ملتان میں گیلانی خاندان کی بزرگ شخصیت مخدوم وجاہت حسین گیلانی انتقال کر گئے۔ وہ مخدوم یوسف رضا گیلانی کے بہنوئی تھے اور سابق وفاقی وزیر حامد رضا گیلانی کے بھائی تھے۔ ان کی وفات پر مختلف سیاسی شخصیات کا تعزیت کیلئے ملتان آنا ہوا جن میں بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں۔ مختصر دورے پر آنے کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی گفتگو کی۔ خاص طور پر کراچی کے حالات ، بجلی اور پانی کی عدم فراہمی اور نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے بیانیہ پر اظہار خیال کیا۔ کراچی میں بجلی اور پانی کی کمیابی کی ذمہ داری خود لینے کی بجائے انہوں نے وفاقی حکومت پر اس کا سارا ملبہ ڈال دیا حالانکہ پچھلے دس برسوں سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ نواز شریف کے ووٹ کو عزت دو والے بیانیہ پر انہوں نے کہا کہ جو شخص خود پانچ سال کے عرصہ میں صرف 6 بار اسمبلی میں آیا ہو اسے اس قسم کے دعوے زیب نہیں دیتے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ پیپلزپارٹی 4 برس تک نواز شریف کو مکمل سپورٹ فراہم کرتی رہی اور آصف علی زرداری نے کئی بار علی الاعلان کہا تھا کہ میاں صاحب کی حکومت کو گرنے نہیں دیں گے اور وہ پانچ سال پورے کرے گی۔
خلاف معمول بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کی سیاست پر زیادہ گفتگو نہیں کی لیکن پیپلزپارٹی کے عزائم بتاتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس کا زیادہ فوکس جنوبی پنجاب ہی ہوگا۔ پارٹی کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اگلے کچھ عرصہ میں آصف علی زرداری جنوبی پنجاب کا تفصیلی دورہ کریں گے۔اس مقصد کیلئے پیپلزپارٹی کے مقامی رہنما اور خود آصف علی زرداری بھی یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے چند ایسی بڑی سیاسی شخصیات کو پیپلزپارٹی میں شامل کیا جائے جن کی شمولیت سے یہ تاثر ابھرے کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب میں مقبول ہو رہی ہے۔ یہ ایک مشکل ٹاسک ہے کیونکہ جنوبی پنجاب میں فی الوقت پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس لینے کیلئے ہاتھ پائوں ما رہی ہے لیکن صورتحال کچھ ایسی گمبھیر ہے کہ آسانی کے ساتھ جنوبی پنجاب میں نقب لگانا ممکن نہیں کیونکہ یہاں کی قوم پرست سرائیکی تنظیمیں اور نیا بننے والا صوبہ محاذ اپنی علیحدہ سیاسی قوت ثابت کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔
صوبہ محاذ کے ایک رہنما رانا قاسم نون نے تو واضح کردیاہے کہ جو سیاسی پارٹی علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریری یقین دہانی کرائی گئی اس کا ساتھ دیں گے۔ اب ظاہر ہے یہ کوئی آسان کھیل نہیں ہے کیونکہ نئے صوبہ کے قیام کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان کے اس اقدام سے جنوبی پنجاب کے سارے سٹیک ہولڈرز راضی ہوں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو لسانی بنیاد پر علیحدہ صوبہ کے خلاف ہیں۔ اگر صوبہ محاذ اور قوم پرست جماعتوں کا مطالبہ تسلیم کرلیا جاتا ہے تو جنوبی پنجاب میں بسنے والے ایسے افراد جو سرائیکی نہیں بولتے اس جماعت سے دور ہوسکتے ہیں۔ اب یہ ایسی کھچڑی پک رہی ہے ، جس کی فی الوقت کوئی حتمی شکل نظر نہیں آ رہی۔ ایک بات طے ہے کہ اب اس علاقہ میں علیحدہ صوبہ کیلئے لوگوں کے جذبات اور تصورات عملی شکل اختیار کر گئے ہیں اور ان کی ہر ممکن یہ کوشش اور خواہش ہے کہ یہاں علیحدہ صوبہ بن جائے۔
اس لئے توقع یہی ہے کہ 2018ء کے انتخابات سب سیاسی جماعتیں اس نعرے کی بنیاد پر لڑیں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون سی جماعت لوگوں کو زیادہ قائل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔ پیپلزپارٹی میں ایسی خوبی موجود ہے کہ وہ مختلف طبقوں کو اپنے اندرجذب کرلیتی ہے اور جہاں تک علیحدہ صوبہ کا تعلق ہے تو پیپلزپارٹی نے کبھی بھی اس کی مخالفت نہیں کی اگرچہ وہ اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے جو سندھ کے حوالے سے ہیں ، مصلحت کا شکار رہی ہے لیکن پچھلے دور حکومت میں بھی اس نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اب بھی غالباً ایک بڑے مطالبے کے طور پر وہ اسے اپنے منشور میں شامل کرے گی چونکہ سرائیکی قوم پرست تنظیموں کے لوگوں نے علیحدہ صوبہ کیلئے بہت کام کیا ہے اور وہ سرائیکی صوبہ کے بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف صوبہ محاذ تحریک کے نئے سٹیک ہولڈرز بھی سامنے آچکے ہیں۔
اس لئے پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو باقاعدہ یہ ٹاسک سونپ دیا ہے کہ وہ ان دونوں سے رابطے بڑھائیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کریں اور پیپلزپارٹی کو ایک بڑے سیاسی فریق کے طور پر میدان میں اتاریں۔ یوسف رضا گیلانی چونکہ اس خطہ کی سیاست اور تہذیب و ثقافت کی سمجھ بوجھ اور تاریخی شعور رکھتے ہیں اس لئے کوئی بعید نہیں کہ وہ پیپلزپارٹی کو ان سیاسی قوتوں سے باہم شیروشکر کرکے 2018ء کے انتخابات میں کوئی بڑا بریک تھرو دے سکیں۔ آنے والے وقت میں پیپلزپارٹی کو اس حوالے سے سب سے زیادہ خطرہ تحریک انصاف سے ہے۔ تحریک انصاف نے بھی علی اعلان یہ کہہ دیا ہے کہ علیحدہ صوبہ کا قیام ان کے منشور میں شامل ہوگا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صوبہ محاذ کے نام پر جو لوگ مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہوئے ہیں وہ درحقیقت تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حصہ لیں گے لیکن فی الوقت مصلحتاً انہوں نے شمولیت اختیار نہیں۔
انتخابات کو اعلان ہوتے ہی وہ جب تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کریں گے تو اس بات تو تقویت ملے گی کہ تحریک انصاف علیحدہ صوبہ بنانا چاہتی ہے اور صوبہ محاذ والے اس میں شامل ہو کر اس کو کامیاب بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ سب سے بری حالت مسلم لیگ ن کی ہے کیونکہ یہاں یہ تاثر عام ہوچکا ہے کہ مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ نہیں بنانا چاہتی۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے بہاولپور صوبہ کی حمایت کے اعلان کو بھی جنوبی پنجاب کے خلاف ایک سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن والے جب یہ کہتے ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حق میں ہیں تو کوئی ان پر یقین نہیں کرتا کسی کو بھی یقین نہیں آتا کہ مسلم لیگ ن پنجاب کا بٹوارہ کرے گی۔ سونے پہ سہاگہ پنجاب کے ملتان سے تعلق رکھنے والے گورنرملک رفیق رجوانہ کے دعوے اور اعلانات ہیں جو ن لیگ والوں کیلئے جگ ہنسائی کا سامان بن گئے ہیں۔ انہوں نے بغیر مشاورت کے اعلان کردیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سول سیکرٹریٹ بنایا جائے گا جہاں ایڈیشنل چیف سیکرٹری دیگر محکموں کے سیکرٹریز کے ساتھ موجود ہوں گے اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اپنے کاموں کیلئے لاہور نہیں جانا پڑے گا۔ غالباً یہ اعلان انہوں نے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کے مشورے کے بغیر کیا تھا۔ اس لئے اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔