ندیم نبی قائم خانی،سامارو
ضلع عمرکوٹ اور سامارو سمیت اس کی دیگر تحصیلوں کے متعددمیڈیکل اسٹورز پر نان ملٹی نیشنل اورجعلی ادویات کا گھناؤنا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوچکی ہیں لیکن نہ تو میڈیکل اسٹورز اور نہ ہی جعلی دوا سازکمپنیوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی ہے۔
اس کاروبار کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ شہر کے میڈیکل اسٹوروں پر جانوروں کے علاج اور بھینسوں کے دودھ نکالنے کے لئے استعمال ہونے والے انجکشن سمیت کئی ادویہ کی فروخت پرصوبائی محکمہ صحت نے پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن مویشی اسپتالوں کے علاوہ عام میڈیکل اسٹوروں پر عام دستیاب ہیںجب کہ ڈاکٹری نسخےکے بغیرمنشیات کے عادی افراد کو نشہ آور گولیاں اورانجکشنز کی فروخت آزادانہ طور پر ہورہی ہے۔
چند روپوں کی لالچ میں فروخت کرکے انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں ۔ ضلع عمرکوٹ کے قصبات و شہروں چھور ، ڈھورونارو، پتھورو، شادی پلی، ساماروکنری،نبی سر،ٹالہی سمیت دیہی علاقوںمیں قائم چھوٹے بڑے میڈیکل اسٹوروں کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات اور انجکشن فروخت کرنے کے بجائے ملک کے مختلف شہروں کراچی حیدرآباد لاہور راولپنڈی میں قائم جعلی کمپنیوں کی ادویہ فروخت کررہے ہیں ضلع بھر میں جعلی اور نان ملٹی نیشن کمپنیوں کی ادویات کے علاوہ زائداالمیعاددوائیں فروخت کررہے ہیں، جن کے استعمال سے ہروقت انسانی جانوں کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ضلع کے مختلف پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں پر جعلی ادویات اور انجکشن کے استعمال سے کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے لیکن بااثر افرادکی سرپرستی کی وجہ ڈاکٹر اور میڈیکا اسٹور مالکان قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق جعلی کمپنیوں کے مالکان، اپنے سیلز ایجنٹس کے توسط سےجعلی ادویات کی پروموشن کے لیے اتائی و مستند ڈاکٹروں کو پرکشش مراعات و ترغیبات دیتے ہیں جن میں غیر ممالک کے دورے عمرے کے ٹکٹ اوربعض اوقات قیمتی کاریں بھی تحفے میں دی جاتی ہیں۔ مذکورہ معالجین لالچ کا شکار ہوکر سرکاری و غیرسرکاری اسپتالوں اور شفاخانوں میں علاج کی غرض سے آنے والے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ ان جعلی کمپنیوں کی دوائیں لکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مریض بجائے صحت یاب ہونے کی بجائے راہی ملک عدم ہوجاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ دوسالوں سے عمر کوٹ میں ڈرگ کنٹرولر کی اسامی خالی پڑی ہے اور محکمے کا تمام نظم و نسق کلرک کے پاس ہے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ضلع عمرکوٹ کے شہروں وقصبات میں قائم میڈیکل اسٹورز پر گزشتہ کئی سالوں سے جعلی مضر صحت اور زائددالمیعاد دواؤں کی فروخت کی شکایات کے باوجود محکمہ صحت کی ٹیموں کی جانب سے چھاپے نہیں مارے گئے۔
ذرائع کے مطابق میڈیکل اسٹورز مالکان ہر ماہ باقاعدگی سےایک خطیر رقم محکمہ صحت و ڈرگ انسپکٹر کے دفتر میں پہنچاتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ رقم دیگرذمہ داران کو پہنچائی جاتی ہے۔ سندھ سمیت ملک کےمضافاتی علاقوں کے لاکھوں افراد ناقص ادویات کے استعمال کی وجہ سے مختلف النوع بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق جعلی ادویات کے استعمال سے ملک کا زیادہ تر افرادبلڈ پریشراور شوگر کے مریض بن چکے ہیں۔اگر محکمہ صحت کی جانب سے اس کاروبار کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو جعلی دواؤں کے استعمال سے مزید اموات واقع ہوسکتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے جعلی ادویہ ساز کمپنیوں ، ان کی کھپت میں معاونت کرنے والے میڈیکل اسٹورز اور ڈاکٹروں کے کلینکس پر چھاپے مارے جائیں اور مذکورہ ادویات برآمد کرکےسینٹرل ڈرگ لیبارٹری سے ان کے تجزیئے کرواکے ، اس کاروبار میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارر وائی کی جائے۔