امتیاز راشد
پاکستان الیکشن کمیشن کی 2018ء کے انتخابات کے لئے تیاریاں اور انتظامات آخری مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کے خلاف دائر اعتراضات کے ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کر رہا ہے اب تک 70سے زائد اضلاع کی حلقہ بندیوں کے فیصلے سنائے جا چکے ہیں اور 3مئی تک نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ووٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کا کام شروع ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔
صوبوں میں افسران کی نئی تعیناتی کے لئے فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں اور الیکشن کمیشن نے انتخابی عملے کے لئے چاروں صوبائی چیف سیکرٹریوں سے تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے عملہ کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے انتخابات میں استعمال ہونے والے میٹریل کی خریداری کا کام جاری ہے جس کے بعد انتخابی فہرستوں کی حتمی فہرستیں جاری کی جائیں گی اور اگلے ماہ کے آخر تک الیکشن شیڈول کے اعلان کا امکان ہے۔ اس سے قبل وفاق اور صوبوں میں حکومتوں اور اپوزیشن کے تعاون سے نگران سیٹ اپ کا اعلان کیا جائے گا جو ملک میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہو گا۔ اب جبکہ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ایک ماہ باقی ہے الیکشن کمیشن کے نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں بڑے پیمانے پر رٹ پٹیشن دائر ہونے سے انتخابات کچھ عرصہ کے لئے موخر ہونے کے امکانات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جیسا کہ پاکستان الیکشن کمیشن نے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے چاروں صوبوں کے سرکاری محکموں میں بھرتیوں پر پابندی لگا دی ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے از خود نوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن سے جواب طلب کر لیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت سرکاری محکموں میں بھرتیوں پر الیکشن شیڈول سے قبل پابندی لگائی ہے؟ اسی طرح نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کمی بیشی کر کے نئی حلقہ بندیاں تشکیل دی ہیں اس میں کئی سقم موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر فریقین اعلیٰ عدالتوں سے انصاف کے حصول کے لئے رجوع کر رہے ہیں۔
پاکستان الیکشن کمیشن نے انتخابات کے پیش نظر ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں اور اتوار کے روز بھی الیکشن کمیشن کے دفاتر کھلے رہیں گے۔ الیکشن کمیشن کے تمام دفاتر میں ووٹر لسٹوں کو دیکھنے کے لئے ڈسپلے سنٹر قائم کر رکھے ہیں اور 24اپریل تک تمام اضلاع میں ووٹ کے اندراج اور ووٹ کی تبدیلی کا کام جاری رہا جہاں ہزاروں افراد نے نئی حلقہ بندیوں کے مطابق اپنے ووٹ درج کرائے۔ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ابھی تک غیریقینی کی فضا قائم ہے کہ الیکشن وقت پر ہونے بھی ہیں یا نہیں۔ اگلا مہینہ رمضان شریف کا ہے اس کے بعد عیدالفطر کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ شدید گرمی کا موسم شروع ہو جائے گا تاہم اس کے باوجود سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں۔
منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں انتخابی مہم کے شیڈول دیئے جا رہے ہیں۔ انتخابی دفاتر قائم کرنے کے لئے دفاتر کی تلاش جاری ہے۔ جب نگران وزیر اعظم کا نام سامنے آ جائے گا، اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی تو شاید پھر انتخابات کے بارے اطمینان ہو جائے گا کہ وہ بروقت اور ضرور ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقین نہیں ہے کہ الیکشن بروقت اور شفاف ہوں گے۔ تحریک انصاف والے مطمئن ہیں کہ الیکشن بروقت ہوں گے اور اسی لحاظ سے ان کی انتخابی تیاریاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ الیکشن بروقت ہوتے ہیں تو اس سے ملک اور قوم کو بڑا فائدہ پہنچے گا جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہی کہا جا رہا ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں دمادم مست قلندر ہو گا جبکہ آصف علی زراردی تو یہ خواب بھی دیکھ چکے ہیں کہ آئندہ الیکشن کے نتائج کی روشنی میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی۔ پنجاب اور سندھ میں ان کے وزراء اعلیٰ ہوں گے۔ ملک کی بعض چھوٹی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبات بھی دیکھنے اور سننے میں آ رہے ہیں کہ احتساب مکمل ہو جانے کے بعد الیکشن کرائے جائیں لیکن اس قسم کے مطالبات پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ احتساب کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
ادھر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے دیئے گئے بیان نے سیاسی گرمی میں اور اضافہ کردیا ہے جہاں تک مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا تعلق ہے آنیوالے دنوں میں گٹھ جوڑ کی سیاست کا بازار خوب سجے گا دوسری طرف جمعت علمائے پاکستان کے صاحبزادہ احمد شاہ اویس نورانی کی طرف سے بھی ن لیگ کی حمایت کا امکان ہے ۔