• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان فٹ بال کپ

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو گیس پٹرولیم اور بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ اس صوبے میں شہر اور بستیاں خاصے فاصلے سے آباد ہیں ۔ یہاں پینے کا صاف پانی اسپتال صحت اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولتیں عوام کو میسر نہیں ہیں۔ آمد و رفت کے ذرائع محدود ہیں ۔ لوگ نا مساعد حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن سہولتوں کے فقدان کے باوجود اس خطے نے کھیلوں کی دنیا کو نامور شخصیات دی ہیں جنہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور ملک کیلئے اعزازات بھی جیتے۔ 

بلوچستان کے نوجوان باکسنگ فٹبال اور سائیکلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اولمپکس کامن ویلتھ گیمز ایشین گیمز اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں اس صوبے سے تعلق رکھنے والے باکسرز کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن یہاں کے نوجوان کا پسندیدہ ترین کھیل فٹبال ہے جو صوبے بھر میں سہولتین نہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ کھیلا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں پاکستانی ٹیم میں بلوچستان کے کئی فٹبالرز شامل ہوتے ہیں ۔ان میں کلیم اللہ محمد عیسی جدید خان پٹھان اور دیگر شامل ہیں ۔ قومی فٹبال ٹیم کے سابق کوچ اختر محی الدین بھی اسی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ 

بلوچستان کے نوجوانوں کو قومی فٹبال ٹیم کی قیادت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود یہاں کے بچے اور نوجوان اس سنگلاخ خطے کی سخت پتھریلی زمین پر اپنے جوہردکھاتے ہیں تاہم نوجوانوں کو فٹ بال کے کھیل کی سہولتیں فراہم کرنے اور باصلاحیت فٹبالرز کو قومی کینوس پر روشناس کرانے کا سہرا پی پی ایل کے سر ہے جو گزشتہ تین برسوں سے بلوچستان کپ کامیابی کے ساتھ منعقد کر رہا ہے اور ہر سال اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی ٹیموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس ٹورنامنٹ کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔ بلوچستان کپ کی وجہ سے دُکی اور پنجگور جیسے دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں سے تعلق رکھنے والے با صلاحیت فٹبالرز کو ملکی سطح پر سامنے لانے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ 

اس ٹورنامنٹ کے ذریعے نیا ٹیلنٹ بھی سامنے آتا ہے ۔ملک میں تین سال تک پاکستان فٹبال فیڈریشن پر پابندی کی وجہ سے کھیل کی سرگرمیاں دم توڑ گئی تھیں ان حالات میں 2016 ء میں پی پی ایل نے پہلا بلوچستان فٹبال کرانے کا فیصلہ کیا تھا جو سالانہ ایونٹ بن گیا ہے تاہم اب پی ایف ایف بحال ہو گئی ہے اور ملک میں فٹبال کی سرگرمیاں پھر شروع ہو رہی ہیں اور تیسرا بلوچستان کپ ان سرگرمیوں کو تیر تر کرنے میں پہلا قدم ہے ۔ 

کوئٹہ کے صادق شہید فٹبال اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے امن و آشتی کے استعارے اس تیسرے بلوچستان فٹبال کپ کے فائنل میں حیران کن طور پر ایک ایسی نووارد ٹیم چیمپئن کے روپ میں سامنے آئی جس کے کھلاڑیوں کی اکثریت مزدوروں کانکنوں اور لوڈرز پر مشتمل ہے۔ یہ ٹیم بلوچستان کے دور دراز ضلع دُکی سے تعلق رکھتی ہے جس نے پہلی بار ٹورنامنٹ میں حصہ لیا اور فیورٹ ڈی ایف اے کوئٹہ کو زیر کرکے چیمپئن کی حیثیت سے گراونڈ سے باہر گئی ۔ باصلاحیت فٹبالرز پر مشتمل اس ٹیم نے پورے ٹورنامنٹ میں شاندار کھیل پیش کیا اور شائقین سے داد وصول کی ۔ دُکی کو کچھ عرصے قبل ہی صوبے کے 33 ویں ضلع کا درجہ ملا ہے ۔ 

ٹیم کے کوچ نے مختصر وقت میں فتح گر کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تشکیل دی ۔ دُکی کو چیمپئن بنانے میں اس کے کھلاڑیوں کا جذبہ لگن اور حوصلہ کار فرما تھا جنہوں نے محدود وسائل اور کم تربیتی سہولتوں کے باوجود ٹورنامنٹ میں اپنے سے بہتر کئی ٹیموں کو زیر کرکے اپ سیٹ کیے ۔ ٹورنامنٹ میں کئی کھلاڑیوں نے متاثر کن کارکردگی پیش کی جن کو انفرادی انعامات اور شیلڈز سے نوازا گیا ۔

 ڈی ایف اے کوئٹہ کے جاوید اختر کو بہترین گول کیپر قرار دیاگبا جبکہ فاتح ٹیم دُکی کے شمس الدین بہترین ڈیفنڈر کا اعزاز لے اڑے۔ بہترین مڈفیلڈرکا اعزاز ڈی ایف اے چمن کے عصمت اللہ کو ملا۔ پنجگور کے عبداللہ بہترین فارورڈ رہے ۔ 

ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول ڈی ایف اے کوئٹہ کے کپتان نذیرخان نے کیے۔ 2018 ء کی چیمپئن ٹیم دُکی کے عجب خان ٹورنامنٹ کے بہترین فٹبالر قرار پائے ۔ بلوچستان فٹبال کپ پاکستان کا سب سے بڑا اسپانسرڈ ٹورنامنٹ ہے جس میں ٹیموں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بار 38 ٹیموں نے حصہ لیا ۔ 80 میچز کھیلے گئے جن میں 700 سے زائد کھلاڑیوں نے اپنے اپنے علاقے کی نمائندگی کرکے صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ۔ 

اس ٹورنامنٹ کے کامیاب انعقاد میں حکومت بلوچستان ‘پاکستان فٹبال فیڈریشن ‘بلوچستان فٹبال ایسوسی ایشن اور دیگر کا تعاون بھی شامل رہا ، پی پی ایل فٹبال ٹورنامنٹ کیلئے بلوچستان کو منتخب کرنے کی وجہ اس صوبے کے ساتھ ادارے کی طویل وابستگی ہے جس کا آغاز 1956 ء میں سوئی گیس فیلڈ کے قیام سے ہوا تھا ۔ 

اس ٹورنامنٹ کے ذریعے صوبے کے فٹبال گرائونڈز میں رونقیں بحال ہو رہی ہیں ۔ضلع دُکی کی ٹیم میں شامل کھلاڑ ی اپنے کام کاج کے بعد مختلف کلبوں سے کھیلتے ہیں اور ان کا تعلق ضلع کے سات رجسٹرڈ کلبوں سے ہے ۔ پی پی ایل فٹبال ٹورنامنٹ سے قبل انہیں یکجا کر کے ڈی ایف اے کی ٹیم بنائی گئی تھی۔ 

ٹیم کے کوچ میاں یار محمد کے مطابق ان کھلاڑیوں کیلئے یہ ٹورنامنٹ بڑا چیلنج تھا کیونکہ وہ یکسر مختلف ماحول میں اپنے سے بہتر تربیت یافتہ کھلاڑیوں کے مد مقابل تھے۔ ان کا کہنا تھا اس کامیاب پر یقین نہیں آرہا کہ کہ مزدور لوڈر اور کانکن بھی چیمپئن بن سکتے ہیں۔ 

اس کامیابی سے ضلع دُکی کو نئی شناخت مل گئی ہے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں نے صادق شہید اسٹیڈیم جیسے گراونڈ کبھی پہلے نہیں دیکھے تھے اور نہ کبھی شائقین کی اتنی بڑی تعداد کے سامنے وہ میچ کھیلے تھے یہ ان کے لیے نیا تجربہ تھا ۔ اس کامبابی سے کھلاڑیوں کو مالی فائدہ ہوگا اور اس کے ساتھ ان میں سے کئی باصلاحیت کھلاڑیووں کو آگے بڑھنے کے مواقع میسر آئیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین