• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی ممالک میں شہریت حاصل کرنے سے زیادہ مشکل کام ڈرائیونگ لائسنس کا حصول ہے ۔لائسنس کے لئے پہلے تیس سوالات کا ایک پرچہ حل کرنا پڑتا ہے جس میں تین غلطیوں کی گنجائش ہو تی ہے یعنی ستائیس جوابات ٹھیک ہونے پر آپ اُس پرچے میں کامیاب ہوتے ہیں ، پھر ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا دوسرا مرحلہ ’’ پریکٹیکل ‘‘ شروع ہوتا ہے جس میں کسی ڈرائیونگ اسکول سے باقاعدہ کلاسز لی جاتی ہیں اور پھر جب کلاس دینے والا اُستاد یہ یقین کر لے کہ اب آپ ڈرائیونگ میں ہنر مند ہو گئے ہیں تو اُس کے بعد مقامی لائسنس برانچ میں ایک درخواست دے کر پریکٹیکل امتحان کے لئے وقت لیا جاتا ہے ، ایک پولیس انسپکٹر مقررہ دن اور وقت پر آپ کا امتحان لینے پہنچ جاتا ہے ، دو اسٹیرنگ والی کار میں پولیس انسپکٹر ، آپ کا استاد اور آپ بیٹھتے ہیں اور مقررہ راستوں پر آپ ڈرائیو کرتے ہوئے محو سفر ہو جاتے ہیں ، فرنٹ سیٹ پر اُستاد اور پچھلی سیٹ پر انسپکٹر بیٹھا ہوتا ہے جو آپ کو دائیں ، بائیں اور سیدھا چلنے کا کہتا ہے ، پھر وہ سڑک کنارے کار کو پارک کرنے کا کہتا ہے ، یہ سارا امتحان وہاں کی مقامی زبان میں لیا جاتا ہے یعنی ڈرائیونگ کی تھیوری اور پریکٹیکل کے امتحانات پاس کرنے کے لئے آپ کو مقامی زبان میں عبور حاصل ہونا نہایت ضروری امر ہے ، تھیوری کا امتحان مقامی زبا ن کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی دیا جا سکتا ہے لیکن پریکٹیکل مقامی زبان میں ہی پاس کرنا ہوتا ہے ،دونوں امتحانات سے پہلے میڈیکل کرانا ہوتا ہے تاکہ پتا چلے کہ آپ کی نظر اور اعضا درست کام کرتے ہیں ، داخلہ فیس ، میڈیکل فیس اور پھر پریکٹیکل فیس ادا کرنے پر بہت سے اخراجات ہوتے ہیں ،پاکستانی کمیونٹی کئی بار تھیوری میں اور بہت بار پریکٹیکل میں فیل ہوجاتی ہے جس سے یہ اخراجات بڑھتے جاتے ہیں ، آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ سب کچھ میں کیوں لکھ رہا ہے یا اس تحریر کے ذریعے میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ؟ میں اس تحریر سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یورپی ممالک میں لائسنس کا حصول اس لئے انتہائی دشوار ہے کہ وہاں کی حکومت اور قوانین انسانی جان کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں ، جب تک وہاں کے قانونی ادارے یہ تحقیق اور یقین نہ کر لیں کہ امتحان دینے والوں کو ڈرائیونگ میں مہارت ہو چکی ہے ۔یورپی معاشرے میں انسانی زندگی کی کتنی قدر و منزلت ہے اس بات کا اندازہ صرف ڈرائیونگ لائسنس کے حصول سے ہی نہیں بلکہ وہاں سوشل ویلفیئر ، اسپتالوں ، رفاحی اداروں اور انسانوں کو محفوظ بنانے کے لئے بنائی جانے والی حکومتی پالیسیوں کو دیکھ کر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ یورپی ممالک میں لائسنس کے حصول میں دشواری کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہاں کی سڑکوں پر رش نہیں ہوتا ، اُن حکومتوں کو آئے دن سڑکیں بنانی پڑتی ہیں اور نہ انہیں سوئی گیس ، بجلی یا کسی سیوریج کے لئے اُکھاڑنا پڑتا ہے ۔اسپین سے پاکستان میں مجھے آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو ہے اور ایک ماہ سے میں لاہور میں مقیم ہوں ، یہاں علامہ اقبال ٹاؤن میں رہائش رکھی ہے اور روزانہ نہر کے راستے مال روڈ اور وہاں سے ڈیوس روڈ جنگ کے آفس میں پہنچتا ہوں ،مال روڈ سے اگر سیکرٹریٹ کی طرف جانا ہو وہاں سے داتا صاحب ، یا شاہدرہ جانا مقصود ہو تو تمام راستے ٹریفک سے ’’ جام ‘‘ ہوتے ہیں ، اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور شہر کے تمام راستے اور سڑکیں ٹریفک سے جام رہتی ہیں ۔ لاہور میں ہوئی اُکھاڑ پچھاڑ سے جہاں شہر کی خوبصورتی ختم ہو ئی ہے وہاں گرد و غبار نے یہاں مختلف بیماریوں کو بھی جنم دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور محکمہ مواصلات سڑکیں ، پل اور انڈر بائی پاس بنانے پر پر زور دیتے ہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ اس طرح کبھی بھی لاہور شہر کا رش کم نہیں ہوگا
، آج سے کچھ عرصہ قبل ایک کالم میں لکھا تھا کہ لاہور کا رش کم کرنے کیلئے لاہور کے قریبی شہروں میں ہائی کورٹ بینچ، میڈیکل کالجز ، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیز بنائی جائیں تاکہ اُن شہروں کے باسیوں کو اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے لاہور نہ آنا پڑے ، لاہور کو تاریخی شہر رہنے دیا جائے ، میرے اُس کالم پر مجھے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے ایک ای میل موصول ہوئی تھی کہ آپ نے بہت اچھے مشورے دیئے ہیں ہم آپ کے بہت مشکور ہیں وغیرہ وغیرہ مگر میرے حکومت کو دیئے گئے مشوروں پر آج تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ میں دوبارہ سے حکومتی اداروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بجائے لاہور کے تاریخی ورثہ اوراُس کی خوبصورتی ختم کرنے کے ڈرائیونگ لائسنس کا حصول مشکل بنائیں ، ٹریفک اور دوسری پولیس کو اختیارات دیں اور پولیس کے کاموں میں صوبہ خیبر پختون خوا کی طرح دخل اندازی نہ کریں ، پولیس پر کسی قسم کا سیاسی دباؤ پیدا نہ کریں ، میرے ناقص اندازے کے مطابق اس وقت پورے پاکستان سمیت لاہور میں ٹرک ، بس ، رکشہ ، کار ، چنگ چی ، موٹر سائیکل اور کسی بھی قسم کی ہیوی ڈرائیونگ کے لئے 80 فیصد پاکستانی لائسنس استعمال نہیں کرتے ، جس کا جہاں سے جی چاہتا ہے وہ وہیں سے راستہ بنا لیتا ہے ، جہاں یو ٹرن منع ہو وہاں سے یو ٹرن کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے ،پاکستان کے کسی فرد کو پولیس کے کسی افسر کا کوئی ڈر نہیں اُس کی وجہ یہی ہے کہ پنجاب پولیس پر سیاسی دباؤ ہے ، اگر کسی کا لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے چالان کر دیا جائے تو چالان آفس ، مقامی ایم پی اے کے ٹیلی فون یاکسی بیورو کریٹ کے تعارف سے معاف کروا لیا جاتا ہے ، پنجاب حکومت کو چاہئے کہ وہ بغیر لائسنس کسی بھی گاڑی چلانے والے کو گرفتار کرے اور جیل کی سزا دیئے جانے کا قانون لاگو کرے ، ہر قسم کی گاڑیوں کا چیک اپ کروایا جائے تاکہ حادثے کا باعث بننے والی گاڑیاں سڑکوں پر نہ جا سکیں ، 18سال سے کم عمر افراد کو ڈرائیونگ نہ کرنے دی جائے اس طرح کے قانون بنا کر ہم لاہور اور اس جیسے بہت سے تاریخی ورثوں کو محفوظ اور گرد و غبار سے پاک ماڈل سٹی بنا سکتے ہیں ، اب دیکھنا یہ ہے کہ لائسنس نہ ہونے پر جیل کی سزا کا قانون بنتا ہے یا مجھے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ سے دوبارہ سے شاباش کی ای میل کی جاتی ہے کہ بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں پاکستانی عوام کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کے بارے میں مطلع کیا ۔ویسے لاہور کو گرد آلود اور توڑ پھوڑ کا شکار کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے کراچی کو نیو یارک بنانے کا اعلان کیا ہے ، لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ کراچی پر رحم فرمایئے گا کیونکہ وہاں تو پہلے ہی بہت رش ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین