میں شاہی لائبریری کے نام سے بنائی گئی۔ جس کی ابتداء تقریباً ایک لاکھ کتابوں اور کاغذات سے کی گئی۔ بلاشبہ یہ اس زمانے کے علم دوست عیسائیوں کا بڑا کارنامہ تھا۔

یورپ میں یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ہی لائبریریوں کا قیام بھی عمل میں آیا

وِلالائبریریاں

وِلالائبریریوں کا آغاز یونان سے ہوا۔ یہ چھوٹی لائبریری بڑے بڑے وِلامیں بنائی جاتی تھیں، جن سے وِلامیں رہنے والے امیر و کبیر لوگ مستفید ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ یورپ کے بہت سے شہروں میں وِلا لائبریریوں کا فیشن عروج پا گیا۔ یہاں تک کہ وہ امیر لوگ جنہیں کتابوں اور مطالعے سے کوئی خاص دل چسپی نہیںتھی، وہ بھی اپنے وِلا میں لائبریریاں بنایا کرتے تھے۔ 

ان کے انتقال کے بعد ان کی جمع کی ہوئی کتابیں بازار میں فروخت کر دی جاتیں یا کتابوں کے شوقین ان گھروں سے ہی جا کر یہ کتابیں خرید لیتے تھے۔ شاید اس زمانے سے پرانی کتابوں کے بازاروں کا رواج پڑا ، جو آج تک جاری و ساری ہے۔

تازہ ترین