• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انٹرنیٹ آف تھنگس  (IoT)

ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا انقلاب جنم لے رہا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں چائے کی پیالیاں آپس میں باتیں کریں گی اور گملے میں نصب پودے اپنا پیغام خود ترسیل کریں گے۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بات مذاق ہے تو آئیے مستقبل قریب کا ایک منظرنامہ آپ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ شاید آپ کو محسوس ہو کہ یہ منظرنامہ کسی سائنس فکشن فلم کا ہے لیکن درحقیقت یہ منظرنامے پہلے ہی حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں۔

(aایک صبح دروازے پر دستک ہوتی ہے، آپ دروازے تک جاتے ہیں تو وہاں موجود بیکری والا کہتا ہے کہ اسے آپ کے فریج نےانڈے ختم ہونے پر میسج بھیجا ہے۔(bآپ کے فون پر ایک ٹیکسٹ پیغام نمودار ہوتا ہے، جس میں گلاب کا پودا پیاس کے مارے چیخ رہا ہے۔ (c آپ جیسے ہی کافی ختم کرتے ہیں تو کپ پرپیغام نمودار ہوتاہے، جس میں پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ تھوڑی اور کافی پینا پسند کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔! اس نئے اُبھرتے ہوئے منظر نامے کو’ انٹرنیٹ آف تھنگس‘(IoT) یا اشیائے انٹرنیٹ کا نام دیا گیا ہے، جس میں انٹرنیٹ ہر بے جان شے میں نفوذ کرجائے گا اور گھر کی بے جان اشیاء اپنا احساس دلانے لگیں گی۔

انٹرنیٹ آف تھنگس کی ترقی

امریکی شہر گریٹ فالز میں واقع الیکس ہاکنسن نامی انجینئر کا یہ گھر ایک خصوصیت رکھتا ہے۔ اس میں ایسے سیکڑوں مشینی آلات موجود ہیں، جو روزمرہ کاموں میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ یہ مشینی آلات، کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ جگہ جگہ دِکھائی دیتے ہیں۔کھڑکیوں، دروازوں، دیواروں حتیٰ کہ کمروں کی چھتوں پر! اور یہ ننھے آلات، نیٹ ورکنگ کی بدولت ایک دوسرے سے مسلسل محو گفتگو رہتے ہیں۔ الیکس ہاکنسن کے گھر میں کافی کی ایسی پیالیاں موجود ہیں، جو الارم کلاک سے باتیں کرتی ہیں۔ ایسے تھرموسٹیٹ ہیںجو موشن سینسرز کو ہدایات دیتے ہیں۔اس گھر میں ایسی ننھی مشینیں آباد ہیں، جن میں مصنوعی ہی سہی، زندگی ضرور دوڑ چکی ہے۔ یہ منظرنامہ عیاں کرتا ہے کہ بنی نوع انسان کی زندگی میں ایک نیا انقلاب جنم لے چکا۔ یہ کایا پلٹ، ریڈیائی لہروں کے ذریعے کام کرنے والے وائرلیس نظام ’’وائی فائی ‘‘(Wi-Fi) اور اسمارٹ فونز کے ایجاد کے ذریعے ممکن ہوئی ہے۔ مشین اور انسان کا ایسا قریبی میل ملاپ انسانی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے۔

اس شعبے کی تیز رفتار ترقی دیکھتے ہوئے ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2025ء تک دنیا میں ایک کھرب نیٹ ورک آلات انسانوں کی خدمت میں مصروف عمل ہوں گے۔ صرف ایک امریکی کمپنی، جنرل الیکٹرک کی مثال دیکھئے۔ یہ کمپنی اپنے پچاس مختلف منصوبوں میں سینسرزاور ننھے آلات کی مدد سے کام آسان بنا چکی ہے۔ ان میں پن چکیاں اور ریلوے انجن جیسے بڑے منصوبوں سے لے کر مائونٹ سینائی میڈیکل سینٹر (نیویارک) جیسا جدید منصوبہ شامل ہے۔ اس ہسپتال کے بستروں میں نصب سینسرانتظامیہ کو اطلاع دیتے ہیں کہ بستر خالی ہوچکاہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند برسوںمیں انٹرنیٹ آف تھنگس، دنیا خصوصاً مغربی ممالک میں چھاجائے گی۔ وہاں کروڑوں چھوٹے چھوٹے آلات انسانی زندگی بہت سہل بنا دیں گے۔ یقیناً انٹرنیٹ سے منسلک آلات کو مختلف طرح کےوائرس اور ہیکرز سے خطرہ رہے گالیکن مضبوط سیکورٹی کے ذریعے یہ حملے ناکام بنا دیے جائیں گے۔

ایک اور حقیقی منظرنامہ

سان فرانسسکو میں آئی ٹی ماہر ’’ ٹم کوٹس‘‘ کے گھر میں بظاہر کوئی انوکھی بات نہیں لیکن یہاں موجود تمام گملوں کی مٹی میں ننھے سینسر نظرآئیں گے، جو پودے کی نمی پر نظر رکھتے ہوئے، اس کی کمی بیشی کی خبر انٹرنیٹ پر بھیجتے ہیں۔ یہی نہیں ان کے گھر کا ہر کمرہ سینسرز سے لیس ہے اور آنے جانے والوں کو نوٹ کرتا ہے جب کہ انٹرنیٹ سے جُڑکر ہراہم گھریلو شے ٹوئیٹ کرتی ہے اور اس طرح بے جان اشیاء کو بھی جان مل گئی ہے۔ان سب اشیاء میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ یا کسی گھریلو نیٹ ورک سے جڑی ہیں۔ ٹم کوٹس اس بات پر خوش ہیں کہ ان کا گھر بے جان نہیں بلکہ ایک باشعور مقام ہے۔ ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہی ہیٹر، اے سی یا پنکھے خود بخود آن ہوجاتے ہیں، سیڑھیوں پر سے قدم ہٹانے کے چند لمحوں بعد روشنیاں گُل ہوجاتی ہیں، تمام اشیاء اپنی ضرورت کے لحاظ سے وائی فائی، بلیو ٹوتھ یا زگ بی نیٹ ورک استعمال کرتی ہیں۔

انٹرنیٹ آف تھنگس سے طبی دنیا میں بھی ایک انقلاب آگیا ہے اور اب مریضوں کے جسم میں ایسے سینسر نصب کیے جارہے ہیں، جو وائرلیس نیٹ ورک سے جُڑ کر پل پل کی خبر انٹرنیٹ پر جاری کرتے ہیں، جنہیں ڈاکٹر اور ماہرین دیکھ سکتے ہیں اور فوری طور پر مناسب قدم اُٹھا سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے ان کمالات سے جُڑے کئی اہم سوالات بھی ہیں، جن کے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔ کیا ہم اطلاعات کے اس سیلاب کو سنبھال سکیں گے؟ ایسے آلات کے لیے بجلی اور نیٹ ورک کی فراہمی ایک مسئلہ ہے ۔ سماجی لحاظ سے کیا یہ آلات ہماری پرائیویسی کو متاثر کرسکتے ہیں؟

امریکی مدبر، نارمن پیلے نے کہا تھا،’’اپنے خیالات بدلیے اور دنیا کو بھی بدل ڈالیے‘‘۔ انٹرنیٹ آف تھنگس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ننھی منی نیم خودمختار مشینوں کی آمد حقیقتاً ہماری دنیا بدل ڈالے گی۔

تازہ ترین