• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی تاحیات نااہل ہو گئے ہیں کیونکہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملکی آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت فیصلہ دیا ہے کہ دونوں رہنما صادق اور امین نہیں ہیں اور انہوں نے جھوٹ بولا ہے ۔ یہ خبر اگلے روز دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینلز نے نشر کی اور اخبارات نے شائع کی اس سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا کہ پاکستان کے سیاسی رہنما اور منتخب عوامی نمائندے معاملات میں دیانت دار نہیں ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ کئی قومیں ایسی ہیں ، جہاں بددیانتی اور جھوٹ کو کرپشن اور انسانی قتل سے بھی زیادہ بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سرور کائنات ﷺ نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ اگر تمام برائیوں سے بچنا ہے تو جھوٹ بولنا بند کر دیا جائے ۔ بیرونی دنیا میں اس طرح کی خبروں سے پاکستان اور پاکستانی قوم کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ بھاری دل کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ سیاست دانوں کو معاملات پارلیمنٹ میں حل کرنے چاہئیں۔صادق اور امین معاملات میں ٹھیک ہوں اور بینک وغیرہ میں ڈیفالٹرنہ ہوں اور پارلیمنٹ کے لئے کوالیفائی کرتے ہوں۔ عدالتوں کو سیاسی مقدمات میں نہیں الجھانا چاہئے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پارلیمنٹ ہر مسئلہ حل کر سکتی ہے کیونکہ تمام جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ ریاست کا سپریم ادارہ ہوتی ہے لیکن ہمارے سیاست دان اس ادارے کی بالادستی قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں تین سال تک جیل بھی کاٹی ہے ۔ مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوری اور پارلیمانی احتساب کا نظام ابھی تک رائج نہیں کیا جا سکا ، جس کی وجہ سے عدلیہ اور دیگر اداروں کو وہ کام کرنا پڑتا ہے ، جو منتخب اداروں کو کرناچاہئے ۔ آج ہمارے سیاست دان کہہ رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کو ختم نہ کرکے انہوں نے بڑی غلطی کی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ آرٹیکلز ایک فوجی آمر نے آئین میں شامل کرائے تھے ، جن کا مقصد یہ تھا کہ سیاست اور سیاست دانوں کو کمزور یا ختم کرنے کی پرانی خواہش کی تکمیل کی جا سکے ۔ صرف یہ دو آرٹیکلز سیاست دانوں کے خیال میں پروڈا ( پبلک اینڈ ری پریزینٹیٹو آفس ڈس کوالیفکیشن ایکٹ ) 1949ء اور ایبڈو ( الیکٹو باڈیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر ) 1969 کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں ۔ ان دو قوانین کے تحت پاکستان کے سینکڑوں سیاست دانوں کو نااہل قرار دے کر پاکستان میں آمریت کیلئے راہیں ہموار کی گئیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں احتساب کو سیاست اور جمہوریت کا راستہ روکنے کیلئے استعمال کیا گیا ہو لیکن اس وجہ سے احتساب کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ماضی کے سیاست دان احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بننے کے باوجود بلند کردار اور باہمت تھے اور انہوںنے آمریتوں کو للکارا ۔ آج کے سیاست دانوں کا بیانیہ ہی صرف غیر سیاسی قوتوں کو خوش کرنیوالا بیانیہ ہے ۔ وہ عوام کی بات کرتے ہی نہیں ہیں ۔ اسکا سبب یہ ہے کہ آج کے سیاست دانوں میں بہت کمزوریاں ہیں ۔ ان میں بڑی تعداد میں کرپٹ، ڈیفالٹر اور لاعلم ہیں۔ ان میں یہ جرات ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے اہم داخلی اور خارجی معاملات میں غلط پالیسیوں کی نشاندہی یا ان سے اختلاف کر سکیں ۔ بہت سے معاملات سے سیاست دان خود ہی دستبردار ہو چکے ہیں ۔ لہٰذا ان کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کسی قانون یا آئین کی کسی شق کو صرف اس لئے ختم کر دیا جائے کہ وہ کسی آمر کا لایا ہوا قانون ہے ۔ ان کو اٹھارویں ترمیم میں موقع ملا تھا مگر انہوں نے ختم نہیں کیا۔
جو لوگ عوام کی نمائندگی کا مقدس فریضہ انجام دیتے ہیں ، انہیں لازمی طور پر دیانت دار ہونا چاہئے کیونکہ انہیںنے نہ صرف قوموں کی قیادت کرنا ہوتی ہے بلکہ قومی اختلافات کی بھی تعمیر کرنا ہوتی ہے۔ آرٹیکلز 62 اور 63 ء کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن انہیں ختم کرنے کو اب شاید عوام پسند نہیں کریں گے ۔ پارلیمانی اور جمہوری نظام احتساب رائج نہ ہونے کی وجہ سے یہ سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ پارلیمنٹ کے اندر کئی مرتبہ قرضے معاف کرانے والوں کی فہرستیں پیش کی گئیں لیکن پارلیمنٹ اس معاملے پر کوئی فیصلہ یا کارروائی نہ کر سکی ۔ پاکستان کے عوام کو اس بات سے مایوسی ہوئی کیونکہ غریب کسانوں کو صرف سینکڑوں روپے کا قرضہ واپس نہ کرنے پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور اربوں روپے کے قرض دہندگان سے کہا جاتا ہے کہ وہ مزے کریں اور انکے قرض معاف کر دیئے گئے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کی سیاست اور معیشت پر انہی افراد کو بالادستی حاصل ہے ، جنہوں نے کروڑوں اور اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار کے اس حکم پر پوری قوم خوش ہے کہ قرضہ معاف کرانے والوں سے قوم کا پیسہ واپس لیا جائے گا ۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں کئی مرتبہ اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی کہ پاکستان کا سرمایہ باہر جا رہا ہے ۔ اس پر بھی پارلیمنٹ کوئی قانون سازی کا فیصلہ نہ کر سکی اور سرمائے کا بہاؤ جاری رہا ۔ یہ کام بھی عدلیہ نے کیا ۔ چیف جسٹس نے ان افراد کی فہرستیں طلب کر لی ہیں ، جنہوں نے 50ہزار ڈالرز سے زیادہ سرمایہ پاکستان سے باہر بھیجا ہے ۔ اس پر بھی پوری قوم خوش ہے اس طرح گورننس کے ایشوز پر عدلیہ کی کارروائیوں پر بھی پاکستان کے عوام ریلیف محسوس کر رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانا سیاسی حکومتوں کا کام تھا ۔ سرکاری دفاتر میں عوام کے کام بلا رکاوٹ ہونے کا نظام سیاست دانوں کو وضع کرنا تھا ۔ پولیس اور دیگر اداروں کی زیادتیوں اور ناانصافیوں سے لوگوں کو بچانے کا فریضہ سیاسی قیادت کا ہے ۔ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ذمہ دار بھی سیاست دان ہیں ۔ یہ سارے کام انہوں نے نہیں کئے ۔ آخر کسی کو تو خلا پر کرنا تھا ۔ کرپشن ، لوٹ مار ، سرکاری اداروں میں قدم قدم پر عوام کے ساتھ زیادتی ، تعلیم ، صحت ، پانی ، بجلی ، گیس ، روزگار اور دیگر سہولتوں کے فقدان نے پاکستان کو انتشار اور انارکی کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ عوام کو اعلیٰ عدلیہ سے بڑی امید ہے۔ بقول شاعر
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
عدلیہ کے حالیہ فیصلوں اور اقدامات سے جو حشر بپا ہے ، اس پر لوگ خوش ہیں ۔
اس کا موقع شاید ہمارے سیاست دانوں نے مہیا کیا ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے سیاست دان اپنے آپ کو مخصوص مفادات سے الگ کریں اور فریضہ قیادت کے تقدس کا خیال رکھیں ۔ سیاست ایک مقدس پیشہ ہے۔ عوام کی نمائندگی ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔ ان قوموں نے ترقی کی ہے ، جو بدعنوانی اور جھوٹ سے نفرت کرتی ہیں ۔ جہاں میرٹ اور شفافیت ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کے ذریعہ معاملات درست ہو رہے ہیں تو ہونے دیئے جائیں کیونکہ حالات اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں ۔ ان حالات میں بھی سیاست دان ایمنسٹی اسکیم دے کر ناجائز دولت کو جائز قرار دینے کے اقدامات کر رہے ہیں ۔ یہ حیرت کی بات ہے ۔ عدلیہ بھی اگر نوٹس نہ لے تو پاکستان کے عوام کہاں جائیں ۔ عدلیہ یہ کام اس ضمانت کے ساتھ کر رہی ہے کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دے گی اور مارشل لاء بھی نافذ نہیں ہونے دے گی ۔ سیاست دان اپنا کام نہیں کریں گے تو حشر برپا ہو گا ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین