گلزار محمد خان
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے سینٹ انتخابات میں ووٹ بیچنے والے اپنے20ارکان کیخلاف کارروائی اور ان کو شوکاز نوٹس جاری کرکے 15دنوں میں جواب طلب کئے جانے کے بعد صورتحال انتہائی تیزی کیساتھ تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے،18اپریل کو بنی گالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کا دعویٰ تھا کہ مکمل چھان بین کے بعد ہی کارروائی کی گئی ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ کسی بے گناہ کا نام نہ آئے لیکن تحریک انصاف کی اپنے ارکان کیخلاف کارروائی اس وقت مشکوک نظر آنے لگی جب متاثرہ ممبران نے میڈیا کے سامنے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اپنی بے گناہی کا اظہار شروع کردیا جبکہ یہ سوالات بھی اٹھائے جانے لگے کہ اگر اراکین کیخلاف انکوائری مکمل تھی اور ان کیخلاف تمام تر ثبوت موجود تھے تو پھر انہیں شوکاز نوٹس کیوں جاری کئے گئے؟ پارٹی کو چاہیے تھا کہ ان کو نکال باہر کردیتی اور عمران خان کے دعویٰ کے مطابق ان کے گھروں کے باہر دھرنے دے کر ان کے کیس نیب کو بھجوائے جاتے لیکن اگر انکوائری بھی نامکمل تھی اور وضاحت کیلئے شوکاز نوٹس ہی جاری کرنے تھے تو پھر ان ارکان کے نام میڈیا کو دینے کا کیا جواز بنتا تھا کیونکہ اس وقت جس تیزی کیساتھ متاثرہ اراکین اسمبلی اپنی صفائی پیش کررہے ہیں اس کے بعد پارٹی کی مرکزی قیادت بھی پریشان نظر آنے لگی ہے اگرچہ تحریک انصاف کا یہ فیصلہ جرأت مندانہ ہے کیونکہ ملک کی تاریخ میں آج تک کسی سیاسی جماعت نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے ممبران کیخلاف کبھی کارروائی نہیں کی لیکن اب یہ کہا جانے لگا کہ صوبائی قیادت نے مرکزی قیادت کو دھوکہ میں رکھ کر بعض منظور نظر ارکان کو بچانے کیلئے کچھ ارکان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دلوائی ‘بنیادی طور پر جن ارکان کیخلاف کارروائی ہوئی ہے ان میں اکثریت طویل عرصہ سے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کیخلاف تھے گویا ایک ایسے مرحلے پر جب الیکشن کی آمد آمد ہے اس فیصلہ سے2مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ایک تو پرویز خٹک نے اپنے مخالفین پر الیکشن کے دروازے بند کردئیے ‘دوسرا پارٹی اس اقدام کو ملک بھر میں انتخابی سٹنٹ کے طور پر استعمال کریگی ، عمران خان کے اس فیصلے کی کمزوریوں کی وجہ سے ہی مخالف سیاسی رہنماؤں نے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ تحریک انصاف کا اقدام صرف انتخابی سٹنٹ ہے اور اس کے ذریعے اپنی پانچ سالہ بدترین حکومتی کارکردگی چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، دوسری طرف یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ جن ممبران پر الزامات لگا کر فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں ایک صوبائی مشیر‘ ایک معاون خصوصی اور نصف درجن پارلیمانی سیکرٹری ہیں مگر پارٹی اور صوبائی حکومت نے ان میں سے کسی ممبر کو بھی سرکاری عہدے سے فارغ نہیں کیا، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شوکاز کا جواب ملنے کے بعد بعض ممبران کو کلیئر قرار دیا جائیگا اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض ممبران نے ابھی تک اپنا لب و لہجہ قدرے نرم رکھا ہوا ہے ،شاید ان کو یہ امید ہے کہ ان کی وضاحت قبول کرلی جائیگی لیکن یہ بھی ایک عجیب تماشا ہے کہ اس وقت 20ارکان کی حمایت سے محرومی کے بعد صوبائی حکومت اسمبلی میں اکثریت کھو چکی ہے اور اگر دیکھا جائے تو غالباً پہلی مرتبہ ملک میں اقلیتی حکومت قائم ہے، تحریک انصاف کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ اس کا واسطہ انتہائی کمزور اپوزیشن کے ساتھ پڑا کیونکہ صوبائی حکومت کیلئے جب بھی کوئی مشکل پیدا کرنے کا موقع آتا ہے تو اپوزیشن ٹف ٹائم دینے کی بجائے خاموشی اختیار کرلیتی ہے اگر صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور دوسری جماعتوں کے پارلیمانی قائدین چاہتے تو موجودہ مرحلے پر حکومت کا دھڑن تختہ کرنا ان کیلئے کوئی مشکل امر نہ تھا مگر اتنے دن گزرنے کے بعد بھی تاحال اپوزیشن اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن پر متفق نہ ہوسکی، اس وقت جب تحریک انصاف کے شوکاز نوٹس کے بعد20ارکان کا اشتعال پورے عروج پر ہے اگر اپوزیشن جماعتیں ہمت کرکے وزیر اعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کراتی تو چند دن میں ہی حکومت کا خاتمہ ممکن ہوسکتا تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں موجود پرویز خٹک کے پوشیدہ حامی ان کو ہر صورت پشاور میٹرو منصوبہ کے افتتاح کا موقع دینا چاہتے ہیں، اپوزیشن کا یہ کہنا بالکل بلاجواز معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی کو آئینی مدت پوری کرنی چاہیے کیونکہ اگر موجودہ حالات میں حکومتی اکثریت کے خاتمہ کے بعد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی جانب سے اسمبلی توڑی جاتی ہے تو یہ مکمل آئینی اورجمہوری عمل ہوگا اور اس کے جمہوریت پر کوئی منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہونگے، ویسے بھی اسمبلی کی آئینی مدت میں چند ہی دن رہ گئے ہیں، دوسری طرف یہ امر بھی انتہائی باعث حیرت معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان کشیدگی انتہا پر پہنچنے کے باوجود نہ تو جماعت اسلامی حکومت سے نکلنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے اور نہ تحریک انصاف میں یہ ہمت ہے کہ جماعت اسلامی کو فارغ کردے، دونوں جماعتیں ایک طرف اصولی سیاست کی دعویدار ہیں اور دوسری طرف محض دو چار ہفتوں کی حکومت کے مزے لوٹنے کیلئے اپنے تمام تر اصول اور نظریات کو پیروں تلے کچل رہی ہیں اگر جماعت اسلامی کے الزامات کے مطابق واقعی تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت پر ہی سینٹ میں ووٹ دئیے ہیں ،اگر واقعی تحریک انصاف60کروڑ روپے میں بکی تو پھر ایسے لوگوں کیساتھ مزید حکومت میں رہنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے، اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ براہ راست سراج الحق کی جانب سے عمران خان کیخلاف سنگین الزامات کے بعد بھی تحریک انصاف محض چار ہفتوں کی حکومت بچانے کی خاطر خاموش ہے گویا دونوں جماعتوں کی جانب سے مفاد پرستی کی سیاست عروج پر ہے مگر دونوں جماعتوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کا ووٹر اتنا سادہ ہرگز نہیں دونوں جماعتوں کو اپنے اس طرز عمل پر جواب دہ ہونا پڑے گا ۔