• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان چین اقتصادی راہداری کیا شروع ہوئی کہ دُنیا بھر کے ممالک میں اقتصادی معاشی راہداریوں کی دوڑ شروع ہوگئی۔ ایشیا کے مستقبل کو طے کرنے کے لئے عالمی سطح پر معاشی طور پر مقابلہ جاری ہے۔ علاقائی طاقتیں سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنوں کی تعمیر کرکے یا ایک خطے کو دوسرے خطے سے جوڑ رہی ہیں، مختلف ممالک کے سرکاری ذرائع سے حاصل شدہ رپورٹ کے مطابق ہر ملک نے بڑے ہیکل اساسی کی ترجیحات کو نمایاں کیا ہے۔
پاکستان نے 2025ء کا جو ویژن بنایا یعنی منزلِ مقصود کا تعین کیا ہے اُس کے سات ستون ہیں اُن کی بنیاد ملک میں تبدیلی، صورتِ حال میں یقینی تعبیر اور نئے مواقع اپنے اندرونی وسائل سے حاصل کرنا، پاکستان کے قدرتی وسائل جن کو تاحال استعمال نہیں کیا گیا ہے کو استعمال میں لا کر پاکستان کو ایک عظیم قوت بن کر ابھرنے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس سے وہ معاشی طاقت بن جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ اگر وسائل پیدا کر لئے جائیں، اُن کا درست بندوبست ہو اور اُن کا استعمال ماہرانہ ہو۔ پاکستان کو کامل یقین ہے کہ 2025ء تک وہ ایک پھلتا پھولتا اور صحیح اور مربوط سوسائٹی کا حامل ملک بن کر ابھرے گا۔ پاکستان دنیا کا آبادی کے لحاظ سے ساتواں بڑا ملک ہے اور اُس کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔ ویژن 2025ء ٹیکنالوجی اور علم کی طاقت کو بروئے کار لا کر پاکستان اپنے طریقہ کار کو تبدیل، رابطوں کو بہتر، اقدار کی بحالی اور تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔ پاکستان ایشیا کا معاشی شیر بننا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی حکمرانی، بذریعہ جمہوری حکومتی ادارے اور اُن میںاصلاحات کرکے پرا ئیو یٹ سیکٹر کو جدید طریقوں سے استوار کرکے، پاک چین معاشی راہداری، مواصلاتی نظام کو ترقی، سول سروس میں اصلاحات اور پبلک سیکٹر کو جدید، کرپشن کے خلاف مہم، ٹیلنٹ کو اسکالر شپ دے کر اور قومی ترقی کے لئے وقف کرکے، دیہی ترقی کے مراکز، نوجوانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کرکے پاکستان عظیم طاقت بننا چاہتاہے۔
بھارت کی بات کی جائے تو جنوبی ایشیائی ممالک علاقائی تنظیم تو مردہ ہوچکی ہے۔ اب مودی حکومت نے اس پر کام شروع کردیا ہے کہ پڑوسی ممالک کے گروپوں میں اتحاد اُن کی مرضی کے مطابق اصول پر اور علاقائی معاشی مقاصد کے حصول کے لئے جمع کرنا شروع کرے جہاں تک عالمی عزائم کی بات ہے تو چابہار کی بندرگاہ کو پروان چڑھا کر وہ پاکستان کو نظرانداز کرکے ایران سے یورپ اور سینٹرل ایشیا تک رسائی چاہتا ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی وضع کرچکا ہے اور وہ آسیان ممالک سے تعلقات استوار کررہا ہے اور اپنے جنوبی علاقہ جو زمین بند ہے وہاں سے برما کے ذریعے تھائی لینڈ تک ایک راستہ بنا کر آسیان ممالک تک پہنچنے کا خواہاں ہے۔2013ء میں چین نے ایک سڑک اور ایک پٹی (One Belt One Road) کا تصور پیش کیا جو یوروایشین ممالک کو آپس میں ملاتا ہے۔ بحری بنیادوں پر شاہراہ ریشم بنایا۔ 21 ویں صدی کا بڑا کارنامہ ہے۔ دوسری زمینی طویل ترین شاہراہ کا بننا، چینی صدر ژی پنگ OBOR خارجہ پالیسی کا بہترین منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ یہ چین کی غیرمعمولی صلاحیت اور اس کے عظیم مقاصد کا مظہر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں سارے راستے بیجنگ کی طرف رواں دواں ہوں گے تاہم OBOR نقشہ تاحال مکمل نہیں ہوا ہے۔ وہ ابھی تک کھلا ہوا ہے۔ اس میں مزید ممالک شامل ہوں گے تو پیچیدگی کے بھی بڑھنےکے امکانات ہیں۔ یہ نئے اور پرانے منصوبوں کو ملاتا ہے اور عالمی ارضی جغرافیہ کے عزائم کو غیریقینی بناتا ہے اور ساتھ ساتھ دُنیا بھر میں تہذیبی تعلقات کو بھی جوڑتا ہے۔
برسوں تک تنہا رہنے کے بعد ایران اپنے آپ کو مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار کررہا ہے، پابندیوں کے ہٹنے کے بعد اور وہاں غیرملکی سرمایہ کاری کی بنا پر ایران ہر سال دو ہزار کلومیٹر کی ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے اور پانچ برسوں میں وہ دس ہزار کلومیٹر کی ریلوے ٹریک بنائے گا۔شمالی جنوبی راہداری میںمرکزی حیثیت بنانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے جو ماسکو سے ممبئی تک راہداری فراہم کرے گا۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ وہ راہداری کا محور بن جائے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ مشرق و مغربی ممالک کو جوڑ دے جن میں عراق افغانستان شامل ہیں۔ تجارت اور ٹرانسپورٹ کو سینٹرل ایشیا تک بڑھانے میں ایران نے سینٹرل ایشیائی ممالک کے ایک معاہدہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
مشرق و مغرب کو جوڑنے کا جاپان کا کئی عشروں سے ویژن رہا ہے کہ وہ جنوبی مشرقی ایشیا میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جہاںجاپان کی سپلائی کا سلسلہ پہلے ہی سے قائم ہے اور خصوصاً سمندر تک اُس کی رسائی پہلے سے موجود ہے۔ جاپان اپنے ان فوائد کے دفاع کے لئے ہرممکن کوشش کررہا ہے اور اس نے اپنے فنڈز کی مقدار کو بڑھایا ہے تاکہ وہ اعلیٰ پیمانے اور اعلیٰ معیار کی اشیا کی فراہمی مستقل خطے میں قائم رکھ سکے۔ اس کے علاوہ آسیان ممالک تک اُس کی رسائی مضبوطی سے قائم رہے۔ اس کا ماسٹر پلان موجود ہے اور اُس کے تحت وہ نئے ممالک اور راہداریوں کو بروئے کار لا کر اپنے خلیج بنگال سے لے کر جنوبی بحر چین تک اپنی تعلق اور راہداری کو قائم رکھے۔ جاپان کے وزیراعظم شنزوابے نے اپنے قدم سفارت کاری کے ذریعے بڑھائے ہیں انہوں نے پانچ مرکزی ممالک کا دورہ کیا ہے اور ایسا کرنے والے وہ پہلے وزیراعظم ہیں۔ روسی بصیرت نرم اور سخت ہیکل اساسی پر مشتمل ہے۔ اس نے مشرقی معاشی اتحاد جسے وہ Eastern Economic Union کہتے ہیں، وہ دراصل اُس کو مشرق سے جوڑنے کی علاقائی گاڑی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی چینی ایک سڑک اور ایک پٹی سے مل کر کام کرے گی۔ مشرق کی طرف معاشی اور سفارتی طور پر جھکتے ہوئے اُس خطے کو ہی اپنا محور بنا لیا ہے، چین کو روس اپنے تیل اور گیس کی ترسیل کررہا ہے اور کئی پائپ لائنیں تسلسل کے ساتھ تعمیر کررہا ہے۔ جنوبی خطہ میں وہ اپنے تعلقات آذربائیجان، ایران اور انڈیا سے بذریعہ شمالی جنوب ٹرانسپورٹ راہداری بڑھا رہا ہے۔ اس کے شمال میں روس مزید انرجی کے منصوبہ جات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے اور ساتھ وہ چاہتاہے کہ اُس کی دفاعی مفادات کی وجہ سے شمالی قطبی تک اُس کی رسائی آسان ہوجائے۔ شنید ہے کہ پاکستان سے اقتصاوی راہداری ((RPECپر بات چیت ہورہی ہے۔
بحری ممالک برونوئی، دارلسلام، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن اور سنگاپور مل کر آسیان بحری معاشی راہداری سے ملانے اور بندرگاہوں کو ترقی دے کر جدید بنا رہےہیں۔ دوسری طرف مرکزی زمین، کمبوڈیا، لائوس، نیجار، تھائی لینڈ اور ویتنام بڑی بڑی سڑکیں یا ہائی ویز تعمیر کررہے ہیں جس کو وہ عظیم تر میکونگ ثانوی علاقائی راہداری کہتے ہیں۔ اس طرح ایشیا کے ممالک راہداریوں اور آپس میں ایک دوسرے سے جوڑنے میں لگ گئے ہیں اور ایک بڑے منصوبے کا تصور لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ درست ہی ہے کہ یہ صدی ایشیا ہی کی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین