عکاسی: محمد اسرائیل انصاری
سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، جہاں پورے ملک میں موسم خوش گوار اور ٹھنڈا ہو رہا ہے، وہیں سندھ کے باسی ٹھنڈی ہواؤں کے لیے ترس رہے ہیں۔گزشتہ دنوں جب ہم کراچی کے ایک مقامی ہوٹل پہنچے تو، داخل ہوتے ہی، گرمی کے باوجود ایک خوش گوار احساس ہوا، ایسا لگ رہا تھا، کسی ہوٹل نہیں بلکہ اندرون سندھ کے کسی ساحل پہ پہنچ گئے ہوں، جہاںمقامی افراد کے لیے میلہ لگایا گیا ہو۔ کہنے کے لیے تو ہوٹل میں روزانہ ہی ملکی و غیر ملکی افراد کا رش دیکھنے میں آتا ہے، لیکن ا س روز جدید سہولتوں سے مزین وہ جگہ مچھیروں کی بستی کا منظر پیش کر رہی تھی، جہاں ان کا کوئی تہوار چل رہا ہو۔ جیسے جیسے گارڈن ایریا کی طرف بڑھتے گئے، سندھی لوک موسیقی کی آواز بڑھتی گئی۔ہر سُو ہنستے ، کھیلتے ، بچے، مسکراتی آنکھیں، میلے ، موسیقی ،روایتی رقص سے لطف اندوز ہوتے لوگ نظر آرہے تھے، ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ میلہ گھومنے کی شروعات کہاں سے کریں ،کہ اچانک ہماری اور وہاں موجود دیگر افراد بالخصوص نوجوانوں کی توجہ لیاری سے آئے ہوئے چند لوک فن کاروں نے اپنی جانب مبذول کروالی، وہ بلوچی رقص ’’لیوا‘‘ کر رہے تھے،بعد ازاں ماہی گیروں کا روایتی رقص اور مٹکہ ڈانس بھی پیش کیا گیا۔ جس کمالِ فن کا مظاہرہ ،وہ کر رہے تھے، وہ قابل دید تھا۔ اس سے قبل کہ ان کا رقص ختم ہوتا سامنے ہی ایک لڑکی کرسی پہ مجسمہ بنی بیٹھی نظر آئی، ذرا غور کیا، تو معلوم ہوا کہ ایک فن کار اس کا تصویری خاکہ بنا رہا تھا، اس لیے کچھ دیر تک وہ ہِل نہیں سکتی تھی۔دوسری جانب بچے فیس پینٹنگ کرانے میں مشغول تھے۔ہر طرف گہما گہمی تھی، بے فکری، سکون اور خوشی ہر ایک کے چہرے سے عیاں تھی۔ یہ احوال ہے، دوسرے کراچی تین روزہ’’ سی فیسٹیول ‘‘کا جس کا انعقاد محکمۂ ثقافت ، سیاحت ونوادرات کی جانب سے کیا گیا۔
فیسٹیول منعقدکرانے کا مقصد کراچی کے عوام کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ کے ساحلی علاقوں کی ثقافت کو اُجاگر کرنا، سمندری علاقوں کے لوگوں کی زندگی ان کے ریتی رواج کو تقویت دینا، عام لوگوں تک ان کی زندگی کے تمام ثقافتی رنگ پیش کرناتھا۔ فیسٹیول کا افتتاح 19اپریل بروز جمعرات کو وزیر ثقافت سیاحت و نوادرات سردار علی شاہ نے پیپلز پارٹی کلچر ونگ سندھ کے صدر قاسم سومرو، سیکریٹری ثقافت اکبر لغاری کے ہمراہ کیا۔ اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ سمندر کراچی کی پہچان ہے،جو تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ساحل سمندر یا دریائے سندھ کے کنارے رہنے والوں کی زندگی سے بھی شہروں میں رہنے والوں کی آشنائی ہونی چاہیے، یہ بھی زندگی کا ایک رُخ ہے ،جو عام لوگوں سے چھپا ہوا ہے ۔ ان لوگوں کی خوشی غمی، رہن سہن ، کھانے پینے سمیت ان کا لباس دیگر علاقوں سے قطعی مختلف اور منفرد ہے۔ ہماری کوشش ہے کے ان کی زندگی میں جھانک کر دیکھیں اور ان کے ہنرمندوں کی مدد کریں اور ان کے فن کو آگے لے کر چلیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ بھر میں رہنے والے ہنرمندوں کو منظر عام پر لائیں ،انہیں ان کا جائز حق دلائیں اور ان کے فن کو آگے لے کر چلیں ۔
اس سے نہ صرف اُن ہنرمندوں کے معاشی حالات بہتر ہوں گے، بلکہ سندھ کی ثقافت کو بھی فروغ ملے گا۔‘‘ ویسے تو شہر میں دیگر مقامات پر بھی میلے لگتے رہتے ہیں ، لیکن اس میلے کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں شہریوں کے لیے مفت کشتی کی سیر کا بھی بند وبست کیا گیا تھا، مہنگائی کے اس دور میں جہاں ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، وہیں، کشتی میں مفت سیر سے شہری بالخصوص بچے خوب لطف اندوز ہوئے۔کشتی میں سیر کے دوران کوئی سیلفی لیتا نظر آیا، تو کوئی ڈوبتے ہوئے سورج کے حسین منظر کو کیمرے کی ٓانکھ سے محفوظ کر رہا تھا، جب کہ بچے ان تمام باتوں سے بے نیاز بس کشتی کا سفر خوشی خوشی انجوائے کر رہے تھے۔ میلے میں ساحلی علاقوں کے لوگوں کے ہاتھوں سے بنی ہوئی مختلف ثقافتی اور روایتی اشیاء رکھی گئیں، جن میں شہریوں نے انتہائی دل چسپی لی۔
ایک اسٹال پر بیٹھے،ہالا سے آئے ہوئے، ہنر مند ریحان چانڈیو نے بتایا کہ کھلونوں سے لے کر گھریلو سجاوٹی اشیاء تک ہر چیز ہم ہاتھ سے بنی ہوئی ہیں، یہ ہمارا خاندانی کام ہے ، ہمیں یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، ‘‘ تھوڑا اور آگے بڑھے تو نظر موتیوں کی مالا اور سیپیوں سے بنی ہوئی اشیاء پر پڑی ، اس اسٹال پر بیٹھے ہوئے منظور علی نے بتایا کہ میں نے اور میری بیوی نےیہ تمام چیزیں ہاتھ سے بنائی ہیں، ہم شکار پور سے آئے ہیں، یہاں آکر بہت اچھا لگ رہا ہے، کئی لوگوں نے ہمارے اسٹال سے خریداری کی ہے، اس طرح کے میلوں سے ہمارا بہت فائدہ ہوگا۔‘‘کشتی کی سواری سے محظوظ ہونے والی ایک بچی منال خان کا کہنا تھا کہ مجھے یہاں آکربہت مزا آرہا ہے،میں نے میجک شو بھی دیکھا اور کشتی میں سیر بھی کی۔‘‘موسیقی سے محظوظ ہوتی ہوئی ایک گھریلو خاتون رضیہ خان نے بتایا کہ ’’میں اپنی بہن اور بچوں کے ساتھ یہاں آئی ہوں، اس طرح کے پروگرام ہوتے رہنے چاہییں، روز مرہ کے کام اور پریشانیوں سے دماغ الجھاؤ کا شکار ہوجاتا ہے، اس طرح کے ایونٹ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوتے ہیں، گزشتہ چند برسوں سے شہر کے حالات اتنے خراب تھے کہ باہر نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا، لیکن اب ہم بے فکر ہو کر باہر نکلتے ہیں ۔‘‘میلے میں بچوں سمیت تمام لوگوں نے پاکستان کے طویل القامت شخص نصیر سومرو کو اپنے درمیان پاکرانتہائی خوشی کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ خوب سیلفیاں بنوائیں۔میلے میں لگائے گئے اسٹالز پر مچھیروں کے کھانے پینے اور ہاتھ سے بنے ہوئی اشیاء رکھی گئی تھیں، جن میں سینگار، شوپیز دست کاری کے نمونہ اور دیگر اشیاء شامل تھیں۔
پہلے روز شام میں، محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا،جس میں طفیل سنجرانی، فشر ڈانس گروپ پی این سی، اویس جمن، شاہدہ پروین، مارول گروپ، ریشما پروین، خدا بخش کچھی، شاہین وہاب، ستار ، قادر بخش مٹھو، قادر بخش لاسی گروپ لیوا جب کہ سائینداد فقیر گروپ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔فیسٹیول کے اختتامی روزپاکستان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ فن کار، حدیقہ کیانی اور شیما کرمانی نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا،شرکاء اپنے پسندیدہ فن کاروں کواپنے درمیان پاکر بے حد خوش نظر آئے۔ وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام جہاں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، وہیں اس افرا تفری کے دور میںشہر یوں کو بھی سکون کےکچھ لمحات میسر آجاتے ہیں۔
جھلکیاں